قرآن مجیداللہ تعالی کی وہ سچی کتاب ہے جو اپنے آغاز سے آج تک بالکل محفوظ و مامون ہے،اسکے مندرجات میں کوئی ردوبدل واقع نہیں ہوااور نہ ہی دنیا سے اسکی زبان متروک ہوئی اس لیے کہ اس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے اٹھالی ہے اور فرمایاکہ ”اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ‘ لَحٰفِظُوْنَ(۵۱:۹)“ترجمہ:”رہایہ ذکر(قرآن مجید)تواس کوہم نے نازل کیاہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں“۔قرآن مجید نے واضع طور پر فرمادیاہے کہ اللہ تعالی سود کو کم تر کرتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے”یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ أَثِیْمٍ(۲:۶۷۲)“ترجمہ:”اللہ تعالی سود کی جڑ ماردیتاہے اورصدقات کو نشونمادیتاہے اوراللہ تعالی کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسندنہیں کرتا“۔ یعنی سود سے بظاہر دولت بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے لیکن حقیقت میں کم ہو رہی ہوتی ہے جبکہ صدقات سے دولت کم ہوتی محسوس ہوتی ہے لیکن حقیقت میں بڑھ رہی ہوتی ہے۔انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے،وہ قریب کو جلدی دیکھتاہے اور اسے شدت سے چاہتا ہے جبکہ بعید کامشاہدہ تاخیر سے کرتا ہے اور اسکے انجام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتاہے۔اسی کا نتیجہ ہے سود خوراپنے وقتی مفاد کی خاطر اجتماعیت کا ابدی مفاد قربان کر دیتاہے اوربعد ازاں جب اجتماعیت اسکے سودی رویے کا شکار ہوتی ہے تو خود سود خور بھی اجتماعیت کے ساتھ تباہی کے اس گڑھے میں آن گرتاہے۔
سرمایادارانہ معاشی نظام کی بنیادیں سودکی اینٹیں اور خودغرضی کے مصالحے سے چنی گئیں ہیں،ایسی بنیادوں پر استوار عمارت سے اعلی اسلامی اخلاق سے قطع نظر بنیادی انسانی اخلاقیات کی توقع رکھنا بھی عبث ہے۔قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”اَلَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطَہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوْا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا فَمَنْ جَاءَ ہ‘ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰی فَلَہ‘ مَا سَلَفَ وَ اَمْرُہ‘ اِلَی اللّٰہِ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰءِکَ أَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ(۲:۵۷۲)“ ترجمہ ”جولوگ سودکھاتے ہیں وہ (قیامت کے دن) اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل کردیاہو،یہ اس لیے ہوگاکہ وہ کہاکرتے تھے تجارت بھی تو سودکی طرح ہوتی ہے،حالانکہ اللہ تعالی نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قراردیاہے۔لہذاجس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اوروہ (سودی معاملات)سے بازّگیاتو اس کامعاملہ اللہ تعالی کے حوالے ہے۔اورجس شخص نے لوٹ کر کر پھروہی کام کیاتوایسے لوگ دوزخی ہیں،وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے“۔سود خور ہرمعاملے کوپیسے اور مفاد کے ترازو میں تولتاہے،رشتے،ناظے،تعلقات،شرم و حیااور اقداروروایات،مذہب و تہذیب و ثقافت سب اسکے نزدیک ثانوی حیثیت میں چلی جاتی ہیں،پیسہ،دولت،سونے چاندی کے ڈھیراورننانوے اور سو کی بڑھوتری ہی اسکی زندگی کی کل متاع ہوتی ہے۔پیسے کے نقصان کے علاوہ انکا کوئی غم نہیں ہوتا اور سودونفع کے سوا انکی کوئی خوشی نہیں ہوتی۔
