“ ارے جناب سنئیے تو سہی” عقب سے ایک جانی پہچانی سی آواز آئی۔
میں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک دو لوگ اور بھی قریب ہی چل رہے تھے۔ مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ شام سے دفتر کا نکلا ہوا اب گھر پہنچا ہی چاہتاتھا۔ مجھے غسل خانے کی حاجت تھی اور اس وقت میں کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا۔
“ارے صاحب ایسی بھی کیا جلدی ہے” آواز اب میرے برابر سے آرہی تھی۔
یہ خواجہ صاحب تھے۔ میرے سامنے والے مکان کے برابر والے پڑوسی۔ میں نے بادل ناخواستہ رفتار کم کی اور ان کی جانب متوجہ ہوا۔
“سلاں علیکم”
“ کہاں ہوتے ہیں آپ، کچھ خبر بھی ہے محلے میں کیا ہورہا ے؟” انہوں نے میرے سلام کو نظر انداز کردیا۔
“ خیر تو ہے۔ کیا ہوا؟
“ارے بھائی اس سے زیادہ اور کیا ہوگا” وہ بہت تپے ہوئے لگ رہے تھے۔
“کیا ہوگیا؟”میں ںے بیزاری سے پوچھا۔ مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔
“ بس بھیا کیا بتائیں۔ ساری قیامت کی نشانیاں ہیں۔” انہوں نے یہاں وہاں دیکھ کر تقریباً سرگوشی کے انداز میں کہا۔ میں بھی کچھ دیر کے لئے اپنی تکلیف بھول گیا۔
“ کچھ پتہ تو چلے کیا ہوا” مجھے بھی اب کچھ کچھ دلچسپی ہو چلی تھی۔
“ خلیل صاحب ہیں ناں ۔آپ کے برابرتیسرے گھر والے۔ جن کا لونڈا ابھی باہر سے پڑھ کر آیا ہے”
“ جی کیا ہوا ان کے لڑکے کو؟” میری آواز میں فکرمندی تھی۔
“ ارے صاحب کچھ نہیں ہوا۔ لیکن بھیا شرافت کی بھی کوئی حد ہے۔اب یہ محلہ شریفوں کے رہنے کا قابل نہیں رہا” وہ مسلسل پہیلیاں بجھوا رہے تھے۔
“ ارے اب بتائیں بھی کہ کیا ہوا” میرے لہجے میں جھلاہٹ اور تجسس دونوں تھے۔
“ کل رات کوئی گیارہ ساڑھے گیارہ بجے ان کا لونڈا کہیں باہر سے کسی کی گاڑی میں آیا۔ ساتھ ہی ایک لڑکی بھی کار سے باہر آئی۔ دونوں کچھ دیر بات کرتے رہے پھر لڑکی نے خدا حافظ کہتے ہوئے پتہ ہے کیا کیا؟ “
“ کیا کیا؟” میں بھی اب اپنی حاجت کو بھول چکا تھا۔
“ ارے صاحب وہ دونوں ایک دوسرے کے گلے لگے اور میرا خیال ہے کہ شاید “ انہوں نے پھر آس پاس نظر دوڑائی” شاید لونڈے نے، اسے، اس لڑکی کو، پیار بھی کیا “ وہ میرے کان میں بولے۔
“ ہوسکتا ہے وہ اس کی کوئی بہن وغیرہ ہو۔ ویسے بھی باہر ملکوں میں یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں۔” میں نے اظہار رائے کیا۔ ایک دو بار دفتر کے کام سے مجھے غیرملکی سفر کرنے پڑے تھے اور وہاں یہ سب عام بات تھی۔
“ نہیں صاحب ۔ اب یہ محلہ رہنے کے قابل نہیں رہا۔” وہ غرائے۔ “ یہ شریفوں کے کام نہیں”
میرا گھر آگیا تھا۔ میں نے جلدی سے انہیں خدا حافظ کہا اور گھر میں داخل ہوگیا۔
وہ لڑکا اور لڑکی بہن بھائی تھے، رشتہ دار تھے ، دوست تھے یا عاشق معشوق۔ شاید وہ ایک دوسرے کو چاہتے ہوں۔ محبت وغیرہ کرتے ہوں۔ لیکن بے وقوف یہ بھول گئے کہ محبت اندھی ہوتی ہے، پڑوسی نہیں۔ وہ دوآنکھیں سامنے تو دو دائیں بائیں اور دو پیچھے بھی رکھتے ہیں۔
