اس میں کوئی شک نہیں، کہ بطور لبرل ۔۔ ہم اپنے معاشرے میں جدید ترقی یافتہ تہذیبی تصورات، انسانیت ساز اور کلچرڈ اقدار کو آشنا کرا رہے ہیں۔ اور انہیں فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس میں سب انسان برابر اور قابل تکریم سمجھے جاتے ہیں۔ انسانوں کے کسی بھی طرح کی شناخت رکھنے والے فرد و طبقے، گروہ، صنف کی روائتی تضحیک کو ناپسند کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں روائتی تضحیک جن کی کی جاتی ہے، ان میں غیرمسلم ہونا، ' کم تر ذات اور پیشے کا ہونا،جسمانی معذور ہونا، عورت ہونا، زہنی مریض ہونا، تیسری صنف کا ہونا (خواجہ سرا)، رنگ و نسل وغیرہ شامل ہیں۔ ظاہر ہے ماڈرن تہذیب و تعلیم ان تمام تفریقات، امتیازیات کو مٹا چکی ہے یا مٹا رہی ہے۔ جتنا کوئی ترقی یافتہ جدید معاشرہ ہے۔۔ وہاں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کو مٹا چکی ہے، اور ان کو مین سٹریم میں قابل عزت مقام ہی نہیں بلکہ عام ' نارمل ' انسانوں سے زیادہ عزت و تکریم کی جاتی ہے۔۔
اب صورت حال یہ ہے کہ ہم ایک انتہائی پس ماندہ ، تعصبات و امتیازات بھرتنے والے معاشرے میں پیدا ہوتے ہیں، ساری زندگی ان عصبیتوں کو دیکھتے اور سنتے ہیں۔ وہ ہماری زبان کا محاورہ بھی بن چکے ہوتے ہیں۔ بطور لبرل اور جدید مائنڈ کے ہوتے ہوئے بھی بعض اوقات ہم لاشعوری طور ان گروہوں کو ان کے مروجہ معنوں میں استعمال کرجاتے ہیں۔۔۔ مجھ سے کئی بار ایسا سرزد ہوجاتا ہے۔۔ مثلا میں نے لفظ ' کھسرا ' استعمال کرلیا۔۔۔ ایک ایسے شخص کے لئے۔۔ جو تخلقیت کی صلاحیت سے محروم ہو۔۔ ہم کہہ جاتے ہیں ' جا او تم کسھرے ہی ہو۔۔' (جس سے کچھ کام نہ ہو)۔۔ اسی طرح میں کبھی ' مراثی ' لفظ استعمال کرجاتا ہوں۔۔ ان معنوں میں ۔۔ غلامانہ جمچہ گیری کرنے والے۔۔ ابھی میں نے ایک پوسٹ میں جنونی مذہبیوں کو ' زہنی مریض ' کہہ دیا۔۔۔۔
اب ہوتا یہ ہے۔۔ جن پر لبرل ازم اور جدید افکار کا نظری رنگ زیادہ چڑھ جاتا ہے۔۔ وہ اس معاملے میں زیادہ 'حساس' ہوجاتے ہیں۔ فورا مجھے ٹوکنے یا میری مذمت کرنے آ جائیں گے۔۔ کہ تم لبرل ازم کے داعی ہو۔۔ معاشرے میں ان مخصوص نام نہاد کم تر سمجھے جانے والوں کا مذاق اڑا رہے ہو۔۔۔ یا انہیں اسی روائتی سینس میں استعمال کررہے ہو۔۔۔۔ جب کہ ہمارے نزدیک وہ تو قابل احترام ہیں۔ بالکل صحیح میرا بھی یہی عقیدہ ہے۔۔۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں۔۔ کہ ہم ایک انتہائی کچرا معاشرے میں رہ رہے ہیں۔۔ جو ابھی ازمنہ قدیم پر پھنسی ہوئی ہے۔ ہمارے چاروں طرف وہی جہالت، پس ماندگی، امتیازی تصورات، کمتری و برتری کے بدرجہ اتم موجود ہیں۔۔ ہم ان تصورات و اقدار کو حتی المقدور مٹا رہے ہیں۔ لیکن زمین سے دونوں ٹآنگیں اٹھا کرنہیں چل سکتے۔۔ جس سے بہت زیادہ آئیڈیل صورت حال میں لے جائیں۔ کبھی کبھی متبادل زبان و بیان کے میسر نہ ہونے کا بھی مسئلہ پڑجاتا ہے۔۔ اور کبھی ان کو بطور استعارہ بھی استعمال کرلیتے ہیں۔۔ مطلب ان طبقات کی ہرگز تضحیک نہیں ہوتا۔۔ بلکہ ان صفات کا جو ہمارے مستعمل محاورہ ہوتا ہے اس طرف توجہ دلانی مطلوب ہوتی ہے جو عام فہم بھی ہوتا ہے۔۔۔
میرا نہیں خیال کہ ایسی سوفسٹیکیشن کے اتنے Strict پیمانے لے کرہم اس کچرا زدہ معاشرے میں چل سکتے ہیں۔۔ ہمیں عام بول چال کی زبان استعمال کرنی پڑجاتی ہے۔۔ جب کہ ہمارے 'سوفسٹی کیٹڈڈ ' قسم کے دوست فوری مائنڈ کرجاتے ہیں اور سرزنش کرنے آ جاتے ہیں۔۔ ان کے جواب میں میں پھر وہی کہہ سکتا ہوں۔۔ " جا اوئے وڈا انگریز آیا ایں" ( جاو بڑے انگریز بنے پھرتے ہو) ۔ میں اس جہالت زدہ اور ظلم و امتیازات سے بھرے معاشرے میں پورا ' انگریز' نہیں بن سکتا۔۔ پورا انگریز آپ انگریزوں والے معاشرے میں تعلیم و تریبت و پیدائش سے ہی بن سکتے ہیں۔۔ اس لئے قابل احترام دوستوں سے التماس ہے۔ کہ وہ اسے اپنے دیسی تناظر میں کہی بات سمجھیں۔۔ نہ کہ کسی گروہ کی تضحیک کے معنوں میں۔۔ مثلا میں کبھی کسی خواجہ سرا کی تضحیک کے گناہ کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔۔ بلکہ میں تو LGBT کے حقوق کا کھلم کھلا داعی ہوں۔۔۔ لیکن کبھی کھسرا لفظ کسی مخصوص تناطر اور معنی میں استعمال کرلوں۔۔ کم از کم میں تو اس میں حرج نہیں سمجھتا۔۔ نہ میں سوفسٹی کیشین کے چبوترے پر چڑھ کربیٹھ سکتا ہوں۔
“