ایسے لوگوں پر اللہ تعالی نے کیاخوب تبصرہ کیااورقرآن نے ہی کہا ”وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰہُمْ اَنْفُسَہُمْ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۹۵:۹۱)“ترجمہ:”تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جواللہ تعالی کو بھول گئے تواللہ تعالی نے انہیں اپنے آپ سے بھی غافل کردیایہی لوگ فاسق ہیں“۔کہ وہ گویا اپنے آپ کو بھی بھول جاتے ہیں،چنانچہ پیسے کے پجاریوں کی ذاتی زندگی بھی بہت عبرتناک اورقابل رحم بن جاتی ہے،پیسے کی خاطر انکا آرام،سکون،خانگی زندگی،حتی کی اکل و شرب بھی اس حد تک متاثر ہوجاتے ہیں کہ وہ کوہلوکے بیل ہی بن جاتے ہیں۔کتنے ہی لوگ کروڑوں کی جائدادیں اور روزانہ لاکھوں کے لین دین کرنے والے کئی کئی دن نہانے سے غافل،میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس،ہفتوں تک ایک جگہ اپنے ٹھیے پر گزارنے والے اور بڑھی ہوئی توندوں اور لٹککتے ہوئے جسموں کے ساتھ،بیوی بچوں اوردیگراہل خانہ سے کوسوں دوراپنی جوانی کے بہترین دن دولت کی دیوی کی پوجا اور بڑھاپے کی عبادت گزاری کے ایام ہائے دنیا اور ہائے پیسہ کی نذر کر دیتے ہیں۔ساری ساری عمر کماکما کر بھی خود انکے اپنے نصیب میں کیا ہوتا ہے؟یہ نوشتہ دیوارہے جو جاہے پڑھ لے۔سودی فکر اور منافع خوری کے کلچرسے تعلق رکھنے والے لوگ جب مل بیٹھ کر کوئی معاشی نظام کی تشکیل کریں گے تو کیا وہ کل انسانیت کے لیے بہتری کا باعث ہوگا؟؟؟نہیں قطعاََ نہیں،وہ سب سے پہلے اپناذاتی مفادپیش نظر رکھیں گے یا بہت بہت اور بہت ہی بلند سوچ کے مالک ہوئے تو اپنا قومی و نسلی یا علاقائی مفاد ہی انکا مطمع نظر ہوگا۔انکاہر زاویہ فکر اس دائرے کے گرد گردش کرے گا کہ کس طرح دوسری اقوام سے دولت کے انبارکھینچ کھینچ کر اپنے ملک میں لائے جائیں چاہے اسکے نتیجہ میں دوسری اقوام نان شبینہ کی محتاج ہی کیوں نہ ہوجائیں،انکی نظر دیگراقوام عالم کے خزانوں پر اور انکے انسانی و قدرتی وسائل پر جمی رہے گی کہ کسی طرح انہیں لوٹ لوٹ کر تو اپنے قبضے میں لائیں۔
آج کے حالات اس پر شاہد ہیں سودی معیشیت خواہ وہ سرمادارانہ نظام سے تعلق رکھتی ہو یا پھر اشتراکی فکر سے متعلق ہو،پوری دنیا میں ایک استحصالی جابرانہ نظام کی پرورش کا باعث بنتی ہے۔دولت اور سیال مادے کی خاطر دنیامیں بڑی بڑی جنگوں سے گلی محلے کی سیاست تک انسانوں کے خون کی ارزانی سودی معیشیت کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔چھوٹی قوموں کے ایوان ہائے اقتدار میں غداروں کی بولیاں لگانا اور اپنی قوم کو کم سے کم قیمت پر فروخت کرنے والے کو مسند اقتدارپر براجمان کرنااور پھر اسکی اور اسکے اقتدار کی اس شرط پر حفاظت کرنا کہ وہ اپنے ملک کے وسائل پر ہمارا قبضہ روا رکھے اور قوم کو ان سب امور سے بے خبر رکھ کر انہیں عریانی و فحاشی کے بے ہودہ سیلاب اورموسیقی کے بے ہنگم شور میں اس قدر گم کردے کہ وہ اپنی تباہی سے بے خبر رہ کر اپنے آپ کو آسودہ محسوس کریں،سودی معیشیت کے وہ ثمرات بد ہیں جن سے پوری دنیا دوچار ہے۔بہت وقت نہیں گزرا کہ لین دین سونے چاندی کے سکوں میں ہوا کرتا تھا،ملکہ وکٹویہ کے مہر کیے ہوئے سکے شایدآج بھی کچھ پرانے لوگوں کے پاس موجود ہوں،پھر سود خوروں نے ساری دنیا سے سونے چاندی کو اکٹھا کر کے تو کاغذ کے کرنسی نوٹ جاری کروا دیے،اور سونا چاندی دنیا سے ناپید ہونے لگے یہاں تک کہ خواتین کے زیور کے لیے بھی سونے کی دھات ہزاروں روپے تولے کی قیمت پر پہنچ گئی جو کچھ ہی عرصہ قبل ہاتھوں میں عام گردش کرتی تھی۔جب نوٹ بھی دولت اور زر کا نعم البدل قرار پاگئے تو ان سود خوروں نے پلاسٹک کرنسی جاری کر دی،اب صورتحال یہ ہے کہ ایشیا میں تو پھر بھی کارڈز کے ساتھ ساتھ کچھ نقد بھی جیب میں موجودہولیکن یورپ اور امریکہ میں تو ایک ایک شہری کے پاس دس دس پلاسٹک کارڈزہیں جن سے وہ ایام روزوشب کا کاروبار زیست چلاتاہے۔
