ہمارے پروسی ملک بھارت میں گذشتہ ماہ دہلی ہائیکورٹ کی طرف سے ایسا فیصلہ آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی جائیداد بیوی کے نام میں خریدبھی لی جائے تو شوہرتب بھی اُس جائیداد کی ملکیت حاصل کرسکتا ہے کیونکہ شوہراپنے ذرائع آمدن کی وضاحت کرسکتا ہے جبکہ ایک گھریلو خاتون جوکہ بیوی ہوتی ہے اِس کا براہ راست کوئی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہوتاہے لہٰذاکسی قسم کے ذرائع آمدن کی وضاحت نہیں کرسکتی ہے۔
بھارتی عدالت ِعالیہ کے جسٹس ویلمکی جے مہتا نے اپنے حکم نامے میںیہ کہا ہے کہ جائیدادکی خریدی کاتعلق شوہر سے ہوتاہے جبکہ بیوی کے نام پر جائیدادصرف عنوان کی حیثیت یعنی’’ برائے نام یا بینامی‘‘ ہوتی ہے۔بھارتی عدالت ِعالیہ نے اپنے حکم نامے میں ماتحت عدالت کے اُس حکم کوکالعدم قرار دیا جس میں مقدمے کے فیصلہ میںماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھاکہ شوہر اپنی بیوی کے نام پر خریدی گئی جائیداد کی ملکیت کا دعویدار نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ معاملہ بھارت کے’’ بینامی ٹرانزیکشن ایکٹ‘‘ کے تحت ممانعت رکھتاہے جبکہ شوہر کے وکیل نے عدالت ِ عالیہ کی معاونت کرتے ہوئے بتایا کہ شوہرنے دوران سماعت اپنامعروف ذرائع آمدن ظاہر کیا مگر مذکورہ ایکٹ میں اِس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے جس کے جواب میں بھارتی عدالت ِعالیہ کے جج نے ریماکس دئیے کہ یہ بات تو ماتحت عدالت کی سماعت کے دوران ہی ثابت ہوگئی تھی کہ شوہر نے جائیداد معروف ذرائع آمدن کی بدولت خریدی تھی۔
بھارتی عدالت ِعالیہ نے مقدمے کی سماعت پر ماتحت عدالت کے فیصلے کو’’بدقسمتی ‘‘ قرار دیا اورمزید کہا کہ ماتحت عدالت نے شوہر کے دعویٰ کو مستردکرتے ہوئے بنیادی غلطی اور حقیقت کو نظر انداز کیا ہے۔
میری رائے میں پاکستان میں بھی ایک ایساہی قانون متعارف کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے تحت ’’شوہرکو بیوی کے نام پر خریدی گئی جائیدادکا اصل مالک ہونا چاہئے ‘‘کیونکہ اِس معاملے کی خاص وجہ ہمارے معاشرے میں خود غرضی اور لالچ کی شریح میں بے پناہ اضافہ ہے جس کی وجہ سے ایک شخص جو شوہر ہوتا ہے پوری زندگی کی جمع پونجی’’ محبت‘‘کی وجہ سے اپنی بیوی کے نام جائیداد کی شکل میں لگادیتا ہے۔
پیشہ وکالت سے منسلک ہونے کی وجہ سے چند ایسے واقعات پر بھی میری نظر رہتی ہے جوآج کل کے دور میں ہمارے معاشرے میں غیروں کی تربیت کا نتیجہ ہیں اِس میں اہم کردار ’’کیبل ٹی وی‘‘پر پیش کیے جانے والے ڈراموںکا ہے۔ کچھ گھروں میں اُولاد کے جوان ہونے کے بعد اگر کوئی اُولاد ہی میں سے نافرمان، خود غرض یا لالچی ہو جائے تو اِس صورتحال میں اُس اُولاد کے باپ یعنی شوہر کیلئے مشکلات پیداہوجاتی ہیںجس نے پوری زندگی کی جمع پونجی اپنی بیوی کے نام کی ہوتی ہے اِسی وجہ سے ہمارے ہاں بزرگوں کی ایک تعداد جن میں اکثریت مردوں کی ہے اپنے گھروں یا پھر ’’اولڈ ایج سینٹروں‘‘ میں اپنا بڑھاپا مشکل حالات میں گزاررہے ہوتے ہیں مگر ’’پانچوں اُنگیاں برابر نہیں ہوتی ہیں‘‘آج بھی اِسی معاشرے میں اچھی بیویاں اور اُولادیں موجود ہیں جن کی وجہ سے یہ معاشرے چل رہا ہے ۔ ’’برائی ہمیشہ کم ہوتی ہے مگر نمایاں ہوجاتی ہے ‘‘۔
پاکستان ایک’’ اسلامی جمہوریہ ‘‘ہے یہاں ہر قانون کو ترتیب دینے سے قبل اسلامی پہلوئوں کا بھی جائزہ لینابھی بہت ضروری ہوتاہے جبکہ بھارت مذہبی لحاظ سے ایک ’’سیکولر ملک‘‘ ہے مگروہاں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد پاکستان سے بہت زیادہ ہے وہاں بھی بڑے بڑے عالمِ دین موجود ہیں جنہوں نے اپنے عدالتِ عالیہ کے فیصلہ کو سراہا ہے تو مجھے اِس بات کی قوی اُمید ہے اگر ایسا کوئی قانون پاکستان میں بھی بنایا جائے تو کوئی بھی اِس کی مخالف نہیں کرے گا کیونکہ ایسے قانون کی موجودگی میں اِس طرح کی مقدمہ بازی کا خاتمہ ہوجائے گا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق شوہر کوبیوی کی نسبت جو ’’افضل مقام ‘‘حاصل ہے اُس میں مزید مضبوتی آئے گی ویسے بھی موجودہ وزیراعظم پاکستان نے ملک کو ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کی طرز پر اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کررکھا ہے جو ہرمسلمان کا خواب ہے ۔