اس وقت ہم مسلمان ہند جن مسائل سے دوچار ہیں اور جن اندیشوں اور خطرات سے گھرے ہوئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ہماری کوتاہیوں اور بداعمالیوں کا نتیجہ ہے جن کے پیچھے مہلک بیماریوں کا ہاتھ ہے، ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ( اور جو کچھ تم کو مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتی ہے، اور اللہ تعالی بہت سی کوتاہیوں کو تو معاف فرما دیتا ہے، )
اس لئے جو حالات پیش آرہے ہیں ان میں سب سے بڑا دخل ہماری کوتاہیوں، غفلتوں، بداعمالیوں اور بدکردایوں کا ہے ، بیماریاں بہت سی ہیں جن کے علاج کی ہمیں ضرورت ہے، بظاہر ان بیماریوں کی سنگینی کا ہمیں احساس نہیں اور موجودہ حالات سے ان کا تعلق ہمای سمجھ میں نہیں آتا ، لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ گناہوں کا ایک اثر ہوتا ہے ، جو ظاہر ہوکر ہی رہتا ہے اور جب کوتاہی اور غفلت شعاری کسی ایسی امت کی طرف سے ہو جسے انسانیت کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہو تو مسئلہ اور بھی سنجیدہ ہو جاتا ہے اور پھر سستی وغفلت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس طرح کے حالات پیدا کرتاہے تاکہ وہ امت دوبارہ اس طرف پلٹ کر آئے اور اپنی مجرمانہ غفلت کا تدارک کرے ، اس لئے اس حقیقت کا ادراک بہت ضروری ہے کہ امت مسلمہ کا تعلق اللہ تعالیٰ سے کمزور ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ تعلق ہی اس کا معاون و محافظ ہوتا رہا ہے، اب جب ایسے محافظ سے ہم محروم ہو جائیں تو پھر شکست و ریخت کا شکوہ کیو کر ، اس لئے ضروری ہے کہ امت اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق استوار کرے ، اور اپنے روگوں کا قرآن و سنت کی روشنی میں علاج کرے، جب تک ان بیماریوں کو دور نہ کیا جائے گا اور ان کا علاج نہ ہوگا اس وقت تک حالات کے سدھرنے کا کوئی بھی امکان نہیں، ہم نے صرف چند موٹی موٹی بیماریوں کا ذکر کیا ہے جن میں ہماری اکثریت مبتلا ہے اور جن کا موجودہ حالات کے پیدا ہونے میں بہت بڑا کردار ا، یہ وہ روحانی بیماریاں ہیں جن کو دور کرنے کی شدید ضرورت ہے ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں دیگر چیزوں پر توجہ نہیں دینی ہے وہ چیزیں بھی ضروری ہیں اور یہ بھی دونوں میں توازن ہوگا تبھی ہماری کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہونگی،
مادیت پرستی۔
آج ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہر شخص دنیا کی دولت کے پیچھے پڑا ہوا ہے، ہر ایک کی نگاہ میں نقد منافع کی اہمیت ہے ، جن اعمال کی بنیاد پر کل اجر ملیگا انہیں بالکل بے حیثیت سمجھ لیا ہے ، نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے میں لگا ہوا ہے وہ اپنی موجودہ پوزیشن پر قانع نہیں ہے ، بلکہ جو کچھ اللہ نے اسے دے رکھا ہے وہ اسے گویا کمتر سمجھتا ہے اور ہمہ وقت اس میں اضافہ کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے ، دولت کمانا یا اس میں اضافہ کی کوشش کرنا کوئی معیوب بات نہیں لیکن اس کے کچھ حدود ہیں انہی حدود میں رہ کر انسان حضرت عبد الرحمن بن عوف جیسا غنی اور مالدار بھی بن سکتا ہے،مگر افسوس یہ ہے کہ اس مادی نقطۂ نظر نے تمام حدود کو پھلانگنا سکھا دیا ہے اب ہر شخص اس فکر میں ہے کہ وہ دوسرے سے زیادہ مالدار ہو جائے، ایک ریس ہے جسمیں سب بھاگے جارہے ہیں ، نہ حلال و حرام کی فکر ہے اور نہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال ۔ یہی وہ مرض ہے جسنے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان حد فاصل کو ختم کردیا ہے، مسلمانوں کا یہ امتیاز تھا کہ وہ آخرت کے لئے جیتے تھے اور آخرت کیلئے ہی سب کام کرتے تھے مگر انہوں نے اپنے اس امتیاز کو ختم کرکے خود اسی رنگ میں رنگ لیا ہے جو غیر مسلموں کا رنگ ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" اے مسلمانو تمہیں آخرت کیلئے پیدا کیا گیا ہے"
مادیت پرستی کا اندازہ آپ علیہ السلام کو پہلے ہی سے تھا اسی لئے آپ نے صاف لفظوں میں فرمایا تھا کہ، ۔ ( مجھے یہ اندیشہ نہیں کہ تم فقر و فاقہ سے
مارے جاؤ گے لیکن مجھے یہ ڈر ضرور ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کردی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کی گئی تھی پھر تم بھی اس کے جال میں پھنس کر اسی طرح ہلاک ہوگے جیسے اس نے تم سے اگلوں کو ہلاک کیا تھا)
ضرورت ہے کہ ہم اس بیماری سے باہر آئیں اور وقتی نفع سے اوپر اٹھ کر دائمی اور اخروی فائدہ پر نظر رکھیں،
آخرت کی فراموشی اور بے احتسابی۔
مادیت پرستی کا ہی نتیجہ آخرت فراموشی ہے،۔ آج ہم میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ کئی کئی ہفتے گزر جاتے ہیں اور ہمیں ایک بار بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ایک دن ہمیں خدا کے حضور پہنچنا ہے، قبر کے مراحل سے گزرنا ہے اور آخرت کے سخت ترین دن سے نمٹنا ہے، حدیث شریف میں ہے، ( قیامت کے دن کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے ہل نہ سکے گا جب تک اس سے ان چار باتوں کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے اور وہ آن کا صحیح صحیح جواب نہ دے دے : عمر کے بارے میں پوچھا جائے کہ کہاں کھپائ ، جوانی کہاں بسر کی، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور جتنا علم تھا اس پر کہاں تک عمل کیا، )
یوں تو ضروری ہے کہ ہمہ وقت آخرت کا استحضار رہے، لیکن اگر یہ نہ ہو سکے تو کم از کم اتنا تو لازمی ہے کہ ہم ہر روز کسی خاص وقت ۔ بالخصوص رات کو بستر پر لیٹتے وقت ۔ خدا تعالیٰ کے دربار میں جواب دہی کے بارے میں سوچیں اور ذرا تصور کریں کہ اگر وہ ہم سے حساب لینے لگا تو ہمارا کیا بنے گا ۔ روزانہ کے اپنے اعمال کا جائزہ لیں کہ ۔ کتنے اچھے عمل کئے اور کتنے گناہ کئے اور سونے سے پہلے استغفار ضرور کریں،
ذاتی مفاد۔
ایک بڑی بیماری ہماری یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنے تمام اعمال و افعال اور حرکات و سکنات کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ اس سے ہمارا کیا نقصان ہے یا ہمارا کیا فائدہ ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہم اپنے ہر عمل کو اس حیثیت سے دیکھیں کہ اس سے امت کا کیا نفع اور کیا ضرر ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرد سے زیادہ امت بنایا ہے، ( کنتم خیر امۃ) ( وکذالک جعلنا کم امہ) پتہ چلا کہ ہماری دو حیثیتیں ہیں ، ایک