معیارزندگی میں اضافے کی دوڑ سودی معیشیت کاایک اور شاخسانہ ہے،میڈیا کے ذریعے پرتعیش،آرام دہ،تکلفات سے پراور آسائشوں سے بھرپورزندگی کا تصورپیش کیا گیا،جب مقررہ آمدنی میں اس معیارکوحاصل کرنا ممکن نہ رہاتوسودی قرضوں کی فراوانہ فراہمی کادروازہ کھول دیا گیا۔ایک بنک سے قرضہ لیا اورقسطوں میں ادائگی بمع سودکامعاہدہ کرلیا،حالات ہمیشہ ایک سے تو نہیں رہتے،آج کے حساب سے ایک مقررہ قسط کی ادائگی ممکن ہے تو ضروری نہیں سال بعد بھی ممکن رہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ بنک نے اطلاعیہ بھیج دیا،تب دوسرے بنک سے سے قرض لے کر پہلے کو اداکردیا۔یہ سلسلہ چلتارہااورکھاتوں کے حساب کتاب کاگراف تو بہت بلندی پر پہنچ گیالیکن حقیقت میں پستی سوا کچھ حاصل نہ ہوااور جوجائدادیں قرق ہوتے ہوتے اپنی اصل قیمت سے پچاس گنا زیادہ کا قرض دے بیٹھیں اور جب انکی نیلامی کا وقت آیا تواصل زر تو کجاسود بھی مکمل وصول نہ ہوسکااور مالیاتی اداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جوآئے دن قطاراندرقطار ٹوٹی تسبیح کے گرتے ہوئے دانوں کی ماننددیوالیہ ہوتے چلے جارہے ہیں۔جس کاایک اندوہناک نتیجہ بیروزگاری کے نتیجے میں سامنے آتاہے اور ایک ادارے کی بندش سے ہزاروں لوگ تہی دست ہوجاتے ہیں اوران پر انحصارکرنے والے خاندانوں کے چولھے سرد پڑ جاتے ہیں۔نتیجتامعاشرے میں جرائم کی شرح روزافزوں بڑھتی چلی جاتی ہے،امن مخدوش ہوتا چلاجاتاہے اوراخلاقیات کی عمارت دھڑام سے نیچے آگرتی ہے اور نسلیں تک مشکوک ہوجاتی ہیں اورخوف،دہشت،ننگ وافلاس اور جہالت بلآخرانسانی معاشرے کامقدربن جاتی ہے۔ان حقائق ونتائج پرقرآن مجیدکاتبصرہ ملاحظہ ہو”وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَءِنَّۃً یَّاْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۶۱:۲۱۱)“ترجمہ:”اللہ تعالی ایک بستی کی مثال دیتاہے اسکے باسی امن و اطمنان کی زندگی بسرکررہے تھے اورہرطرف سے انہیں بفراغت رزق مہیاہورہاتھا،ان لوگوں نے اللہ تعالی کی نعمتوں کاکفران شروع کردیاتب اللہ تعالی نے اس بستی کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کایہ مزہ چکھایاکہ بھوک اورخوف کی مصیبتیں ان پر چھاگئیں“۔
خاندانی نظام کی بربادی سودی نظام کا ایک اور روح فرسا نتیجہ ہے۔سود اداکرنے کے لیے جب مردوں کی آمدنی پوری نہ ہوسکی تو مجوراََ عورتوں کو معاشی میدان میں نکلنا پڑتا ہے،اور جب عورت گھرسے باہر قدم رکھے گی تو شوہر شاید پیسے کی خاطر اپنی محرومیاں برداشت کرلے،بہن بھائی،ماں باپ بھی چلو کسی حد تک اس تبدیلی کو قبول کرلیں گے لیکن بچے کے لیے ماں کی کمی تو دنیا کا کوئی کردار پورانہیں کرسکتا۔اب دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو بچے کم پیدا کرو یاپھربچوں کو ڈے کئر سنٹرز، نرسریوں میں یانوکرانیوں کے سرڈال کر تو انکی پرورش کرواؤ،اور ان تمام صورتوں میں قوم کو صحت مند نسل کی بجائے ذہنی بیماراور نفسیاتی مریض ہی میسر آئیں گے۔خاندان اور نسل کی قیمت پر معاش کا سودا تو جانور اور پرندے بھی نہیں کرتے پھر حضرت انسان کایہ سودی رویہ چہ معنی دارد؟؟۔اس تصویرکا ایک اور اذیت ناک رخ یہ بھی ہے کہ معاش کابھاری بھرکم بوجھ صنف نازک کے کندھوں پرڈالنے کے رواج نے خواتین کو تکمیل تعلیم پر مجبورکیااور عورتوں کو دورخی چھری سے ذبح کیا۔اب عورت بہترین ملازمت کے لیے اعلی سندحاصل کرتے کرتے اپنی شادی کی فطری کشش کی حامل عمر سے گزر جائے اورشوہر کو عمررسیدہ اورپختہ عمر کی شریکہ حیات میسرآئے جس کے ساتھ پیارمحبت کی بجائے سمجھوتے کی زندگی بسرکرنی پڑے اورآنے والی نسلوں کو نانی اوردادی کی عمرمیں ماں جیسی نعمت ملے اورپوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں نانی اوردادی کے گرم و گدازلمس سے مطلقاََمحروم ہی رہ جائیں۔
آلودگی،شوراورگندگی کابدترین تحفہ سودی معیشیت کی ایک اور نحوست ہے،آج دنیا بھر کی فیکٹریاں بنکوں کے پاس رہن رکھی ہوئی ہیں،سرمایا دارایک صنعت اپنی جیب سے لگاتا ہے،پھر اسکے کاغذات بنک میں جمع کراکے تو سود پر قرضہ حاصل کر لیتا ہے اور اس قرضے سے دوسراکارخانہ لگا لیتا ہے،پھر تیسرا اور پھرمزیدتر۔اب جو صنعتی اکائی آٹھ یا بارہ گھنٹے چل کر اپنے جملہ اخراجات پوری کر سکتی تھی سود کی ادائگی اور پیسے کی لالچ میں وہاں چوبیس چوبیس گھنٹے کام ہوتا ہے اور دھوئیں شوراور گندگی کی ایک بہت بڑی مقدار وہاں سے برآمد ہوتی ہے جس نے کرہ ارض کے جملہ آبی و فضائی و بری ماحول کو زندگی لیے زہر بنادیاہے۔