ہنزہ کی خوبانیاں اور کینسر
وادئ ہنزہ پاکستان کے شمال میں پائی جاتی ہے، اور اپنے قدرتی حسن کی وجہ سے مشہور سیاحتی مقام ہے۔ اسکے چاروں طرف ہندوکش اور قراقرم سلسلہ کے برف پہاڑ ہیں، گلیشئرز ہیں، معدنیات قدر ت نے اتنی ہی دی ہیں جتنے پھل ، تازہ اور ٹھنڈے پانی کی آبشاریں اور جھرنے، وادی کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہنزہ کے لوگ ہندوستانی کالے نہیں بلکہ نیلی آنکھوں والے یورپین لگتے ہیں، کچھ کا یہ بھی دعوہ ہے کہ یہ کیلاش کی طرح اسکندر اعظم کے دستوں کی باقیات ہیں، جبکہ کچھ دعوجات کے مطابق یہ شمال مغربی روسی علاقوں سے تعلق رکھنے والے خضر Khazar ہیں ، وللہ اعلم، مگر ایک بات جوہ بہت اہم ہے وہ یہ کہ یہ لوگ طویل قامت ، صاف رنگتے رکھتے ہیں ، نیلی آنکھیں اور سنہرے بال ادھر کی خواتین کے حسن کو چارچاندلگائے پڑے ہیں۔ ان کی وجہ شہرت ہنزہ لوگوں کی طویل العمری ہے۔ عام عمر سو برس ہے، جبکہ ایک سو پینتیس چالیس برس کے بزرگ آپ کو گلیوں کوچوں میں بازاروں میں عام دکھائی دیتے ہیں، صرف عمر ہی نہیں انکی صحت عامہ بہت زبردست ہے۔ سوسال کی عمر میں بچے پیدا کرنا انکی وہ خاصیت ہے جو پوری دنیا میں مشہور ہے۔ کینسر ، دمہ ٹی بی۔ سانس کے دیگر امراض، جوڑوں کے درد گنٹھیا اوسٹیوپوروزی gout and osteoporosi عدم موجود ہے۔ اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب ہنزہ لوگ وادی سے باہر جاتے ہیں تو بیمار پڑتے ہیں ۔ ہنزہ لوگوں میں کینسر نہیں پایاجاتا اس بات کا انکشاف پہلی بار r. Robert McCanison نے 1922 میں امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے رسالے میں کیا تھا۔ اسکی وجہ وہ یہ قرار دیتا ہے کہ "ہنزہ لوگوں خوبانی کی بہت زیادہ پیدوار رکھتے ہیں، ان کو دھوپ میں خشک کرتےہیں اور اپنی خوراک میں بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ پس اسکا جو نتیجہ ہونا تھا وہی ہوا۔ پوری دنیا کے سائینسدان جو طویل عمری Geriatria پر کام کررہے ہیں ریسرچ کررہے ہین ادھر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔ ان لوگوں کے رہن سہن اور عادات کے بارے میں کچھ باتیں یہاں پر آپ سے شئر کرنا خارج از دلچسپی نہ ہوگا۔ • پانی: ہنزہ لوگ دریائے ہنزہ کا تازہ اور بہتا ہوا پانی پیتے ہیں ، کوک اور اس قبیل کے دیگرکیمیائی مشروبات استعمال نہیں کرتے۔ دریا کا پانی گلیشرز سے آتا ہے اور معدنیات سے بھرپور ہے۔ اسکے علاوہ اسکی پی ایچ الکلائن Ph ہے ۔ جبکہ جو پانی باقی عام دنیا میں استعمال ہوتا ہے وہ تیزیابی کی طرف ph رکھتا ہے۔ • خوارک: ہنزہ لوگ اپنی خوراک بہت سادہ رکھتے ہیں، سبزیاں، پھل اور دالیں انکی خوراک کا عام حصہ ہیں۔ گوشت کبھی کبھار، بہت کم۔ مطلب عیدو عید۔ • خوبانی:ہنزہ لوگوں کی زندگی میں خوبانی کا بہت دخل ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہنزہ وادی میں خوبانی کی بہتات ہے، اور اسکی اہمیت کا یہ عالم ہے کہ کسی ہنزہ فرد کی امارت کا جائزہ اسکی ملکیت میں خوبانی کے پودوں کی تعداد سے ہوتا ہے۔ جیسے ہی بچہ پیدا ہوتا ہے اسکے نام کا خوبانی کا پودہ لگادیا جاتا ہے۔ جبکہ بیٹیوں کےلئے باغ لگائے جاتے ہیں جو انکو جہیز میں دئیے جاتے ہیں۔ • خوبانی کو دھوپ میں خشک کیا جاتا ہے اس طرح یہ وٹامن ڈی سے بھرپور ہوتی ہے۔ وٹامن ڈی کینسر کی روک تھام اور عمرکے اثرات کو ذائل کرنے میں اہم کردار اداکرتا ہے۔ • عام ہنزہ فرد کھانے کے بعد پندرہ سے بیس خوبانیاں بطور سویٹ ڈش ٹھونگ جاتا ہے، اسی طر چائے کے ساتھ بھی خوبانی یا خوبانی سے بنا ہوا کیک یا مٹھائی پیش کی جاتی ہے۔
