پیدائش : 9 نومبر 1929، بڈاپسٹ، ہنگری
موت: 31، مارچ 2016 بڈاپسٹ ،ہنگری (86 سال(
آبائی مذہب : یہودیت
نوبل انعام برائے ادب 2002
امری کرٹس نے فرد پر تاریخ کے جبر کے خلاف آواز اٹھائی۔ انھوں نے کمسنی میں دوسری جنگ عظیم میں نازی کیمپ میں ھونے ھونے والی بربریت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ امری کرٹس نے اپنے خیالات اور نظریات کو بڑے دبنگ طریقے سے لکھا، وہ اپنے موقف میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں ان کی یادوں میں جنگلوں میں بنے ھوئےنازی کیمپ کے ارد گر آہنی خاردار اور بھوک سے بلکتےبچوں ، ہر روز گیس چمبر اور گولیوں کا نشانہ بنے والے یہودی قیدیوں کی اجتماعی بے نشان قبریں دکھا کر اپنے قاری میں آزادی فکر کو ابھارتے ہیں ۔ جو انسانی بر بریت سے شرع ھوکر انسانی لایعنی وجودیت پراپنا اختتام کرتی ھے۔ ان کی تحریروں میں اس دور کی معاشرتی قوتوں کو انسان پر حاوی ھوتے ھوئے دکھایا ھے اور فرد کو تفکر کرنے پر اور اس کے امکانات کو ابھارہ ھے۔ . . یہ انسانی وجود کی دہشت کی حتمی سچائی ہے۔ انھوں نے اصل میں ایک ثقافتی نظریاتی جواز پیش کرتے ہوئے پاسکل ، گوئتے،شوپنہار، نطشے، کافکا، کامیو، بیکٹ اور برں ہارٹ سے متاثر ہوکر اینے عہد کی عمیق انسان کے فکری، ثقافتی، معاشرتی حوادث کے حوالے سےایک منفرد آفاق قائم کیا ھے۔ انھوں ھے یہودی تاریخ کے حوالے سے 2ہزار سال پرانی " اخلاقی تاریخ" پر بھی لکھا ھے۔ کب انھیں ہنگری کے شہری کی حیثت سے نوبل انعام کا حقدار ٹھرایا گیا تو اس پر تنازعہ کھڑا ھوگیا۔ کیونکہ وہ ایک طویل عرصے سے جرمنی میں رھتے تھے۔ اور آپ آپ کو "برلن" کا باشندہ کہتے تھے۔ امری کرتس نے 1993 میں اسٹیونس اسپربرگ کی نازی کیپ پر بنے والی فلم " شلیندر لسٹ" کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ امری کرٹس کی معروف تصانیف یہ ہیں :
1۔ Sorstalanság, 1975 (Fateless, 1992 (ناول)
2۔ Gályanapló ("Galley Diary"), 1992 (مضامین)
3۔ Sorstalanság, 1975 (Fateless, 1992 ( ناول)
4۔ kudarc ("Fiasco"), 1988, and Kaddis a meg nem született gyermekért, 1990 (Kaddish for a Child not Born, 1997
ھم یہاں نیر عباس زیدی کے ترجمہ کئے ہوئے امری کرٹس کے نوبل خطبے کے اقتباس کا ترجمہ شکرئیے کے ساتھ پیش کررہے ہیں ۔ (احمد سہیل) :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: نیرعباس زیدی
میں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ سوشلزم کی حیثیت میرے لیے ایسی ہے جیسے ایک چھوٹے اسفنج کیک کی، جسے پراوسٹ (Proust) چائے کے ساتھ لیتا تھا اور وہ اس میں بیتے ہوئے سالوں کا ذائقہ پیدا کردیتی تھی۔ میں جو زبان بولتا تھا اسی کی وجہ سے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ۱۹۵۶ء کی بغاوت کو کچلے جانے کے بعد ہنگری ہی میں ہی رہوں۔ لہٰذا میں اس قابل ہوا کہ ایک بالغ ، نہ کہ بچے، کی حیثیت سے یہ دیکھ سکوں کہ آمریت کس طرح کام کرتی ہے۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح ایک بھرپور قوم کو اس کے افکار و خیالات رد کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور میں نے رواداری کی طرف بڑھتی ہوئی ابتدائی اور محتاط کوششیں بھی دیکھیں۔ میں یہ سمجھاکہ امید بدی کا آلۂ کار ہے اور حفظ، نفس کی کانٹ (Kant) سے منسوب کنیز ہے۔ کیا کوئی بھی شخص اس سے زیادہ آزادی کا تصور کرسکتا ہے جو کسی بھی مصنف نے نسبتاً محدود، تھکی ماندہ اور روبہ زوال آمریت میں محسوس کی۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ہنگری کی آمریت ایک ایسی تسلی بخش کیفیت پر پہنچ چکی تھی کہ جسے ایک معاشرتی ہم آہنگی کہا جاسکتا تھا۔ مغرب نے اسے ’’نرم دل‘‘ برداشت کا نام دیا ’’گولاش کمیونزم‘‘۔ ایسا محسوس ہوتا تھا یہ ابتداء میں بیرونی طور پر رد کیے جانے کے بعد ہنگری کا اپنا نقطہ نظر جلد ہی مغرب کے من بھاتے طرزِ کمیونزم کے رُخ پر ہوگیا۔ ہم آہنگی کی گہرائیوں میں کوئی بھی شخص یا تو جدوجہد چھوڑ دیتا ہے یا اندرونی آزادی کے لچھے دار راستے پالیتا ہے۔ ایک قلم کار کے عام معارف بہت کم ہوتے ہیں، اپنے پیشے کو جاری و ساری رکھنے کے لیے، اسے محض کاغذ و پنسل ہی درکار ہیں۔ وہ تنفر اور ذہنی دبائو جس سے میں ہر صبح اٹھتا تھا اس نے مجھے اسی دنیا میں بھیج دیا جسے میں بیان کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ مجھے دریافت کرنا تھا کہ میں نے ایک شخص کو ایک قسم کی اجتماعی منطق میں دوسرے اجتماعی نظام کے نیچے کراہتے ہوئے چھوڑا اور اس نے میرے ناول کی زبان کو ایک اعلیٰ کنایاتی ذریعہ دے دیا۔ اگر اب میں پیچھے کی طرف دیکھوں اور سچائی سے اس صورتِ حال کا اندازہ لگائوں جس میں اس وقت گرفتار تھا تو میری گفتگو کا حاصل یہی ہوگا کہ اگر میں کسی آزاد مغربی معاشرے میں رہ رہا ہوتا تو شاید یہ ناول نہ لکھ پاتا جسے پڑھنے والے فیٹلیس (Fateless) کے نام سے جانتے ہیں اور جسے سیوڈش اکیڈمی نے اعلیٰ ترین اعزاز کے لیے منتخب کیا۔ایک خاص واقعہ رونما ہوا ، جب میں یہ لیکچر تیار کررہا تھا، جس نے میرا اعتماد بحال کیا۔ ایک دن مجھے ایک بڑا برائون رنگ کا لفافہ ڈاک سے موصول ہوا۔ یہ بوچنوالڈ میمورئیل سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹروولک ہارڈنگی نے بھیجا تھا۔ انہوں نے اپنے مبارکباد کے پیغام کے ساتھ ایک چھوٹا لفافہ بھی ارسال کیا اور اس میں بیان کیا کہ لفافے کے اندر کیا ہے، کہ اگر میرے اندر دیکھنے کی سکت نہیں ہے تو میں اسے نہ دیکھوں۔ اس لفافے میں کیمپ کے قیدیوں کے حوالے سے ۱۸فروری ۱۹۴۵ء کا روزنامچہ تھا۔ سبگینج (Abgange) جو کہ ’’تخفیفی کالم‘‘ ہوتا ہے۔ اس میں مجھے امرکرٹز نامی ایک قیدی جس کا نمبر ۶۴۹۲۱ ہے کی وفات کا علم ہوا وہ فیکٹری ورکر تھا اور اس کی تاریخ پیدائش ۱۹۲۷ء ہے۔ یہ غلط اندراج: میری پیدائش کا سن اور میرا پیشہ میرے بوچنوالڈ لائے جانے پر رجسٹر میں درج کیا گیا۔ میں نے خود کو دوسال بڑا ظاہر کیا تاکہ میں ایک بچے کی حیثیت سے نہ پہچانا جائوں اور خود کو ایک مزدور ظاہر کیا نہ کہ طالب علم تاکہ ان کے لیے زیادہ مفید نظر آئوں۔ مختصراً یہ کہ میں ایک مرتبہ وفات پاگیا، لہٰذا میں زندہ رہ سکتا ہوں شاید یہ میری حقیقی کہانی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو میں اپنے کام کا انتساب، ایک بچے کی موت کی پیدائش، ان لاکھوں لوگوں کے نام کرتا ہوں جو وفات پاگئے اور ان کے نام بھی جو اب تک انہیں یاد رکھے ہوئے ہیں لیکن ہم چونکہ ادب کی بات کر رہے ہیں ایسے ادب کی بات جو ہماری اکیڈمی کی نظر میں تحریری شہادت ہے تو میرا یہ کام مستقبل میں بھی ایک مقصد کی حیثیت سے کام کرسکتا ہے اور یہ میری دیرینہ خواہش ہے کہ میں مستقبل سے بھی ہم کلام ہوسکوں۔ جب کبھی میں ایشوٹز کے بھیانک اثرات کے بارے میں تصور کرتا ہوں تو میں آج کل کے جیتے جاگتے لوگوں کی گرم خیزی اور تخلیقی صلاحیتوں کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتا ہوں۔ لہٰذا، اوشوٹز کے بارے میں سوچتے ہوئے، میں ماضی کو نہیں بلکہ متناقضانہ طور پر، مستقبل کو منعکس کرتا ہوں۔ :::::
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...