مہنگائی میں اضافہ اس کا ایک اورمنطقی نتیجہ ہے،جو مال دس فیصدمنافع پر بیچنے میں بچت ممکن تھی اب اس میں بنک کا سود بھی شامل کرنا پڑے گااور مہنگائی میں اضافہ ہوتا چلا جائیگا۔گرانی کے باعث جب مصنوعات کی قیمتیں عوام کی قوت خرید سے باہر ہوجاتی ہیں تو اشتہاربازی کے ذریعے اشیاء کی مصنوعی مانگ پیداکی جاتی ہے اوریوں تعیشات کو ضروریات بناکر افراد معاشرہ کوان اشیاء کی خریداری پر مجبورکردیاجاتاہے۔سودی معیشیت کے یہ نتائج معاشرے میں غیراعلانیہ مقابلے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور مہنگی سے مہنگی چیزیں خریدنے پر لوگ باہم فخورہوتے ہیں اور نتیجے کے طورپر غریبوں کے جووسائل حیات قدرت نے امیروں کی جیب میں ڈال دیے تھے اب وہ حق داروں تک پہنچنے کی بجائے اپنے ہی چونچلوں پر،نخروں پر،بچوں کی بابت بے مقصد تقریبات پر، وصولیوں کی خاطربہانے بہانے سے پرتکلف پارٹیوں پر،گھرسے باہرکھاناکھانے اوردوسروں کودکھانے اورجلانے کے لیے نئی سے نئی ماڈل کی گاڑیوں اور اعلی تر معیارزندگی کے حصول پر خرچ ہوجاتے ہیں اوراصل حق دارمحروم رہ جاتے ہیں۔اس طرح کاطرز حیات بیماریاں،پریشانیاں اور مصائب و آلام اپنے ساتھ لاتاہے تو پھر علاج و مداوات پر اٹھنے والے اخراجات ایک ایسی دلدل ہیں جن میں تاحیات ہی کشمکش کاسلسلہ چلتارہتاہے اورکبھی خلاصی نہیں ہوپاتی۔اور مرنے کے بعد ان کے انجام پر قرآن مجیدنے یوں منظرکشی کی ہے:”وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہ‘ بِشِمَالِہٖ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتٰبِیَہْ(۹۶:۵۲) وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسٰبِیَہْ(۹۶:۶۲) یٰلَیْتَہَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ(۹۶:۷۲) مَآ اَغْنٰی عَنِّیْ مَالِیَہْ(۹۶:۸۲) ہَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ(۹۶:۹۲) خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُ(۹۶:۰۳) ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُ(۹۶:۱۳) ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُہَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُکُوْہُ(۹۶:۲۳) اِنَّہ‘ کَا نَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ(۹۶:۳۳) وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ(۹۶:۴۳) فَلَیْسَ لَہُ الْیَوْمَ ہٰہُنَا حَمِیْمٌ(۹۶:۵۳) وَّ لَا طَعَامٌ اِلَّا مِنْ غِسْلِیْنٍ(۹۶:۶۳) لَّا یَاْکُلُہ‘ٓ اِلَّا الْخَاطِؤُنَ(۹۶:۷۳)“ ترجمہ:”اورجس کانامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیاگیاوہ کہے گااے کاش مجھے نامہ اعمال نہ دیاگیاہوتا،اورمیں نہیں جانتاکہ میراحساب کیاہے،اے کاش دنیاکی موت پرہی میراکام تمام ہوجاتا،آج میرامال میرے کچھ کام نہ آیا،میراسارااقتدارختم ہوگیا،(حکم ہوگا)پکڑواسے اوراس کی گردن میں طوق ڈال دوپھردوزخ کی آگ میں اسے جھونک دو،پھراس کوستر ہاتھ لمبی زنجیروں میں جکڑدو،یہ تو اللہ تعالی جل شانہ پر ایمان نہ لاتاتھااورمسکین کو کھانے پر ترغیب (دعوت)نہ دیتاتھا،لہذاآج یہاں اس کاکوئی یاروغم خوار نہیں ہے،اور زخموں کے دھوون کے سواس کاکوئی کھانا نہیں ہے،جس کو صرف گنہ گارہی کھائیں گے۔“
سودکا انجام سوائے انسانیت کی تباہی کے کچھ نہیں،یہی وجہ ہے کہ آج د نیاکا عالمی مالیاتی نظام جو خالصتاََ سود پر بنیادکرتا ہے اپنی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور بڑے بڑے اذہان اسکوبچانے کی فکر میں،جولوگ تو اسکو سود کے ذریعے ہی بچانا چاہتے ہیں وہ گویاشوگرکے مریض کو میٹھا کھلا کر بچانا چاہتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پورپ کے متعدد ممالک اور جاپان جیسا ملک بھی سودی شرح کو صفر کی سطح میں لانے پرمجبور ہوئے ہیں۔پیسہ جمع کر کے اس پر سود کھاناگویا مجبور انسانیت کا خون نچوڑنا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جو دوسرے کے لیے کنواں کھودتاہے پہلے خود اس میں گرتا ہے۔