858ءایران کے شہر طور میں پیدا ہوئے۔ والد کپڑا بناتے تھے، جن کی وجہ سے نسبت حلّاج پڑ گئی۔ بارہ برس کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا۔ بچپن ہی سے آیات کے باطنی معنی تلاش کرنے کا شوق تھا۔
897ء
دوسرا حج کرنے کے بعد بحری جہاز کے ذریعے ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ جس کے دوران ہندو مت اور بدھ مت کے پیروکاروں سے واسطہ پڑا۔ ہندوستان میں انھوں نے ملتان اور منصورہ کا سفر کیا۔ بغداد واپسی پر آپ پے جادو، افسوں طرازی اور جنات سے رابطے کے الزامات لگے۔ گلیوں بازاروں میں والہانہ انداز میں اشعار پڑھتے اور خدا سے عشق کا اظہار کرتے۔ خود کھانا کھانے کی بجائے اپنے سیاہ رنگ کا کتے کو کھلایا کرتے تھے، جس کو وہ اپنا نفس کہا کرتے تھے۔ اسی دوران ایک دن صوفی بزرگ شبلی کے دروازے پر دستک دی۔ جب شبلی نے پوچھا کون ہے، تو جواب میں یہ مشہور فقرہ کہا "اناالحق"۔
913ء
گرفتار کر لیا گیا اور نو برس تک نظر بند رکھا گیا۔ نظر بندی کے دوران کتاب الطواسین مکمل کی۔ آخر بارسوخ وزیر حامد العباس کی ایما پر مقدمہ چلایا گیا اور قاضی ابوعمر ابن یوسف نے حکم نامہ جاری کر دیا گیا کہ تمہارا خون بہانا جائز ہے۔
25 مارچ 922ء کی رات کو قید خانے میں ابنِ خفیف آ کر ملے اور پوچھا "عشق کیا ہے؟" حلّاج نے جواب دیا "کل خود دیکھ لینا"۔
26 مارچ 922ء
تذکرۃ الاولیاء میں مرقوم ہے کہ ’’حلاج کے کان، ناک کاٹ دیے گئے اس کے آخری کلام کے بعد اس کی زبان کاٹ دی گئی پھر نماز شام کے وقت اس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔‘‘ ایک اور روایت جو کچھ یوں ہے کہ ’’حلاج نے اپنے دونوں کٹے ہوئے خون آلود بازو اپنے چہرے پر ملے اور ان کا چہرہ خون سے دہکنے لگا جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہو تو کہنے لگے "میرے جسم کا بہت خون بہہ چکا ہے جس سے میرا چہرہ زرد پڑ گیا ہو گا میں نے اپنے چہرے کو سُرخ اس لئے کیا تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں میرا چہرہ کسی ڈر یا خوف سے پیلا پڑ گیا ہے۔ پھر لوگوں نے سوال کیا آپ نے چہرہ تو سُرخ کر لیا مگر اپنی کلائیوں کو خون سے تر کیوں کیا۔ جواب دیا کہ وضو کیلئے۔ عشق میں دو رکعت کی نماز ہے جس کا وضو صرف خون سے ہی ہوتا ہے۔ جب منصور کے ہاتھ، پاؤں، بازو کاٹے جا چکے تھے اور آنکھیں نکال دی گئی تھیں اور جلاد نے ان کی زبان کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو منصور نے کہا ٹھہر میں ایک بات کہہ لوں پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کے بولے "یا الٰہی اس تکلیف پر جو یہ مجھ پر تیرے لئے روا رکھے ہیں انہیں محروم نہ رکھنا۔ میں تیرے دیدار کیلئے آ رہا ہوں۔اب جلاد نے حامد کے کہنے پر اس کا سر کاٹنے کیلئے اپنا ہاتھ اٹھایا ساتھ ہی حلاج نے یہ کلمات ادا کیے۔ “ واجد کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ تیرے ساتھ ایک ہو جائے۔ میں تیرے دیدار کو آ رہا ہوں۔‘‘ حلاج کا کٹا ہوا سر نیچے آن گرا اس کے جسم کو تیل سے تر کر دیا گیا اور پھر آگ لگا دی خاکستر کو ایک مینار سے دریائے دجلہ میں پھینک دیا گیا۔ علامہ حضرت زکریا قزوینی لکھتے ہیں جب انہیں پھانسی دینے کے لیے لے جانے لگے تو انہوں نے ایک حاجب کو بلایا اور کہا کہ جب مجھے جلایا جانے لگے تو دجلہ کا پانی چڑھنا شروع ہو جائے گا اور قریب ہو گا کہ پانی بغداد کو غرق کر دے جب تم یہ منظر دیکھو تو میری راکھ پانی میں ڈال دینا تاکہ پانی ساکت ہو جائے۔جب انہیں پھانسی دی گئی اور جلایا گیا تو دجلہ میں طغیانی آ گئی حتی کہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ بغداد غرق ہو جائے گا تو خلیفہ نے کہا "کیا تمہیں پتہ ہے کہ منصور حلاج نے اس بارے میں کچھ کہا تھا۔؟" حاجب نے کہا ہاں اس نے اس طرح کہا تھا۔ تب اس نے حکم دیا جیسا اس نے کہا تھا ویسا ہی کرو پھر انہوں نے راکھ پانی میں پھینک دی۔ پانی کی سطح پر وہ راکھ اس طرح اکٹھی ہو گئی کہ اللّٰہ لکھا ہوا نظر آتا تھا اور پانی ساکت ہو گیا۔
کہتے ہیں کہ موت سے پہلے منصور حلاج نے کہا ’’اے رب اگر تو ان لوگوں کو بھی وہی کچھ دکھا دیتا جو میں دیکھ رہا ہوں تو یہ مجھے کبھی سزا نہ دیتے اور اگر مجھ سے وہ چیز چھپا لیتا جو ان سے چھپا رکھی ہے تو میں کبھی اناالحق کا نعرہ نہ لگاتا۔‘‘
“