اور میرے ہمسائے تو جانو منکر نکیر کے ماں جائے ہیں۔ شیطان کی نظر بھی کیا تیز ہوگی جو میرے پڑوسیوں کی ہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی خبر رساں ایجنسی وہ خبریں نہیں جان سکتی جن کی خبر میرے محلے والوں کو غیب سے مل جاتی ہیں۔
بات یہ ہے کہ دوست اور دشمن بنانا ہماری اپنی صلاحیتوں، خوبیوں اور خامیوں کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن ہمسائے خدا کی دین ہوتے ہیں چنانچہ صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ شاید اسی کے لئے شاعر نے کہا ہے یا شاید کسی فلسفی نے کہا ہے کہ “ پاس کر ، یا برداشت کر”۔ اور دریا میں رہ کر مگرمچھ، بلکہ مگرمچھوں سے بیر کیسا۔ لہذا برداشت ہی کررہے ہیں۔
آسمانی کتابوں، اور معاشرتی علوم وغیرہ میں ہمسایوں کے بڑے فضائل اور حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ اچھے پڑوسی کو خدا کی نعمت کہا گیا ہے۔ میں ایک سیدھا سادھا سا مسلمان ہوں اور مذہب کے تمام احکامات کو دل سے مانتا ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ اچھے اور نیک ہمسائے اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔ اور میں مانتا ہوں کہ اچھے ہمسائے بھی ہوتے ہوں گے، لیکن وہ شاید کہیں پچھلی سے پچھلی گلی میں یا ٹمبکٹو، ہنا لولو، برکینا فاسو یا ایکویڈور وغیرہ میں کہیں ہوتے ہوں گے۔ ہمارے ہمسائے میں تو خواجہ صاحب، چوہدری صاحب، خان صاحب اور مرزا صاحب وغیرہ رہتے ہیں۔ہندوستان ، پاکستان اور بہ سلسلہ ملازمت خلیج وغیرہ کے ممالک میں جہاں کہیں رہنا ہوا تقریباً اسی قبیل کے پڑوسی ہر جگہ ملے۔
مذہبی کتابوں میں پڑوسی سے نیک سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی دشمن سے بھی بھلائی کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ پڑوسی اور دشمن کو ایک ہی بریکٹ میں فٹ کرنے کی مصلحت بھی اوپر والا ہی جانتا ہوگا۔
ان پڑوسیوں سے میری محبت کی داستان کی ابتدا میرے ہوش سنبھالنے سے ہی شروع ہوتی ہے۔ میری نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی اطلاعات میرے گھر والوں کو انہی مہربانوں کے ذریعے ہوتی رہی ہیں۔ جب ہم چند دوستوں نے انتہائی رازداری کے ساتھ گھر سے بہت دور سگریٹ نوشی شروع تو یہ ہمارے ہمسائے ہی تھی جنہوں نے گھر والوں کو اس امر کی اطلاع دینا اپنا فرض سمجھا تھا۔ ہمارا جو بھی راز تھا وہ نہ صرف گھروالوں بلکہ محلے والوں تک ضرور پہنچا۔
نہ جانے کیسے خبر ہوگئی زمانے کو
تب سے میرا خیال ہے کہ اگر کبھی کسی پڑوسی سے ہاتھا پائی کی نوبت آئے اورنوبت ہاتھ پیر توڑنے تک پہنچے تو خدارا یہ کام ادھورا نہ چھوڑئیے ورنہ بعد میں پچھتائیں گے۔