دوسری قوموں کوسود میں جکڑنے والے آج خود اپنی سودی معیشیت کے ہاتھوں تباہی کا شکار ہوئے چاہتے ہیں۔ان کے معاشروں میں بے روزگاری اپنی انتہاؤں کو چھورہی ہے،حرص و لالچ و طمع کی خاطر رشتوں کی پہچان ختم ہوتی چلی جارہی ہے،عمارتیں بلندیوں کو چھورہی ہیں اور اخلاقیات پستی کی طرف تیزی سے روبہ زوال ہیں۔امیراقوام نے اپنی معیشیت کوکندھادینے کے لیے غریب اقوام کاخون نچوڑنے کاوطیرہ اپنارکھاہے،غریب ملکوں کے متول افرادکو سرمایاساتھ لانے پر شہریت کاجھانسہ دیاجاتاہے اوراس طرح ان کی دولت اینٹھ کر اپنے ملک کے خزانے بھرے جاتے ہیں۔دوسرے ملکوں سے قابل،لائق اور اعلی ترین تعلیم یافتہ نوجوانوں کو زیادہ تنخواہوں کی لالچ دے کر اپنے ملک کی ترقی کے لیے استعمال کیاجاتاہے۔اپنی ملک کی عالمی برتری کے باعث تعلیمی ڈگریاں ایک طرح سے فروخت کی جاتی ہیں اور یوں بھی غریب ملکوں کاسرمایا اپنے ملک میں کھینچ لیاجاتاہے جس کے نتیجے میں اس استحصالی نظام کے خلاف نفرت اب سیاسی جدوجہدسے عملی جدوجہدکی طرف بڑھ رہی ہے اور چھوٹی اورغریب قوموں کے نوجوانوں نے بغاوت کی راہ اپنالی ہے جنہیں بڑی قوموں نے دہشت گرد کانام سے دیاہے اورانسانیت اورعالمی امن کے نام پرانہیں ختم کرنے کے درپے ہیں۔
انسانیت کی فلاح کے لیے آج بھی انبیاء علیھم السلام کا لایا ہوا نظام ہی فلاح و کامرانی کا باعث ہے۔آخری نبی ﷺ نے زکوۃ وعشروخمس کے عنوان سے صدقات و خیرات کاایسانظام مرحمت کیا ہے کہ اس سے معیشیت کاکاروبار ہی نہیں انسانی اقداروروایات بھی دن دگنی رات چگنی ترقی کریں گی۔کیا ہی خوب ہوکہ انسان خود تجربے کرنے کی بجائے حکم ربی پر توکل کرے اور ھل من مزیدکی بجائے بانٹنے،تقسیم کرنے،بلاغرض دینے اوربھلا کرنے کے رویے پر عمل پیرا ہوکر سودی معیشیت کی بجائے عدل و احسان کی معیشیت پر عمل پیرا ہوجائے۔دامے درمے سخنے بالآخر انسانیت کواسی طرف پلٹناہوگااوراب وہ دن دورنہیں جب ان تمام ظالمانہ نظام ہائے معیشیت کاخاتمہ ہوگااور آسمان سے نازل ہونے والا فلاح دارین کاضامن نظام ا کرہ ارض پر نافذ ہوگا،ان شااللہ تعالی کیونکہ”وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ أَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلَی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ(۳:۳۰۱)“ ترجمہ:”اورسب مل کراللہ تعالی کی رسی کومضبوط پکڑلواورتفرقہ میں نہ پڑو،اللہ تعالی کے اس احسان کو یاد رکھوجواس نے تم پر کیاہے،تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اوراس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے،اورتم آگ کے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے،اللہ تعالی نے تم کواس سے بچالیا،اس طرح اللہ تعالی اپنی نشانیاں تم پرروشن کرتاہے شایدکہ ان علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کاسیدھاراستہ نظر آجائے“۔
سود کے لیے قرآن نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ”ربو ٰ“ہے جس کا لفظی مطلب بڑھوتری،اضافہ،نشونما اور پھلنا پھولنا ہے۔اللہ تعالی نے سود یعنی ربو(ربا)کو حرام قرار دیا ہے۔محسن انسانیت ﷺ کی مدنی زندگی کے اواخرات میں جو احکامات نازل ہوئے ان میں سے حرمت ربوٰ ایک ہے۔اللہ تعالی نے تمام جرائم کی سزا مقرر کی ہے لیکن ربوٰکو اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا ہے”یٰأَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ(۲:۸۷۲) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُ ْوسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ(۲:۹۷۲)“ ترجمہ:”اے ایمان والو اللہ تعالی سے ڈرواورجوکچھ تمہاراسود لوگوں پر باقی رہ گیاہے اسے چھوڑ دواگرواقعی تم مومن ہو۔لیکن اگرتم نے ایسانہ کیاتوآگاہ ہوجاؤ کہ اللہ تعالی اوراسکے رسول ﷺ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے،اب بھی توبہ کرلو(اورسودچھوڑدو)تواپناسرمایا لینے کے تم حق دارہو، تم بھی ظلم نہ کرواورتمہارے اوپر بھی ظلم نہ کیاجائے“۔قرآن میں اللہ تعالی نے سورۃ بقرہ میں واضع طور پر بتا دیا ہے کہ ربوٰسے دولت کم ہوتی ہے جبکہ صدقات سے بڑھتی ہے۔جبکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا میں قسم کھاتا ہوں کہ صدقہ کرنے سے دولت کم نہیں ہوتی۔
