ایمان طبعا" آذر صفت اور بت پرست تھی۔
وہ چھوٹی عمر سے ہی بڑوں کی صحبت پسند کرنے لگی تھی۔ اس کی بہت ساری سہیلیاں عمر میں اس سے بڑی اور تعلیم میں اس سے سینیئر تھیں۔ اس کی سہیلیوں کے خیالات بلند اور اعمال صالح تھے۔ وہ ان سے بہت کچھ سیکھتی اور ان جیسا بننے کی کوشش کرتی رہتی تھی۔ وہ ان سے محبت کرتی بلکہ ان کی پرستش کرتی تھی۔ اس کے دل کے صنم خانے میں اس کی سہیلیوں کی مورتیاں اونچے سنگھاسنوں پر جلوہ افروز تھیں۔
ایمان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ صنم خانے میں رکھی مورتیاں ٹوٹ بھی جایا کرتی ہیں۔ ان مورتیوں کے گر کر پاش پاش ہونے کے لیے کسی بڑے زلزلے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انسان نامی مورتی تو ذرا سی ٹھوکر کھا کر ٹوٹ جاتی ہے۔
بعد ازاں ایمان کی سینیئر سہیلیوں کے بت ایسی معمولی ٹھوکروں سے ٹوٹے جن کا خود انھیں وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ وہ سبھی کم عمر رہنے کے فریب کی اسیر تھیں۔
ایک نے کہا کہ اس کا قد اس کی عمر کے حساب سے بڑا تھا اس لیے سکول میں داخل کراتے وقت اس کی عمر زیادہ لکھ دی گئی تھی ۔
دوسری نے کہا کہ وہ بہت ذہین تھی اس لیے اسے چھوٹی عمر میں سکول بھیجا جانے لگا لیکن سکول میں اس کی عمر دو سال بڑی لکھ دی گئی۔
تیسری نے کمال ہوشیاری سے کہا کہ اس نے پرائمری سکول میں دو دو جماعتیں ایک ایک سال میں پاس کی تھیں اس لیے تیرہ برس کی عمر میں میٹرک کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
چوتھی اپنی عمر بتاتے ہوئے یہ بھول گئی کہ دنیا کی کوئی عورت پانچ ماہ کے بعد دوسرا بچہ پیدا نہیں کرتی۔ ایمان کو اس سہیلی کے چھوٹے بھائی کی تاریخ پیدائش معلوم تھی کیونکہ پرائمری سکول میں وہ اس کا کلاس فیلو تھا۔
ایمان نے ایک دن دیکھا کہ اس کے صنم خانے میں بنے سنگھاسنوں پر اب کوئی مورتی نہیں تھی۔ وہ سب ٹوٹ چکی تھیں۔ وہ رنجیدہ ہو کر ٹوٹے ہوئے بتوں کو جوڑنے لگی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ شکستہ بتوں میں ایک بت اس کا اپنا بھی تھا۔ اس انکشاف نے اس کے دل میں ٹوٹ چکی مورتیوں کے لیے ہمدردی کا احساس پیدا کیا۔ وہ کمال محبت سے ایک ایک ٹکڑا جوڑ کر شکستہ اصنام کو پہلے جیسی شکل میں لانے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن انھیں پہلے جیسا بنانا ممکن نہیں تھا۔ وہ جڑ تو گئے لیکن اب ان پر ٹوٹ پھوٹ کے دائمی نشان دیکھے جا سکتے تھے۔ ان کا ظاہری حسن زائل ہو چکا تھا۔ وہ حسن کی پائمالی پر دل گرفتہ ہو کر اپنے اندرون کی گھپاوں میں جا چھپی۔ بعد مدت جب وہ حقیقت کی دنیا میں واپس آئی تو دیکھا کہ ایک ان ہونی ہو چکی تھی۔ وہ پہلے حیران ہوئی اور پھر مسکرانے لگی۔ وہ بت جنھیں اس نے جوڑ کر مکمل کیا تھا ان میں زندگی کی حرارت دوڑ رہی تھی، وہ زندہ انسانوں کا روپ دھار چکے تھے۔