بہترین پڑوسی وہ ہیں جن سے صرف مسکراہٹ کا تبادلہ ہو اور دور سے صاحب سلامت ہو۔ ایسے پڑوسیوں سے تعلقات سالہا سال قائم رہ سکتے ہیں ورنہ وہ حال ہوتا ہے جو میرے قائم مقام منکر نکیر یعنی میرے دائیں بائیں کے ہمسایوں نے کر رکھا ہے۔
میرے دائیں جانب خان صاحب کا گھر ہے۔ میں نے جب کبھی ہتھوڑی، آری، اسکروڈرائیو یا ایسی ہی ضرورت کی چیز خریدی، خان صاحب کو غیب سے اس کا علم ہوجاتا ہے۔ پھر انہیں اس قدر شدید ضرورت ان چیزوں کی پیش آجاتی ہے کہ لگتا ہے کہ بس وہ میرا انتظار کررہے تھے کہ کب میں خریدوں اور وہ اپنے کام نمٹائیں۔
ابھی پچھلے دنوں کی ہی بات ہے میں نے کسی ضرورت کے تحت ایک برقی ڈرل مشین خریدی اور اسے بڑی احتیاط سے چھپا کر گھر لا رہا تھا کہ خان صاحب کی نظر پڑ گئی۔ انہوں نے مجھ پر انکشاف کیا کہ وہ مکینیکل اور الیکٹریکل انجینئرنگ وغیرہ میں ڈپلومہ کرچکے ہیں اور یہ کہ انہیں بجلی کے آلات استعمال کرنے کا نہ صرف شوق ہے بلکہ وہ اس میں زبردست مہارت بھی رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی انہیں یاد آیا کہ ان کے گھر میں کچھ ضروری کام صرف اس لئے رکے ہوئے ہیں کہ ان کے پاس ڈرل مشین نہیں تھی۔ میں ان کے خیال میں چونکہ ان کاموں میں اناڑی تھا چنانچہ انہوں نے مشورہ دیا کہ میں ڈرل مشین ان کے حوالے کردوں ۔ نہ صرف ان کا کام ہوجائے گا بلکہ مشین کی آزمائش بھی ہوجائے گی۔
اس کے بعد خان صاحب بہت دنوں تک نظر نہیں آئے اور جب میری بیگم نے اس کام کو انجام دینے کا تقاضہ شدت سے شروع کردیا جس کے لئے ڈرل مشین خریدی گئی تھی تو میں نے اپنے لڑکے کو خان صاحب کی طرف بھیجا۔ خان صاحب تو گھر پر نہیں تھے۔ میرے بیٹے کے پوچھنے پر ان کی بیگم نے بتایا کہ خان صاحب نے حال ہی میں ڈرل مشین خریدی تو ہے لیکن وہ ان سے پوچھے بغیر مجھے نہیں دے سکتیں۔
خیر دوسرے دن خان صاحب مجھے مل ہی گئے۔ میں نے شرمندہ سا ہوکر ان سے ڈرل کے بارے میں پوچھا۔ خان صاحب نے پڑوسی کے حقوق اور مانگے کی چیزوں کے بارے میں کچھ احادیث اور آیات سنانے کے بعد میری اس ،جلد بازی، پر حیرت اور افسوس کا اظہار فرمایا اور کچھ خفا سے انداز میں کہا کہ وہ لڑکے کے ہاتھ سے مشین بھجوا رہے ہیں۔
مشین کے ساتھ اس کی چابی اور چھ Bits کا سیٹ بھی تھا۔ لڑکا مشین دروازے کے باہر سے ہی دے کر چلاگیا۔ چھ کی جگہ صرف چار bits تھیں اور چابی غائب تھی۔ چابی کے بغیر bits ڈرل میں فٹ نہیں کی جاسکتی تھیں۔ میں نے اپنے بیٹے کو خان صاحب کی طرف روانہ کیا۔ جواب ملا اس وقت تو نہ تو چابی مل رہی ہے نہ ہی بقیہ بٹس کا کچھ پتہ ہے۔
