(فائل فوٹو؛ بابا نور محمّد نور کپور تھلوی’ اپنے دو پوتوں دانیال افتخار اور بلال افتخار کے ساتھ ساتھ اپنے جگری دوست حقہ کے ہمراہ)
حُقہ گزرے وقتوں کی ایک ایسی بےمثال ایجاد ہے جو آگ اور پانی جیسے متضاد عناصر کو یکجا کر کے حاصل جمع کی صورت میں دھواں پیدا کرتا ہے جو بقول حُقہ نوشوں کے کش لگانے سے پھیپھڑوں کو معطر کرتا ہے. برصغیر میں مغل بادشاہ شاہجہاں کی بیٹی کے علاج کیلیے تمباکو پہلی دفعہ باہر سے لایا گیا جس سے شہزادی تو صحت یاب ہو گئی لیکن عوام کو تمباکو کا مریض بنا گیا جو کہ مختلف صورتوں میں ابھی بھی قائم و دائم ہے.
طبی ماہرین کی حُقے کے نقصانات کے بارے میں سب آرا ایک طرف لیکن یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ حُقہ ہماری معاشرتی زندگی خصوصاً گاؤں دیہات میں بڑی اہمیت کا حامل تھا اور کسی حد تک ابھی بھی ہے. گاؤں کی شائد ہی کوئی محفل ایسی ہو جس میں حُقے کی موجودگی نا ہو. شادی یا فوتگی پہ جہاں مہمانوں کیلیے چارپائی اور بستر اکٹھے کیے جاتے تھے وہیں انکی تواضع کیلیے حُقے بھی اکٹھے کیے جاتے تھے, ڈیرہ ہو یا دارہ, پنچایت ہو یا اکٹھ پردھان حُقہ ہی ہوتا تھا.
دن کو کھیتوں میں کام کرتے وقت بھی لوگ اسی شخص کے پاس آ کر بیٹھتے تھے جسکا حُقہ تازہ ہوتا تھا, جس کے ڈیرے پہ حُقہ نہیں ہوتا تھا اُسے لوگ ڈیرے دار ہی نہیں مانتے تھے. اس حوالے سے پنجابی کی ایک کہاوت بھی مشہور ہے کہ ”واہیاں اوناں دیاں… حُقے جنہاں دے گھر دے”
اس کہاوت کا لب لباب یہ ہے کہ جنکے پاس اپنے حُقے ہوتے ہیں انکی کھیتی باڑی بھی اچھی ہوتی ہے. چونکہ پرانے وقتوں میں تقریباً ہر کسان حُقہ نوش ہوتا تھا تو اپنا حُقہ نا ہونے کی وجہ سے اُسے کسی دوسرے ڈیرے پہ جانا پڑتا تھا جسکی وجہ سے وقت ضائع ہوتا تھا اور کام میں خلل آجاتا تھا. ظاہر ہے جسکا اپنا حقہ تازہ ہو تو کسی دوسرے کے پاس جانے میں جو وقت لگتا ہے وہ کھیتی باڑی کے مفید کام میں صرف ہو سکتا ہے.
دیہات میں چوپال کے درمیان بزرگوں کی محفل اسی کی مرہون منت تھی. ہر گلی محلے میں کوئی مخصوص جگہ ہوتی تھی جہاں پہ ایک خاص وقت پہ ایک رونق سی لگی ہوتی تھی جہاں ایک دوسرے کا حال احوال اور دن بھر کی ادھر اُدھر کی خبریں لِیک ہوتی تھیں. بچوں اور جوانوں کو اپنی جوانی کی قصے سناتے بزرگ اپنا بڑھاپہ اور دُکھ بھول جاتے تھے. لیکن جب اِنھیں بزرگوں کو انکی اولادیں شہروں میں لے جاتی ہیں انھیں ہر سہولت اور آسائش مہیا کرتی ہیں تو چاہے جتنا بھی قیمتی حُقہ کیوں نا ہو جب وہ گاؤں کی محفل اور رونق نہیں ہوگی تو تنہائیوں کا شکار وہ بزرگ بیمار ہو جاتے ہیں ۔
گاؤں کی محفل اور رونق نہیں ہوگی تو تنہائیوں کا شکار وہ بابے چار دن زندہ تو رہ لیں گے مگر جینا چھوڑ دیں گے!
حُقہ پینے والے کیلیے حُقہ نہ ہونا یا بُجھا ہوا ہونا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا کیونکہ اسکی غیرموجودگی حُقہ نوش کو بڑی گراں گزرتی ہے مثلا کھانا ہضم ناں ہونا, سر درد کرنا, چڑچڑاپن آجانا اور اسکے علاوہ جب کوئی بچہ حُقے کی نال میں پھونک مار کے پانی اوپر چڑھا کے حُقے کی آگ بجھا دیتا تھا تو بزرگوں کی جانب سے بچوں کی ڈکشنری میں پھر کئی نئے الفاظ کا اضافہ ہوتا تھا جو کہ یہاں بیان نہیں کیے جاسکتے. مختصراً یہ کہ یہ ایک ایسا نشہ ہے جو پینے سے نہیں چڑھتا بلکہ ناں ہونے سے چڑھتا ہے.
حُقہ نوشی کی اپنے ہی اصول تھے جو بڑے جاندار اور شاندار ہوا کرتے تھے. بڑے بڑے دیرینہ دشمن بھی جب ایک حُقے پہ بیٹھتے تو کش لگا کر برابر حُقے کی نال ایک دوسرے کی طرف کرتے رہتے تھے, بڑی بڑی رقابتیں حُقے کی ایک محفل کی نذر ہو جاتیں. اس حوالے سے حُقہ کئی لوگوں سے اچھا ہے جو لوگوں کو توڑنے کی بجائے جوڑتا ہے اور انکی تنہائیاں دور کرتا ہے.