نزول قرآن کے وقت ربوٰکی متعدد اقسام عرب میں رائج تھیں یا لین دین کی درج ذیل صورتوں پر لفظ رباکااطلاق کیاجاتاتھا:مثلاَ
1۔ جنس خریدکی ادائگی کا وقت معین کر دیا جاتا،اگر وقت معین پر ادائگی نہ ہو سکتی توقیمت میں اضافہ کر دیا جاتا۔مثلاََ گندم کی بوری ایک سو روپے کی ہے اور ادائگی تین مہینے بعد ہوگی۔لیکن وقت پر ادائگی نہ ہوسکی تومزید مہلت لے لی اورقیمت میں کچھ اضافہ بھی کردیاجیسے تین ماہ مزیدمہلت کے لے لیے اورقیمت ایک سودس روپے کر دی۔یہ دس روپے کااضافہ رباکہلاتاتھا۔
2۔ایک خاص مدت کے لیے قرض لیا جاتا اور اسے اضافے کے ساتھ لوٹایا جاتا:مثلاََایک سو روپے قرض لیااور چھ ماہ بعد ایک سو دس روپے کر کے لوٹا دیا۔یہ دس روپے کی اضافی رقم ربا کہلاتی تھی۔
3۔مدت میں مزید اضافے کی صورت میں اضافے کی شرح بھی بڑھا دی جاتی۔مثلاََ چھ ماہ کے لیے قرض لیا اور دس فیصد اضافہ طے لیے قرض لیا اور دس فیصد اضافہ طے کرلیا۔وقت پر ادائگی ممکن نہ ہو سکی تو تین ماہ کی مزید مہلت لے لی اور اضافہ پندرہ فیصد تک بڑھالیا۔یہ دس فیصد یا پندرہ فیصد کی اضافی ادائگی رباکے ذیل میں آتی تھی۔
4۔اصل زر یعنی قرض کا ماہوار کرایہ وصول کیا جاتا۔مثلاََ ایک سال کے لیے ایک ہزارروپے قرض لیااور ہر ماہ دس دس روپے دیتے رہے،یہ دس روپے کی ماہوار ادائگی رباکے ضمن میں شمارہوتی تھی۔
5۔اصل زر مخصوص مدت تک واپس نہ ہوتا تو ماہوار کرایہ میں اضافہ کر دیا جاتا۔مثلاََ ایک سال کے لیے قرض لیا اور ہر ماہ دس دس روپے اداکرتے رہے۔اب سال گزرگیالیکن قرض ادانہ کرسکے تو مہلت میں چھ ماہ کااضافہ کروالیا اور ماہانہ رقم پندرہ روپے مقررہو گئی،یہ دس روپے ماہانہ اور بعد کے پندرہ روپے ماہانہ پر عربی لغت میں رباکااطلاق ہوتاہے۔
6۔ایک ماہ کرایہ ادا نہ ہوسکنے کی صورت میں اگلے ماہ اضافے کے ساتھ کرایہ وصول کرنا،مثلاََدکان یا مکان کرائے پر لیاتھا،ایک ماہ کرایہ ادانہ کرسکے تواگلے ماہ کرائے پر اضافہ بھی وصول کرنا،یہ اضافہ رباہے۔
7۔ہم جنس اشیا کا غیر مساوی تبادلہ،یعنی ایک من گندم دے کر مخصوص مدت کے بعد ایک من سے زائد وصول کرنایا ایک من جو لینااور کچھ عرصہ بعد ایک من اور دوسیر واپس کرنا،یا دس تولے سونا لینااور مقررمدت کے بعد گیارہ تولے وصول کرنا،اس طرح کے معاملات میں اضافے پر ربا کااطلاق ہوتاہے۔
اس لحاظ سے ربوٰکو تین اقسام میں گنا جا تا ہے:
ا۔ربائے فضل:قرض کے عوض فائدہ حاصل کرنا۔
ب۔ربائے نسیہ:قرض میں اضافہ وصول کرنا۔
ج۔ربائے ید:ہم جنس اشیا کا غیر مساوی تبادلہ
چنانچہ درج ذیل تین امور جب کسی معاہدے کا حصہ ہوں گے تو وہ ربوٰکہلائے گا:
۱۔راس المال پر اضافہ:جیسے ایک ہزار دے کر ایک ہزار سے زائد وصول کرنا۔
۲۔اضافے کا تعین:خواہ مقرررقم کی صورت میں ہو یا فیصدی شرح کی صورت میں۔اور
۳۔مشروط معاملہ:یعنی اضافہ کی وصولی لازمی ہونے کی شرط شامل ہونا۔
پس اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اگر سرمایا محفوظ ہو اور نفع یقینی ہو تو یہ سود کے برابر ہے:
سرمایامحفوظ+نفع یقینی+معاملہ مشروط=سود(ربا)
اور اگر سرمایا غیر محفوظ ہو،ساتھ میں محنت ومشقت ہو اور نفع اور نقصان دونوں کا احتمال ہو تو یہ تجارت ہے:
سرمایاغیرمحفوظ+محنت +نفع/نقصان =تجارت
