2005میں ترکی کے مشرقی صوبہ ”وان“ کے پہاڑی علاقے ”گیواز“ میں گلہ بان اپنی بھیڑوں کے گلے کو آزاد چھوڑ کر ناشتہ کررہے تھے کہ انہیں اچانک بھیڑوں کے زور زور سے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ چرواہے جیسے ہی آواز کی سمت گئے تو انہوں نے حیرت انگیز منظر دیکھا کہ بھیڑیں ایک ایک کرکے اونچی پہاڑی کے کونے سے نیچے کود رہی ہیں اور یہ کام بغیر کسی دھکم پیل کے ہورہا تھا۔ لگ بھگ 1500 بھیڑوں نے آنا ًفاناً یہ کام سرانجام دیا، جن میں سے سب سے پہلے کودنے والی تقریباً 450بھیڑیں مرگئیں، جبکہ باقی بھیڑیں مرنے والی بھیڑوں پر کودنے کے باعث صرف زخمی ہوئیں۔ماہرین ابھی تک بھیڑوں کی اس اجتماعی خودکشی کی گتھی سلجھانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔بحثیت قوم ہم بھی اکثر معاملات میں ایسی ہی بھیڑ چال چلنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ہمارے تعلیمی فیصلے بھی بھیڑ چال کی طرح ہوتے۔ جس شعبے کی تعلیم خاندان کے زیادہ تر افراد نے حاصل کی ہوتی عمومی طور پر وہ اپنے بچوں کو بھی اسی شعبے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے گھرانوں والے محلے یا علاقے میں موجود بھیڑ چال کی پیروی کرتے اور بعد میں پتہ چلتا جو تعلیم انہوں نے حاصل کی وہ ان کا معاشی بوجھ برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتی۔ پاکستانی طلبہ پر کی جانی والی تحقیق کے مطابق زیادہ تر طلبہ بھیڑ چال کی بنیاد پر کسی پروگرام میں داخلہ لے لیتے۔طلبہ اپنے دوستوں یا رشتہ داروں کے منتخب کردہ پروگرمات میں ہی داخلہ لیتے۔بھیڑ چال کی وجہ سے چند پروگرامات میں داخلوں کا سیلاب امڈ آتا ہے اور یوں لگتا ہے اس پروگرام کے علاوہ باقی تمام پروگرامات بے کار ہیں۔
اگر ماضی قریب کی مثال لیں میڈیکل، انجیئرنگ، کمپیوٹر اور کامرس کے پروگرامات میں طلبہ سیلاب کے ریلے کی طرح آئے اور اب بے روزگار پھر رہے۔ ہم ملازمت کے معاملے میں بھی یہی بھیڑ چال چلتے۔ سرکاری نوکری کے خمار نے ہمیں مدہوش کر دیا ہے۔ ہماری پہلی کوشش ہوتی کہ سفارش یا رشوت سے سرکاری نوکری مل جائے۔ سرکاری نوکری کی بھیڑ چال نے ہمیں فنی تعلیم سے دور رکھا ہوا ہے۔ ہم تعلیم سے مراد ہنر کے بجائے یونیورسٹیوں سے ملنے والی ڈگریاں لیتے۔بھیڑ چال کو دیکھتے ہوئے جتنے طلبہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے لیتے اگر یہ فنی تعلیم یا ہنر سیکھ لیں تو بے روزگاری ا نتہائی کم ہو جائیں۔ ترقی یافتہ ممالک مثلا امریکہ، چین، جاباپان وغیرہ میں سرکاری ملازمت سے کہیں زیادہ شرح ہنر مند اور کاروباری افراد کی ہے۔ اعلی تعلیم میں بھی ہماری یونیورسٹیاں بھیڑ چال پر کاربند ہیں۔ کسی ایک پروگرام کا پاکستان کی سبھی یونیورسٹیوں کا نصاب اٹھا کر موازنہ کر لیں تو سوائے دو تین مضامین کے سارا نصاب ایک جیسا ہے۔یہی حال ہمارے امتحانی نظام کا بھی ہے۔ سارے بورڈز کا پیپر پیڑن دیکھ لیں معمولی فرق کے علاوہ سب بھیڑ چال ہے۔ ہمارا تدریسی نظام بھی بھیڑ چال کی طرح چلتا۔ جس نے جیسے پڑھا ہوا ویسے ہی پڑھائے گا تا کہ بھیڑ چال کی عادت ختم نہ ہو جائے۔ سیاست میں بھی ہم بھیڑ چال کے قائل ہیں۔ جس پارٹی کی ہوا چلی سب اپنے ووٹوں کی پتنگیں بنا کر اس سمت دوڑ پڑتے اور کچھ عرصے بعد رونا رونا شروع کر دیتے۔ سیاسی بھیڑ چال کی سب سے بڑی مثال گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے الیکشن میں ملتی۔ وفاق میں جس کی حکومت ہوتی جی بی اور آزاد کشمیر کی عوام دہائیوں سے بھیڑ چال کی طرح اسی پارٹی کو ووٹ دیتی آئی ہے۔
