اخلاقی انا پرستی جس کو انگلش میں ethical egoismکہا جاتا ہے سے مراد ہے کہ انسان ہر کام اپنی اس ایگو کے تحت کرتا ہے ، جس میں اس کا زاتی فائدہ شامل ہوتا ہے ،اپنی بھلائی،بہتری اور زاتی فائدے کے لئے سوچتا اور عمل کرتا ہے کو ئی بھی کام یا فریضہ ذاتی انا کے بغیر سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔انسان کی یہ انا سماجی ماحول،اعتقادات،مفادات اور عقائد کے تابع بھی ہوتی ہے،مگر انسان جس بھی ماحول میں ہو وہ اپنی ذاتی ایگو کے تحت ہی عمل کرتا ہے،اسکی انا اسکے جذبات اور عقل کے تابع بھی ہوتی ہے،انسانی جذبات اور ذہنی میلانات کی تمامتر شکلیں اس میں بدرجہ اتم کارفرما ہوتی ہیں۔ایتھیکل ایگو کو دوسری تمام دیگرایگو یعنی عقلی انا۔نفسیاتی انا،اقداری انا پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ ایتھیکل انا کو منطقی اعتبار سے بھی بہت سے تحفظات حاصل ہوتے ہیں۔زاتی فائدے اور اپنی بقا کے لئے ہر عمل فرد کی زاتیات کے دائرے میں ہی گھومتا ہے۔فرد کا دعویٰ ہے کہ میں اپنے فائدے کے لئے ہر قدم اٹھا سکتا ہوں،اس میں فرداپنے فائدے کے لئے بعض اوقات سب کچھ کر گذرتا ہے۔اس کا ہر نیک و بد عمل زاتی اناوٗں کا اسیر ہوتا ہے۔جبکہ بہت سے اعمال مثالیت پسندوں نے ذاتی انا کے دائرے سے نکالے ہوتے ہیں ،جن کو وہ بے لوث عمل کا درجہ دیتے ہیں،ہر بے لوث عمل میں بھی ایتھیکل ایگو شامل ہوتی ہے،جب آپ کوئی کام نیکی اور بھلائی کے ارادے سے کرتے ہیں۔یا رفاہ عامہ کے لئے منصوبہ سر انجام دیتے ہیں تب بھی اس میں ذاتی ایگو شامل ہو تی ہے،فرد یہی سوچتا ہے کہ مجھے اس نیکی کے کام میں کتنا فائدہ ہے،اپنی ذات یا سیلف کو اسے آزاد نہیں کر سکتا۔اس میں اسکی بڑائی،شہرت واہ واہ کا کوئی نہ کوئی عنصر ضرور شامل ہوتا ہے۔برائی نہ کرنے میں بھی فرد کی یہی نیت ہوتی ہے کہ اسے بچنے میں مجھے کتنا فائدہ ہے۔یا کرنے میں کیا کیا نقصان ہو سکتا ہے،اور دونوں صورتوں میں میرے لئے کیا بہتر ہے۔انسان کی بقا کے لئے ایتھیکل ایگو ازم نیو کلس کا کردار ادا کرتی ہے اور کوئی بھی فرد اسے آزاد نہیں۔ہم جتنے بھی بے لوث کام کرتے ہیں اس میں اپنی ذات کے فائدے کی مختلف شکلیں پوشیدہ ہوتی ہیں،جس کو اپنی انا کی تسکین بھی کہ سکتے ہیں۔اس بنا پر انسان بنیادی طور پر خود غرض واقع ہوا ہے،وہ فطریٰ طور پر اجتماع کی بہتری کے لئے پیدا نہیں ہوا،وہ فطری طور پر اپنی بقا کے لئے پیدا ہوا ہے،اس کا اجتماع کے لئے کوئی بھی عمل مسقل نہیں ہوتا عارضی ہوتا ہے۔اس کی زاتی انا کا غلاف اسکو کبھی باہر نکلنے نہیں دیتا۔ایتھیکل ایگو ازم پیدائشی و خلقی ہے،مگر سماجی ارتقا کے ہاتھوں اس میں کچھ تبدیلیاں بھی واقع ہوئی ہیں۔اور وہ تبدیلیاں بھی زاتی انا کے حصار میں مقید ہیں۔