انفرادی اور ایک اجتماعی، لہذا کوئی بھی ایسا عمل نہ کریں جسمیں ہمارا ذاتی فائدہ تو ہو لیکن امت کا نقصان ہو ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہوتا جسکا اثر صرف اس کی ذات تک محدود رہے، بلکہ اس کا اثر دوسروں تک ضرور پہنچتا ہے اور دوسرے لوگ لازماً اس سے متاثر ہوتے ہیں، اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک انسان اگر نماز نہیں پڑھتا تو وہ خود تو یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کا ذاتی فعل ہے، نماز پڑھے یا نہ پڑھے، لیکن آگر غور کیا جائے تو اس کا اثر اس کے بیوی بچوں اور دیگر افراد پر بھی پڑتا ہے ، جب وہ نماز نہیں پڑھیگا تو دیکھا دیکھی اس کے بچے بھی نماز میں سستی کرنے لگیں گے،
جب ایک ایسے عمل کا یہ حال ہے ، جو ایک حد تک ذاتی حیثیت رکھتا ہے تو ان اعمال کے بارے میں کیا کیا جائے جو سراسر اجتماعی امور سے متعلق ہوتے ہیں، اس لئے اپنے ذاتی مفاد سے بالا ہو کر ہمیشہ امت کا مفاد ملحوظ رکھیں، ہماری حیثیت انفرادی سے زیادہ اجتماعی ہے، ہم ایک زنجیر کی کڑیاں اور ہار کی لڑیاں ہیں اس لئے اگر کسی عمل سے اس لڑی کے بکھرنے یا زنجیر کے ٹوٹنے کا خطرہ ہو تو۔ ہم کوشش کریں کہ ایسا نہ ہونے پائے،
بے حیائ اور بے کاری،
اس وقت مسلمانوں میں بالخصوص نوجوانوں میں دیگر قوموں کی طرح بے حیائ اور اباحیت پرستی کا رجحان زوروں پر ہے، شرم و حیا اور عفت و پاکدامنی کے الفاظ سے معاشرے خالی ہوتے جارہے ہیں ، قرآن مجید میں بے شرمی اور بے حیائ پھیلانے والوں کو ( لھم عذاب الیم فی الدنیا و الآخرۃ) سے ڈرایا گیا ہے، اس بے حیائ کا ایک سنگین نتیجہ یہ ہے کہ امت کا ایک بڑا حصہ بے کاری میں مشغول ہے ، ان کاموں میں گھنٹوں گزاردئے جاتے ہیں جن میں نہ دین کا کوئی نفع ہوتا ہے اور نہ دنیا کا، بے حیائ کے کاموں میں ایک دوسرے سے ریس ہوتی ہے اور جو جتنا زیادہ بے حیا ہوتاہے وہ خود کو اتنا ہی معزز سمجھتا ہے،
ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بے حیائ پر عذاب کی دھمکی دی ہے اور جس معاشرہ کا یہ حال ہو جائے کہ اس کے اکثر افراد ایسے ہی نازیبا کاموں میں زندگی بسر کررہی ہے تو اس پر اس طرح کے حالات نہیں آئیں گے تو کیا آسمان سے۔ من و سلویٰ کا نزول ہوگا،
ضرورت ہے کہ معاشرہ سے اباحت پسندی کے جذبہ کو دور کیا جائے اور عفت و پاکدامنی کے اصولوں پر اسے استوار کیا جائے، اس لیۓ بچوں پر بالکل بچپن سے توجہ دینے کی ضرورت ہے ، اور اس میں سب سے بڑا کردار والدین کا ہو سکتا،
یہ تو ( مشتے نمونہ از خروارے) کے طور پر ہے ، ورنہ وہ کونسی بیماری ہے جسمیں ہم گرفتار نہ ہوں ، کونسا فرض ہے جس کی بے حرمتی نہ کی جاتی ہو، اور کونسا کام ہے جس کو دھڑلے سے نہ کیا جاتا ہو، پورا معاشرہ گناہوں کی دلدل میں گردن تک دھنسا ہوا ہے، اس لئے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم اس کا ادراک کریں یہ حالات ہمارے ان ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہے اور جب تک ہم ان سے چھٹکارا نہیں پائیں گے اور دوبارہ سے اللہ تعالیٰ کے دربار میں سعادت مندی اور نیاز مندی کا اظہار نہیں کریں گے ہمارا ہر خواب ادھورا اور ناقص ہے،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...