ہم اتنا بھی نہیں سوچتے کے آزادکشمیر الیکشن کے کتنے عرصے بعد پاکستان کے الیکشن ہونے اور اگر وفاق میں موجود پارٹی دوبارہ حکومت نہ بنا پائی تو ہمارا کیا بنے گا کالیا؟مذہبی معاملات میں بھی ہم بھیڑ چال چلتے اور جنونیت اور اندھی تقلید میں ملک قوم کاناقابل تلافی نقصان کر دیتے۔بھیڑ چال چلنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے امریکہ، برطانیہ، انڈیا، فرانس اور اسرائیل کاغصہ آپ سرکاری و عوامی املاک پر نہ نکالیں۔ مگرہم اندھی تقلید اور جنونیت میں سب کچھ بھول جاتے۔ ہم نئے شعبوں کی طرف جانے کے لیے نہ تو تیار ہوتے ہیں او ر نہ ہی کسی کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے ملک عظیم میں ویسے بھی تجزیہ کار،تبصرہ نگار، مشیر اور طبیب تھوک کے حساب سے موجود ہیں۔ دینی واعظوں میں بھیڑ چال کے نتیجے میں لوگ جمعہ کے خطبے سے چند منٹ پہلے مسجد جاتے اورسلام پھیرنے کے بعد ایسے بھاگتے جیسے قید سے آزاد ہوئے ہوں۔ سالہا سال سے وہی پرانی تقریریں، وہی باتیں نہ تحقیق نہ جدید اسلوب، نہ سائنسی بنیادوں پر تشریح، نہ جدید تقاضے کے مطابق امثال۔ ہم کپڑوں کی خریداری میں بھی بھیڑ چال چلتے جسے ہم فیشن کا نام دے دیتے۔ سوشل میڈیا پر بھی ہم بھیڑ چال چلتے اور اسے ہم ٹرینڈ کا نام دے دیتے۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا ہم جس بھیڑ چال میں شامل ہو رہے ہیں یا ہمیں شامل کیا جا رہا ہے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ اس کی تحقیق اور ثبوت کے بنا ء ہی جدھر گئی ایک بھیڑ سب بھیڑیں اس کے پیچھے۔ ہم کھانے پینے، پیری مریدی اور طبعی علاج معالجے میں بھی بھیڑ چال کے قائل ہیں۔ہم ڈراموں، فلموں اور ٹی وی پروگرامات کے انتخاب میں بھی بھیڑ چال پر کاربند رہتے۔ ارتغرل کی تازہ ترین مثال آپ کے سامنے ہے تقریبا ساری قوم ہی ارتغرل دیکھنے لگ گئی۔حتی کے دور دراز دیہاتوں میں جہاں پورے گاوں میں ایک ڈش ٹی وی ہے وہاں پورا گاوں جمع ہو کر ارتغرل دیکھتے۔ ہم نے یہ نہیں سوچا ساری قوم ارتغرل کے پیچھے کیوں پڑی ہوئی؟ جی ہاں اس کا جواب بھی بھیڑ چال ہے۔ ہمارے سارے ڈرامے بھیڑ چال دیکھ کر بنائے جاتے ان میں کوئی نئی جہت متعارف نہیں کروائی جاتی۔ یہی حال ہمارے ٹی پروگرامات اور شوز کا ہے جو پروگرام یا شو کسی ایک چینل پر کامیاب ہو جاتا سبھی اس کی نقل بنانا شروع کر دیتے۔ ہم اپنے روز مرہ معاملات میں بھی بھیڑ چال پر کاربند ہیں۔
اگر کسی کوئی بڑا عہدہ مل جائے تو وہ بھیڑ چال کی وجہ سے اپنے سے نیچے شخص کو اپنا غلام سمجھنے لگ جاتا۔ یہ بھیڑ چال اب ہمارے گلے کی زنجیر بن چکی ہے اور ہم اس کے بغیر رہ نہیں پاتے۔ بھیڑ چال کو ہم صرف اپنے آپ تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ اگلی نسل تک منتقل کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اس بھیڑ چال کی وجہ سے آدھی نسل ٹک ٹاک پر مصروف ہے، باقی انسٹا گرام، واٹسپ، یوٹیوب، فیسبک وغیرہ سے چپکی ہوی ہے۔ بھیڑ چال کی وجہ سے ہم پر سرمایہ دار، جاگیر دار اورموروثی سیاستدان مسلط ہیں کیونکہ ہم سیاست پر ان وڈیروں، لٹیروں اور بدعنوانوں کی جگہ پڑھے لکھے متوسط طبقے کے نوجوانوں کو لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ساری قوم بھیڑ چال کی وجہ سے آج تک تین یا چار سیاسی جماعتوں کے گرد چکر لگا لگا کر چکرا گئی ہے مگر قوم آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں آج سے دہائیاں پہلے کھڑی تھی۔ بھیڑ چال سے الگ ہونے والے کو ہم بیوقوف اور پاگل قرار دیتے ہیں۔ بھیڑ چال سے کوئی نئی جہت لانا ممکن نہیں ہے۔ لہروں کے ساتھ زندہ لاشیں بہتی ہیں، کچھ کر دکھانے والے لہروں کی مخالف سمت تیرنے کی ہمت اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ جب تک ہم بھیڑ چال کو ترک کرتے ہوئے نئی جہتوں کی طرف قدم نہیں بڑھائیں گے تب تک ہم مصائب کے اس بھنور سے نہیں نکل سکتے۔
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...