نفسیاتی ایگو ہر فرد میں ایک جیسی ہی ہوتی ہے،نفسیاتی طور پر ہر فرد اپنی انا،تسکین،بہتری اور زاتی فائدے کے لئے ہی کام کرتا ہے،اسمیں دوسروں کی بھلائی کا عنصراختیاری یا اضافی ہوتا ہے،اس میں اسکی ذاتی مرضی شامل ہوتی ہے کہ آیا مجھے ایسا کرنا چائیے یا نہیں،ارادے کی آزادی اسکو ہر اچھے اور برے عمل پر اکساتی ہے۔،مگر اسکے با وجود اسکا روشن ستارہ اسکا اپنا زاتی مفاد ہی ہوتا ہے۔اس بنا پر پر کوئی دوسرا اسکو مورد الزام نہیں ٹھرا سکتا کہ وہ خود ضرض ہے،جبکہ دوسرے کا روشن ستارہ بھی اسکا زاتی مفاد ہوتا ہے۔نویں صدی عیسوی میں ایک عربی مفکرمحمد بن الجھم البرمکی نے اس پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈالی۔,,کوئی بھی دوسرا شخص کسی کا ممنون احسان نہیں کہ اس نے اس کیساتھ بھلائی یا نیکی کی ہے کیونکہ یہ کام اس نے خدا کی خوشنودی کے لئے کیا ہے یا یہ خدا سے کوئی صلہ لینا چاہتا ہے۔یا لوگوں سے اس کا وہ صلہ لینا چاہتا ہے۔اس نے یہ سب کچھ اپنے زاتی فائدے کے لئے کیا ہے۔یا لوگوں کی زبان سے اپنی تعریف سننا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ اس نے اپنی انا کی تسکین،زات کی بہتری اور اپنے کو خوش رکھنے کے لئے کیا ہے۔،، چاہے ہم کوئی اچھے سے اچھے کام کو سر انجام دیں،جود و سخا کا مظاہرہ کریں،یا انسانیت کی بھلائی کے لئے بڑا کام کریں،اس میں اپنی اناکی تسکین کا پہلو ضرور شامل ہوتا ہے،ہم بے لوث کوئی کام سر انجام دے ہی نہیں سکتے۔غالب نے کیا خوب کہا تھا۔طاعت میں تا رہے نہ مے وانگبین کی لاگ۔دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو۔اقبال بھی انسان کی خود غرضی کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے۔سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے۔اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے۔
اخلاقی انا پرستی کو خود غرضی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ،جس کا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں،مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو فرد اپنی زات کی بہتری کے لئے سوچ نہیں سکتا وہ دوسروں کی بھلائی کے لئے کوئی قدم اٹھا نہیں سکتا۔ وہی لوگ دوسروں کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں جو اپنی ذات کے لئے پہلے سوچتے ہیں،مگر ان عوامل میں انکی قوت ارادی اور نیت کا عمل دخل گہرا ہوتا ہے۔ایک بظاہر نیکی وخیر کا کام کرنے والا دیگر معاملات میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کا یہ عمل اسکی دیگر سرگرمیوں سے مطابقت رکھتا ہے یا یہ محض ڈھونگ رچانے کے لئے انگلی کاٹ کر شہیدوں میں داخل ہونا چاہتا ہے،یعنی فرد کے بے لوث عمل میں اسکی شخصیت میں حسن تناسب کا ہونا بھی ضروری ہے۔ انسان اجتماعی جبلتوں کے زیر اثر بھی حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے،کیونکہ انسان کو خوف لاحق ہوتا ہے کہ ایسا نہ کرنے سے وہ اپنی کمیونٹی یا برادری سے کٹ جائے گا،اس کا نیک عمل اپنی بقا کے لئے ہی ہوتا ہے۔