پودے کھانا نہیں کھاتے بلکہ اپنی غذا خود بناتے ہیں۔ گائے صرف گھانس کھا کرزندہ رہ سکتی ہے۔ کتے صرف گوشت یا ڈاگ فوڈ کھا کر زندہ رہ سکتے ہیں۔ زیادہ تر جانوروں کی غذا محدود ہوتی ہے انکو چند گنے چنے اجزاء ہی ضرورت ہوتی ہے جس سے وہ زندہ رہنے کے قابل رہ سکیں۔ جانوروں میں کچھ غذائی ضروریات انکا جسم ہی پورا کردیتا ہے، باقی کے لیے وہ باقی اپنی غذائی ضروریات اپنے بیرونی زرائع سے حاصل کرتے ہیں۔ لیکن انسان کے ساتھ ایسا نہیں، انکو ایک متون اور بدلی ہوئی اقسام والی غذا چاہئے جو انکے جسم میں مختلف مائیکرو غذائیت اور وٹامنز کی کمیوں کو دور کرے۔ انسان جسم میں وٹامن سی بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے ،لیکن وہ نہیں بنا پاتا،حالانکہ اسکے پاس تمام ضروری جینز موجود ہوتی ہیں، لیکن ان میں سے ایک جینز ٹوٹی ہوئی ہوتی ہے،جسکی وجہ سے انسان جسم خودبخود وٹامن سی نہیں بناپاتا۔ ہمارے پرائیمیٹ آباؤ اجداد کے کسی دور میں، ایک جینز جسکا نام گلو GLUO جینز تھا، ایک بہت ہی بےترتیب اور بے تکی میوٹیشن کا شکار ہوا۔ اس جینز کہ خراب فعل کے سبب، انسان اپنے جسم میں وٹامن سی بنانے سے قاصر رہ گئے۔ لیکن یہ ہمارے بقاء پر اثر اندازنہیں ہوا، کیونکہ یہ صرف ایک خطہ زمین ہوا جہاں ایسے سٹرس پھلوں کی بہتات تھی جس میں یہ وافر مقدار میں دستیاب تھا، اور ہمارے پرائیمٹ اجداد، وٹامن سی کو پھل کھاکر مصنوعی طریقے سے جسم میں حاصل کرنے لگے۔ لیکن ارتقاء کی بدولت یہ میوٹیشن لیکن وراثتا منتقل ہوتی چلی گئی اور دنیا بھر میں پھیل گئی اور انسانی نسل میں وٹامن سی کی کمی کا سبب بننے لگی جہاں سٹرس پھل جیسے کینو، سنگترے اور مالٹے کی فصل نہیں اگا کرتی تھی۔ اگر ارتقاء کا یہ عمل نہ ہوا ہوتا توانسانی جسم کی تشکیل ایسے نہ ہوئی ہوتی، تو وہ یقینا اس کمی کی تلافی انسانی جسم میں پورا کرتا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا۔ جوکہ انسانی جسم میں ارتقائی عمل کے ہونے کا ایک اور ثبوت ہے۔
ایک لمبی لسٹ ہمیں درکار ہوتی ہے جن وٹامنز، معدنیات اور چند ٹریس میٹلز (وہ دھاتیں جنکی معمولی سی مقدار ایک پودے اور جانور کو اپنی غذا یا جسمانی افعال درست کرنے کےلئے درکار ہوتی ہیں جیسے لیتھیم، کاپر، زنک، آئرن، کوبالٹ اور وینیڈیم وغیرہ) پر مشتمل ہوتی ہے۔ دوسرے جانداروں کو تو اس لسٹ میں موجود چیزوں کی کم سے کم ضرورت پڑتی ہے، لیکن ایک انسان کے لئے ان میں کافی چیزیں ہر وقت اپنی غذا میں چاہئے ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنی غذا کو ایک متوازن غذا میں بدل سکے، ورنہ ان میں سے بہت سے اجزاء کی کمی، انسان کو بعض جسمانی عارضوں میں مبتلا کردیتی ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ جیسے جیسے انسان کے اندر ٹیکنالوجی اور صنعت کے استعمال کا شعور بڑھتا چلا گیا،اس نے اپنی خوراک میں سے چند ضروری اجزاء بے کار سمجھ کر ختم کرنا شروع کریئے،جس کا اسکی صحت پر منفی اثر پڑا۔ مثلا گندم کی بنی ہوئی اشیاء سے فائبرز (ریشے) کا استعمال کم سے کم کردیا اور چھنے ہوئے آٹے کا ستعمال شروع کردیا،جس سے آنتوں اور نظام انہظام سے متعلق مسائل نے جنم لیا یا چاولوں کو پالش کرکے انکو سفید کرنے کا عمل جس سے انکے چھلکے پر لگے وٹامن بی کو الگ کردیا جاتا ہے (وٹامن بی کی کمی سے انسان میں بیری بیری Beriberi کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے)۔ انسانی خوراک سے آئرن کی کمی اب ایک عام مسئلہ بن چکی ہے۔ حاملہ خواتین کی 50٪ تعداد اور اسکول جانے والے بچوں کی 40٪ تعداد میں اینیما Anemic کا مرض لاحق ہوتا ہے جو کہ خون میں آئرن کی کمی سے ہوجاتا ہے،اسی طرح لاکھوں مریض آئرن کی کمی کے مرض کی وجہ سےاپنی جان سے سالانہ ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
جنگلی جانور کبھی موٹے نہیں ہوتے، وہ قریبا فاقہ کشی کے دھانے پر ہی ہوتے ہیں۔ انسان اسکے برعکس چند ترقی یافتہ خطوںمیں غذا کی بھرپور رسائی اور پہنچ والے علاقوں میں موجود ہے اور وہاں موٹاپا عام امراض میں شامل ہے۔ موٹاپا صرف افراط سے کھانے سے ہی ہوتا ہے، یہ موٹا ہونے کا عمل ارتقاء ہی کی بدولت ہوتا ہے۔ اگر انکا ارتقاء نہیں ہوپاتا اور انکو بغیر کسی ارتقاء کے پراسس سے گزرنا پرتا کہ خوراک کی وافر مقدار لینے کے باوجود انسانی یا جانور کا جسم موٹا نہیں ہوپاتا اور اس وافر غذا کو جاندار اپنے کام میں فوری لاکر اسکو استعمال کرکے اس سے چھٹکارا پالیتا نہ کہ چربی کی صورت میں اسکے جسم کے مختلف اعضاء کے ارد گرد وہ جمع ہوتی رہتی۔ یہ جانوروں میں چربی جمع ہونا دراصل دور کے انسانی ارتقاء کی یادگار ہے جب قبل از تاریخ کے زمانے میں انسانوں کو غذا کی کمی یا نہ ہونے (قحط سالی) کا خطرہ لاحق ہوتا تھا، تو وہ زیادہ خوراک لے کر چربی کے زریعے اپنے جسم میں زخیرہ کرلیا کرتے تھے اور اسطرح خوارک کی کمی انکی پوری ہوجایا کرتی تھی۔ موٹاپا اور زیابیطس ٹائپ ٹو ارتقاء کی منتخب کردہ غیرمتوازن بیماریاں ہیں،جو انسان کی ارتقائی تاریخ کے ادوار میں اسکے مختلف خطوں میں رہائش پذیر رہنے کے سبب وجود میں آئی ہیں۔