حُقہ حکم فقیری پالے
پاٹ گیاں نوں سِیوے
تے جو اے امر احسان سمبھالے
تے بیٹھ حُقے نوں پِیوے
لیکن بدقسمتی سے حُقے کی جگہ ایک چھوٹی سی ڈبی نے لے لی ہے. جو بابے کبھی محفلوں میں رونقیں لگایا کرتے تھے وہ اب اپنی اپنی الگ سگریٹ کی ڈبی جیب میں رکھتے ہیں. یہاں ایک پہلو بڑا قابلِ غور ہے کہ سگریٹ انسان کی تنہائی کا ساتھی ہے لیکن حُقہ انسان کو تنہا ہی نہیں ہونے دیتا.
البتہ کچھ بابوں سے سب کو ہی چِڑ ہوتی تھی کیونکہ ایک تو وہ حُقہ پینے بیٹھ جاتے تو پھر بن مانگے کسی اور کو باری دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مزید یہ کہ دو تین جاندار کش لگا کے حُقے کا بیڑہ غرق کر دیتے تھے.
یہاں تمباکو نوشی کے فضائل ہرگز بیان نہیں کیے جا رہے کیونکہ حُقہ ہو یا سگریٹ مکھن دونوں میں سے ہی نہیں نکلتا, لیکن حُقہ ہمارے کلچر اور روایات کا حصہ اور بزرگوں کی نشانی ہے جو کہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے کیونکہ حُقہ پینے اور بنانے والے گزرتے جا رہے ہیں اور نئی نسل کیلیے اور بڑے مشاغل ہیں. اپنی تاریخ یا روایات سے ہمیں ویسے بھی کوئی سروکار نہیں اور ان اثاثوں کو دقیانوسی اور پرانی سوچ ہی گرداناجاتا ہے ۔راقم (اظہار احمد گلزار) کے والد گرامی کے-ٹو سگریٹ کے چین سموکر تھے ۔میں نے انہیں بہت کم کم حقہ پیتے ہوئے دیکھا ہے، البتہ اپنے تایا جان نور محمّد نور کپور تھلوی جو کہ اردو اور پنجابی کے مایہ ناز شاعر تھے ۔انہیں حقہ پیتے ہوئے دیکھا ہے ۔بلکہ راقم الحروف نے اپنی زندگی میں اپنے تایا کا بہت حقہ تازہ کیا ہے ۔۔ سینکڑوں کی گنتی کے حساب سے اوپلے خرید کر لانا۔۔ان کو محفوظ کرنااور پھر روزمرہ کے حساب سے ان کو مناسب آگ پر تیارکرکے ان کی چلم تازہ کرنا ، حقہ کا پانی بدلنا اور پھر ان کی خدمت میں پیش کرنا ۔۔۔بیٹھواں گول پیتل کا فرشی حقہ ان کا پسندیدہ ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھار کوئی بزرگ میرے سامنے حقہ پیتا ہے تو مجھے اپنے مرحوم تایا جان اردو اور پنجابی کے قادرالکلام شاعر’ نور محمّد نور کپور تھلوی کی یاد شدت سے آتی ہے ۔۔پھر یادوں کا ایک خوبصورت میلہ لگ جاتا ہے ۔۔تایا حضور کے بڑے بڑے کش اورلمبے لمبے کشوں کے بعد دھوئیں کو فضاؤں کی طرف پھینک کر بلند آواز سے کہنا “آج حقہ ٹھیک طراں تازہ کیتا اے جوانا ۔” پھر محلے میں ایک بھینس والی ماسی خورشید کے گھر سے اوپلے لانا اور ان کو سیڑھیوں کے نیچے محفوظ کرنا ، حقہ اور چلم تازہ کرنا آج تک یاد ہیں ۔۔۔اوپلے چولہے پر رکھ اس کے آس پاس رہنا کہ کہیں یہ راکھ بن کر چولہے کے نیچے ہی نہ گر جائے۔حقے سے متعلقہ ان کی ایک ایک بات ذہن میں گھوم گئی ہے۔۔
اب حقہ ہماری روایت سے ختم ہو چکا ہے نہ کہیں بنانے والے نظر آتے ہیں اور پھر حقہ پینے والے بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔۔۔۔کسانوں نے بھی تمباکو کی فصل کو بوائی کو کم کر دیا ہے ۔۔۔۔غرض کہ ہر ایک چیز بدل گئی ہے ۔۔۔ہمارے طور طریقے ، رسم و رواج ، تہذیب و تمدن ، ہماری اقدار ، ہماری سوچیں غرض سب کچھ بدل گیا ہے ۔۔۔۔آج تو ہم کسی کو فون پر خیریت دریافت کرنے کے لیے رابطہ کرتے ہیں تو اگلا بندہ ڈر جاتا ہے کہیں اس کو کوئی کام نہ ہو ۔۔۔اس کی وجہ رابطے کم ہو گئے ہیں ۔۔دیر بعد کیے جانے والے رابطے کسی خطرے سے کم محسوس نہیں کیے جاتے ہیں ۔۔ آہ ! ۔۔۔۔۔۔
یہ دنیا اور یہ دنیا کا چکر اسی طرح چلتا رہے گا ۔۔۔۔۔رہے نام رب دا ۔۔۔۔
غرض دارہ, پنچایت ہو یا اکٹھ پردھان حُقہ ہی ہوتا تھا.