اخلاقی انا پرستی سرمایہ دارانہ نظام کا نفسیاتی عارضہ بھی ہے،کیونکہ طبقاتی تفریق اورغیر مستحکم معاشی نظام عام فرد کو اخلاق و نیکی کرنے پر مجبور کرتا ہے ورنہ وہ کسی بھی ممکنہ صورت میں کمیونٹی کے عتاب کا نشانہ بن سکتا ہے،،اس میں ایک خوف کا پہلو ہر وقت غالب رہتا ہے۔اگر انسان خوف اور سزا و جزا کے تصور سے آزاد ہوجائے ،نمود ونمائش کے پہلووں سے سبکدوش ہوجائے یا ان باتوں کا سرے سے امکان نہ رہے تو وہ دوسروں کے لئے بھلائی کرنا بھی چھوڑ دے،ترقی یافتہ معاشروں میں اخلاقی اناوں کے زیر اثر شہری کام نہیں کرتے جتنا پسماندہ معاشروں میں کرتے ہیں۔جہاں تمامتر وسائل حکومتی ملکیت میں ہوں وہاں ایتھیکل انائیں خود بخود ختم ہوجاتی ہیں۔کیونکہ نہ وہاں کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ ہی اسطرح کی نیکی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسے معاشروں میں شہری کا ہر عمل بے لوث ہوتا ہے۔اخلاقی اقدار اور نیکی کے تصور کا گہرا تعلق سیاسی معاشیات سے ہوتا ہے۔فرد جس منزل معاشرہ میں ہوگا اسکا اخلاق اسی حساب سے تعین ہوگا۔اخلاقی انا پرستی کے مظاہر بھی ایسے ہی ہونگے،خیر و شر کے پیمانے بھی ویسے ہی ہونگے۔سماجی انصاف اخلاقی انا پرستی پرستی کو کمزور کر دیتا ہے،جس میں عام وخاص کو تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ہماری اخلاقی انائیں،نفسیاتی انائیںاور نفسیاتی اناوٗں کا تعین مادی قدریں ہی طے کرتی ہیں اور سماجی انصاف اور سیاسی معاشیات ان میں معقولیت ،استدلال و استقرار پیدا کرتی ہیں۔اس سب کے با وجود ہمارا روشن ستارہ ہمارا زاتی مفاد ہی ہوتا ہے۔
تاریخی و سماجی تجربات سے یہ بات اظہر من الشمس ہوئی ہے۔کہ انسان بنیادی طور پر خود غرض واقع ہوا ہے،رچرڈ ڈاکنز کہتا ہے۔,, we are born selfishٍ گورڈن ٹلا ک نے اپنی تحقیق میں مختلف سروے کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ پچانوے فیصد انسان خود غرض ہوتا ہے اور پانچ فیصد تک دوسروں کے لئے قہربانی دے سکتا ہے۔ایک امریکی سروے میں بتا یا گیا ہے کہ تیس فیصد لوگوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔،مگر آئے روز ہم دیکھتے ہیں کہ انسان جتنا خود غرض ہے اتنا ہی بعض اوقات وہ فیاضی کے مظاہرے بھی کرتا ہوا نظر آئے گا۔ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا۔قرض دینا،ہاتھ بٹانا۔مشکلات میں مدد کرنا،دوسروں کا درد محسوس کرنا۔قدرتی آفات میں بڑھ چڑھ کر متاثرین کی مدد کرنے کا جزبہ اس کی فطرت میں نظر آتا ہے۔ بعض اشخاص اپنی ساری جمع پونجی انسانیت کی خدمت پر بھی صرف کر دیتے ہیں۔اسلئے انسان صرف ایک خود غرض جرثومہ نہیں ہے بلکہ تعاون اور مدد کرنے والا ایک اچھا انسان بھی ہے۔ٍباہمی تعاون کی یہ شکلیں چیونٹیوں اور دیگر جانداروں میں بھی پائی جاتی ہیں۔