مجھے گھر میں کچھ ضروری کام تھے اور کاریگروں وغیرہ سے پیسے بچانے کی خاطر میں نے یہ ڈرل مشین خریدی تھی۔ چابی کے بغیر کچھ کام نہیں ہوسکتا تھا۔ بٹس میں بھی ایک اس سائز کی تھی جس کی مجھے اشد ضرورت تھی۔ خان صاحب نے اس دوران مکمل پردہ پوشی اختیار کرلی تھی۔ ناچار دودن بعد دفتر سے جلد چھٹی لے کر میں نیوچالی میں اس دکان پر گیا جہاں سے ڈرل مشین خریدی تھی۔ دکاندار صرف دو بٹس بیچنے کو تیار نہیں تھا نہ ہی چابی مفت دینے کو تیار تھا۔ بادل ناخواستہ بٹس کا نیا سیٹ اور چابی خریدی اور گھر کو روانہ ہوا۔
گھر پہنچتے ہی کپڑے بھی نہیں بدلے اور فورا” ڈرل مشین میں مطلوبہ ،بٹ ،فٹ کرنے میں مصروف ہوگیا۔ بٹ کو دیوار سے لگا کر ڈرل چلائی تو کوئی آواز آئی نہ کوئی حرکت ہوئی۔ لڑکے سے کہا کہ کنیکشن ٹھیک سے چیک کرے۔ بیگم بھی ساتھ کھڑی تھیں ۔ ترشی سے بولیں پلگ بالکل درست لگا ہوا ہے۔ آپ کو مشین چلانی نہیں آتی۔
اسٹول سے اتر کر مشین کا جائزہ لیا۔ ایک جانب کچھ سیاہ سے نشان تھے۔ اندر کا موٹر جل چکا تھا۔ خان صاحب کو بلوانے بھیجا۔ حسب معمول وہ گھر پر نہیں تھے۔ اب آگے کا قصہ اور کیا سناؤں ۔ آج تین ماہ ہوگئے، خان صاحب کم نظر آتے ہیں۔ میرے سلام کا جواب نہیں دیتے البتہ پڑوسیوں کی زبانی سنا کہ ان کے بقول مجھے پڑوسیوں کے حقوق کا بالکل خیال نہیں۔
بائیں جانب والا گھر چوہدری صاحب کا ہے۔ ہم انہیں پیار سے اور جلدی کے مارے “ چوئی ساب” کہتے ہیں۔ چوئی ساب بڑے پرخلوص آدمی ہیں۔ اکثر ہمارے ہاں شام کو چائے پر گپ شپ لڑانے چلے آتے ہیں۔ ان کی بیگم اور بچوں کا تو سارا دن ہی آنا جانا لگا رہتا ہے۔
چوئی ساب نے پچھلے دنوں نیا اسکوٹر خریدا۔ ان کا ارادہ موٹر کار خریدنے کا بھی ہے اور وہ یقیناً خرید لیں گے۔ انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ میاں چنوں میں اپنے آبائی گاؤں میں انہوں نے کئی ایکڑ زمین اور خریدی ہے اور اب ٹریکٹر بھی خریدنے والے ہیں۔
مہینے کے آخری دنوں میں میری جیب بالکل خالی ہوتی ہے۔ روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے دوستوں اور دفتری ساتھیوں سے ادھار مانگ کر گذارہ کرتا ہوں۔ لیکن اس دوران چوئی ساب کی بیگم برابر ہمارے گھر سے ، چینی، چائے کی پتی، پیاز، دہی، دھنیا ، گھی وغیرہ لے جاتی رہتی ہیں۔ چوہدری صاحب کو اللہ نے بہت دیا ہے اور وہ کبھی کسی کے آگے قرض کے لئے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ مہینے کے آخری دنوں میں چوئی ساب اور چوہدرانی بڑی محبت سے پیش آتے رہتے ہیں اور مجھے اپنے دوستوں سے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔
خان صاحب اور چوہدری صاحب دونوں بھلے آدمی ہیں۔ میری جان البتہ خواجہ صاحب سے نکلتی ہے۔ خواجہ صاحب بہت دیندار آدمی ہیں۔ زیادہ تر مسجد میں یا محلے کی چوپال میں وقت گذارتے ہیں جہاں وہ وعظ و نصیحت میں مصروف رہتے ہیں۔