قرآن مجیدنے واضع طور پر کہا کہ کچھ لوگ سود اور تجارت کو ایک سمجھتے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے سود کو قطعی حرام اور تجارت کو حلال فرمایا ہے اورتجارت کو محسن انسانیت ﷺ نے بطور پیشے کے اختیار بھی فرمایا۔تجارت میں لین دین کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہو جاتا ہے،فروخت شدہ چیز وصول کر کے تو اسکی قیمت ادا کر دی جاتی ہے فریقین باہمی رضامندی سے ایک دوسرے سے حصول مفاد کر چکتے ہیں اور منافع حاصل کرنے والا ایک ہی بارمیں سارا منافع حاصل کر کے تو رقم کو اگلی سرمایا کاری میں لگا دیتا ہے۔جبکہ سود میں قرض کی مکمل ادائگی تک معاملہ باقی رہتا ہے اور ایک فریق ایک مقرر مدت تک دوسرے فریق کا استحصال کرتا رہتا ہے اور اس سے منافع حاصل کرتا رہتا ہے اگرچہ حاصل شدہ منافع اصل زر سے تجاوز ہی کیوں نہ کر جائے اصل زر پھر بھی باقی رہتا ہے۔سودی معاملے کے یہ بظاہر نظرآنے والے امور ہیں،پوشیدہ معاملات جن میں ایک فرد ذہنی تناؤکاشکارہوجاتاہے،اس کے دن کاچین اور راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہے،نفسیاتی دباؤ اس کی شخصیت کوکرچی کرچی کردیتاہے،اس کی صحت،اس کی دلچسپیاں،اس کی تفریحات وسیروسیاحت اوراسکی دوستیاں حتی کہ عبادات تک انتہائی حدتک غیرمتوازن ہو کرتباہ وبربادہوجاتی ہیں اوراس کی اپنی جان اس کی روح پر بوجھ بن جاتی ہے اور ایسے معاشروں میں خودکشیوں کارواج چل نکلتاہے جو آج کے سیکولرمغربی معاشروں میں بآسانی دیکھاجاسکتاہے۔
تجارت میں انسان ایک جگہ سے مال خریدتا ہے اس پر محنت کر اسے کارآمد بناتا ہے یا پھر اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر کے اس میں اپنی محنت اور خون پسینہ کے ساتھ بہترین ذہنی صلاحیتیں صرف کرتا ہے اور اسے بہترین انداز سے منڈی کے اندرگاہک کے سامنے پیش کرتا ہے،تھوڑا تھوڑا کر کے زیادہ قیمت پر یا ایک ہی بارگی میں کم قیمت پر فروخت کر کے تو اپنا حق حلال کا منافع اور محنت اور سرمایا کاری کا مابدل حاصل کرتا ہے۔سودخور کی نسبت یہ تاجر ذہنی طورپر انتہائی آسودہ اور راحت اور نفسیاتی آزادی کی زندگی گزارتاہے،اس کے معمولات حیات میں کاروباروتجارت کے ساتھ ساتھ اس کی ذات بھی اپناحق وصول کرپاتی ہے۔ جبکہ سود میں ایک شخص ضرورت سے زائد مال پر کسی مجبور و مقہور شخص سے محض کرایہ وصول کرتا ہے۔چنانچہ تجارت سے معاش اور معاشرت میں تہذیب و تمد ن ترقی کرتا ہے جبکہ سودمیں معاش کی ترقی انحطاط پزیر ہو جاتی ہے۔تجارت کے اندر ہر حال میں نقصان کا اندیشہ رہتا ہے،سرمایا غیر محفوظ ہوتا ہے،راستے میں لٹ سکتا ہے،گم ہو سکتا ہے،سمندری سفر میں ڈوب سکتا ہے،اپنی مدت پوری کر سکتا ہے جیسے برف پگھل جاتی ہے یا اپنا موسم کھو سکتا ہے یہ سب امور تاجر کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی سے اپنا تعلق مضبوط رکھے کیونکہ کل نفع نقصان اللہ تعالی کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔اور اگر نقصان ہوگا تو وہ صبر کرے گا اور نفع ہو گا تو وہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرے گا۔جبکہ سود میں وہ اپنے خالق سے بالکل لا تعلق ہو جائے گا کیونکہ اسکا سرمایا محفوظ اور نفع یقینی ہے۔خالق سے تعلق انسانی معاشرے میں اخلاق کی بڑھوتری کا سبب بنتا ہے اور خالق سے لاتعلقی سے انسانی اخلاق پستی کے گہرے کھڈ میں جا گرتے ہیں۔
حلال طریقے سے تجارت کرنے والا اللہ تعالی کے حکم کے مطابق صدقات اور خیرات کا انتظام کرتا ہے وہ اللہ تعالی کواپنے کاروبارکے نفع میں شریک بنالیتاہے اور نفع کاایک مقتدرحصہ ہر بار اپنے اس حصہ دارکو باقائدگی سے اداکرتارہتاہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہی صدقات و خیرات اللہ تعالی کے ہاں سے اسکے لیے مزید رزق کی فراہمی کا سبب بنیں گے،انہیں صدقات سے اسکا مال محفوظ ہو گا اسکے نفع میں اضافہ ہو گااور مال و دولت میں برکت اور کثرت واقع ہو گی اور ممکن ہے اسکے صدقات سے مال حاصل کرنے والے خوشحالی کے بعد اسکے تجارتی گاہک بنیں اور اسکا کاروبار مزید ترقی کرے جبکہ سود خورہر وقت دوسروں کی دولت بھی اپنے گھر میں جمع کرنے کی فکر کرتا ہے چنانچہ تجارت سے معاشرے کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ سود سے معاشرے کی اجتماعی دولت میں کمی واقع ہوتی ہے۔