• خوبانی کے بادام یا اسکی گریاں apricote kernels پیس کر انکا آٹا بنایاجاتا ہے اور اسکی روٹی اور کیک وغیرہ روز مرہ میں استعمال ہوتے ہیں جو کہ Amigdalina, vitamina B17 سے بھر پور ہے اور اسکے حصول کا سب سے بڑا ریسورس ہے۔ • وٹامن بی 17 ایک glicosidi cianogenetici, ہے جو rosacea کی نسل کے پھلوں کے بیجوں میں پایاجاتا ہے۔ جیسے کہ سیب آڑو، خوبانی۔ جبکہ ہنزہ کی خوبانی اس نعمت سے مالا مال ہے اور اسکا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ • اماگدالینا کو جاننے والے یا اسکے اسپورٹرز اسے Laetrile "the perfect chemotherapeutic agent قرار دیتے ہیں جو کینسر سیلز کو ھلاک کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ • پب میڈ جوکہ امریکہ کا سرکاری میڈیکل پبلشنگ ادارہ ہے اس کے ریکارڈ میں اس موضوع پر 630 تحقیقی مطالعہ جات موجود ہیں • ایک بڑا نام ہے Dr Ernst T Krebs Jr., the biochemist who first produced laetrile (concentrated amygdalin) in the 1950s اسکا کہنا ہے کہ بندے کو کینسرسے بچنے کےلئے ہروز پندرہ خوبانی کے بادام کھانے چاہییں اور پھر بھلے وہ چرنوبل CHERNOBYL میں گھس جائے اسے کچھ نہ ہوگا۔ یہ ایک بڑا دعوہ ہے مگر ڈاکٹر کریبز کے دعوہ کو مسترد کرنا شاید اتنا آسان نہ ہوگا۔
کچھ باتیں اور ہنزہ لوگ صرف خوبانیاں ہی نہیں پھانکتے بلکہ انکی زندگی میں دو اہم باتیں میں نے نوٹ کی ہیں، ایک تو ہے پیسے کی عدم موجودگی۔ ہنزہ لوگ آپس میں لین دین پیسے سے نہیں کرتے بلکہ ابھی تک آپس میں اشیاء کے تبادلہ بارٹر سسٹم سے کام چلائے ہوتے ہیں، جو اسٹریس STRESS کو بہت حد تک کم رکھتا ہے، دوسرے ہنزہ لوگ بہت ایکٹو اور متحرک زندگ گزارتے ہیں۔ سخت پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے ہمسائے کے گھرجانے کےلئے بھی اترائی چڑھائی کرنی پڑتی ہے۔ پھر کھیتی باڑی، گلہ بانی کرتے ہیں، اس میں بھی اچھی خاصی بھاگ دوڑ ہوجاتی ہے۔ پانی لانا لکڑی اکٹھی کرنی۔ اگر پھر بھی انرجیاںہوں تو کوہ پیمائی کی جاسکتی ہے۔ ویسے وہ ڈانس اور ناچ کے بھی بہت شوقین ہیں آئے دن کوئی نہ کوئی وجہ مقررکرکے ناچ کے اپنے جسم کے متحرک کیئے ہوتےہیں ہیں سوسالہ بزرگ تک اپنی ٹانگوں کو حرکت دینے کو میدان میں اتر آتےہیں۔
تو پھر کیا نتیجہ نکالتے ہیں آپ ؟؟ صرف خوبانیاں چبائی جاویں یا پھر تازہ پانی، سادہ خوراک، متحرک زندگی اور پریشانی و اسٹریس سے بچکر بھی کیسے بچنے کی کوشش کی جاسکتی ہے؟؟؟ میرا تو یہی خیال ہے کہ ہم لوگ اگر سادہ خوارک استعمال کریں، اپنے آپ کو جسمانی طور پر متحرک رکھیں اور اسٹریس سے بچنے کےلئے لالچ کم لیں اور اللہ پر توکل زیادہ رکھیں تو کینسر، ٹیومرز یا ان جیسے دیگر موزی امراض سے بچا جاسکتا ہے۔
ممکن ہے کہ ساری ریسرچ غلط ہی ہو مگر پھر بھی اتنے سادہ طریقہ کو اپنانے میں کونسا بل اتا ہے؟؟
Courtesy:
http://www.urduonline.blogspot.it/2015/05/blog-post_17.html
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