میرے گھر میں خواجہ صاحب اکثر وبیشتر تشریف لاتے ہیں ۔ بڑی بے تکلفی سے باورچی خانے کی طرف منہ کرکے سونگھتے ہوئے فرماتے ہیں ، اوہو آج مچھلی پکی ہے۔بھئی بھابی کے ہاتھ کی مچھلی کا جواب نہیں۔ میری بیگم ایک طشتری میں تلی ہوئی مچھلی کے کچھ ٹکڑے ان کے لیے بھجواتی ہیں یا کبھی کبھار کوئی چیز لے کر خود آجاتی ہیں۔ خواجہ صاحب میری بیگم سے پردہ نہیں فرماتے۔ کھانے کے بعد چائے وغیرہ کی فرمائش ضرور کرتے ہیں۔
لیکن یہی خواجہ خیر الدین صاحب میری غیر موجودگی میں چوپال میں حاضرین کو میرے گھر والوں کی بے پردگی پر تنقید کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہمارا گھرانہ دین سے دور ہے اور ہمیں پردے اور شرم وحیا کا ذرا بھی پاس نہیں۔ یقین جانئیے کہ یہ سب سن کر سوچتا ہوں کہ انہیں اپنے گھر کے پاس بھی نہ پھٹکنے دوں۔ ان خیرالدین صاحب کے پاس نہ خیر ہے نہ دین ہے۔ لیکن محلے میں رہنا ہے تو انہیں بھی برداشت کرنا ہے۔
یہ وہی حضرت ہیں جنہوں نے مجھے خلیل صاحب کے لڑکے کی عشق بازی کی خبر دی تھی۔ مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ وہ خاتون خلیل صاحب کی بڑی بہن تھیں اور اپنے بھتیجے کو یہاں چھوڑنے آئی تھیں اور جاتے وقت اسے گلے لگایا اور سر پر پیار دیا تھا۔ اندھیرے میں خواجہ صاحب کو صرف ، لڑکی اور لڑکا، نظر آئے۔ بقیہ تفاصیل انہوں نے خود ہی فرض کرلی تھیں۔
دو گھر چھوڑ کر مرزا صاحب کا گھر ہے ۔ یہ وکیل ہیں ۔ یہ ہمیں انہیں سے پتہ چلا ہے۔ گھر سے سفید پتلون قمیض اور کالا کوٹ پہن کر نکلتے ہیں۔ کسی نے مجھے بتایا کہ کہ مجسٹریٹ کے دفتر کے باہر میز لگا کر بیٹھتے ہیں اور اشٹام پیپر وغیرہ فروخت کرتے ہیں۔
مرزا صاحب سے میں کبھی نہیں الجھتا۔ کبھی کسی بات پر تکرار ہوئی تو ہمیشہ قصور میرا ہی ثابت ہوا۔ وہ ایسی قانونی شقیں نکال کر لاتے ہیں کہ مجھے اپنی گردن پھانسی کے پھندے پر جھولتی نظر آتی ہے۔
الجھتا تو میں سردار صاحب سے بھی نہیں ہوں۔ ایک تو ان کی بڑی بڑی مونچھوں سے ڈر لگتا ہے۔ دوسرے ہر وقت دوچار مشٹنڈے ان کی رفاقت میں رہتے ہیں۔ سردار صاحب کا سیاست میں عمل دخل ہے اور شاید اگلا الیکشن بھی لڑنے والے ہیں۔ ان کے شہر کے بڑے لوگوں سے تعلقات بتائے جاتے ہیں۔ ویسے جو لوگ ان کے ساتھ ہوتے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہر کے نامی گرامی بدمعاشوں سے ان کی جان پہچان ہے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ پورے محلے میں صرف سردار صاحب سے ہی دوستی رکھنی چاہئیے۔
ایسے ہی کئی اور نابغے میرے پڑوسی ہیں۔ یہ سب بہت اچھے ہیں اور جب تک میں اس محلے میں ہوں مجھے انہیں اچھا ہی سمجھنا ہوگا۔ آپ کو ان بڑے صاحب کا قصہ تو پتہ ہی ہوگا جو بندوق لئے اپنے کھیتوں پر پہرہ دے رہے تھے۔
کسی نے پوچھا کہ آپ کے پڑوسی کیسے ہیں تو بڑے صاحب نے فرمایا کہ بہت بھلے لوگ ہیں۔ سب بہت اچھے ہیں ۔
پوچھا پھر یہ بندوق کس لئے ہے؟
فرمایا “ انہیں اچھا رکھنے کے لئے”۔
بس ایسی ہی کچھ داستان میری بھی ہے۔