تجارت سے مال کی جگہ جگہ چلت پھرت ہو گی،گردش دولت عمل میں آئے گی اور کوئی خریدے گا تو کوئی فروخت کرے گا،زیادہ مال ہوا تو کچھ لوگ مل کر خریدیں گے اور مشترکہ سرمایا کاری کریں گے۔زیادمال ہو گا تو اسکے فروخت کنندہ اور خرید کنندہ بھی بہت ہونگے انکا سرمایا بھی بہت ہو گا اور اسکی گردش بھی بہت ہوگی اور جتنی زیادہ گردش دولت ہوگی اتنی ہی زیادہ شرح منافع بھی معاش کا جزو ہو گی جبکہ سود میں ساری دولت جمع ہوہو کر بہت ہی تھوڑے گنے چنے ہاتھوں میں سمٹنے لگے گی جسے ارتکاز دولت کہتے ہیں،بازارسے سرمایا کم ہوتا ہوتا ختم ہونے لگے گا بازار ویران ہو جائیں گے جسے کساد بازاری کہتے ہیں اور معاشرے کے اندر غربت ڈیرے ڈال دے گی۔
تجارت سے انسانی معاشرے میں تعلقات کو فروغ ملتا ہے،انسان دوسرے انسان کے منافع کا باعث بنتے ہیں اور انکے درمیان محبت و پیار اور عزت و احترام کا رشتہ جنم لیتا ہے،صدقات سے معاشرے کے طبقات کے درمیان فاصلے کم ہوتے ہیں،دولت کا بہت زیادہ فرق ختم ہونے لگتا ہے،بھوکے کا پیٹ بھرنے لگتا ہے تو صحت اور تعلیم کی طرف توجہ خوامخواہ اٹھتی ہے اور تہذیب و تمدن کا ارتقا ہوتا نظر آتا ہے۔معاشرہ پھلتا پھولتا ہے اور انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات کے باعث انسانوں کا معاشرہ واقعی انسانیت سے آراستہ و پیراستہ ہوتا ہے۔سود سے طبقاتی نظام کو تقویت ملتی ہے،انسان دوسرے انسان کے استحصال کا باعث بنتا ہے،منڈی میں غیر فطری مقابلہ کا رجحان پرورش پاتا ہے اور بنک میں شرح سود زیادہ ملنے سے سرمایا دار منڈی سے اپناسرمایا نکال لیتا ہے،اور بنک کبھی غریبوں کو قرضے نہیں دیتا چنانچہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹتی چلی جاتی ہے۔دولت کو خدا بنانے والے معاشرے میں خودغرضی،لالچ،حرص،طمع اور حوس اپنے اپنے پنجے گاڑھ دیتے ہیں اور غربت و افلاس،جہالت اورمعیار زندگی کی نہ ختم ہونے والی دوڑ اس معاشرے کا مقدر بن جاتی ہے۔بھوک اور بیماری سے مارے لوگ جب امیروں کے کتوں اور گھوڑوں کے کھانے اور دوائیاں دیکھتے ہیں تو جلن،کڑھن،حسد،بغض اور دشمنی سینوں میں گھر کر لیتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ لوٹ مار،ڈکیتی اور چوری کے ذریعے دولت سمیٹنا چاہتے ہیں اور وہ سودی معاشرہ جرائم کی آماجگاہ بن کر جنگل کا پتہ دینے لگتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس زندگی کی کہانی اسی دنیا تک ختم نہیں ہو جانی بلکہ انبیا علیھم السلام نے اور آسمانی اس بات کی سچی اطلاع دی ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور زندگی میں انسان نے جنم لینا ہے جہاں ایماندار تاجروں کو ایسے تاج پہنائے جائیں گے جن کی چمک پر ایک دنیا رشک کرے گی،انہیں اللہ تعالی کا قرب نصیب ہو گا،انکو پاک صاف کر کے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلامتیوں کے ساتھ باغ بہشت میں داخل کر دیا جائے گاجہاں وہ دل پسند زندگی گزاریں گے۔اس طرح کے انعامات کے حصول کی خاطر بزرگ ایسے جائزمنافع سے بھی بچنے کی کوشش کرتے تھے جس میں سود کا معمولی شائیبہ بھی موجود ہو۔کتابوں میں لکھاہے کہ قرض دینے والا مقروض کی دیوارکے سائے میں بھی کھڑانہیں ہوتاتھا کہ مبادا فرشتے اس حصول مفادکو بھی کہیں سود میں شمارکرلیں۔اس کے مقابلے میں سود خوردوزخ میں دھکیل دیے جائیں گے جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آگ کا ایندھن بنیں گے انہیں کھانے کے لیے کانٹے دار جھاڑیاں اور پینے کے لیے انہیں کے جسم پر پھوڑوں سے نچوڑی ہوئی پیپ پیش کی جائے گی جس کی تاثیر سے انکے چہروں سے گوشت پگھل کر اتر جائے گافرشتے آئیں گے اور دبارہ نیا گوشت چڑھا دیں گے عذاب کانہ ختم ہونے والا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔
سرمایا+مہلت+اضافہ=سود
سرمایا+محنت+نفع/نقصان=تجارت
سرمایا+محنت=اجرت
سرمایا+مہلت=امانت
سرمایا+قسمت=جوا
سرمایا+مفاد=رشوت
سرمایا+بدمعاشی=ڈکیٹی
سرمایا+محبت=تحفہ/ہدیہ
سرمایا+للھیت=صدقہ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...