انسان ایک طرف اپنی زات کی بقا کے لئے جدوجھد کرتا ہے تو دوسری طرف اجتماع کے لئے بھی اپنے اندر نرم گوشہ رکھتا ہے،اجتماعی خدمت انسان کا سب سے بڑا آدرش بھی ہے۔فطرت اخلاق کی پابند نہیں جبکہ اخلاق عقل وضمیر کی آواز کا پابند ہے،جو مختلف تاریخی و ارتقائی مراحل سے گذر کر اپنے موجودہ مقام پر پہنچا ہے،اور مسلسل تبدیلی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔بیکن اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے,,تمام چیزوں دوطرح کی نیکی کے رجحانات موجود ہیں۔ایک اپنی زات کو قائم رکھنے کا رجحان،اور دوسرے اپنی زات کو ایک وسیع کل میں مربوط کرنے کا رجحان،اور یہ رجحان پہلے رجحان سے زیادہ قابل احترام وقوی ہے۔،کیونکہ اس کا مقصد ایک وسیع کل کی بقا ہے۔،اس کا مطلب ہے کہ بد اخلاقی کی طرح اخلاق بھی انسانی فطرت کا ایک جزو ہے۔ہمارے اندر خودی اور اجتماع دونوں کو قائم رکھنے کی جبلتیں موجود ہیں۔اجتماعی جبلتیں خودی کی جبلتوں سے زیادہ قوی ہیں،،اجتماعی شعور اور اجتماعی تنظیم وتعاون کا جذبہ روز آفرینش سے انسان کے اندر موجود ہے،اور اس پر یہ کاربند چلا آرہا ہے،احساس مروت،قہربانی،دوسروں کی خدمت اور وفا شعاری اسکی سرشت میں ہے،ہر انسان کم وبیش اس کا مظاہرہ کرتا ہی رہتا ہے،اور بے لوث خدمت کے مظاہر بھی دیکھنے میں آتے ہیں،جہاں خود غرضی،نمود ونمائش کی آلائشوں سے پاک ہوتا ہے،بقول شاعر خنجر چلے ہے کسی کے سینے پے تڑپتے ہیں ہم امیر۔سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔اقبال نے فرد کی خودی کی بہترین شکل اجتماع میں ضم ہونے میں بتائی ہے۔کہ فرد کی خودی اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنے آپ کو اجتماع کے سپرد نہ کردے۔فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں۔موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔
ایک دوسرے مکتبہٗ فکر کے نزدیک اخلاق اور اخلاقی انا پرستی صرف وصرف سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے،جو استحصالی معاشرے اور نظام نے انسانی زہنوں پر مسلط کر رکھی ہے،عوام ایک دوسرے سے تعاون کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ایک دوسرے کی مدد کرنا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں۔یہ ایک ناکام اور استحصالی معاشرے کے برگ وبار ہیں،جہاں بے بس،بھوکے اور مانگنے والا طبقہ موجود ہے،اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے چوری اور جسم فروشی کرتا ہے۔دوسروں کو منافع کی شکل میں لوٹنا اور سخاوت وتعاون کی تبلیغ میں موجود ہے،بنیادی طور پر یہ ایک سرکاری اخلاق ہے۔جو استحصالی مقتددر طبقات و اداروں کا پھیلایا ہوا سیاسی اخلاق ہے،جہاں انسان اپنی ضرورت کے لئے دوسرے کے سامنے اپنی عزت نفس مجروح کرتا ہے۔کیونکہ حکمران طبقہ ملک کے تمام وسائل پر قابض ہوتا ہے،اور اسی کی وجہ سے نچلے طبقات میں محرومیاں،مجبوریاں اور غربت جنم لیتی ہے۔اور بالائی طبقات کو قائم رکھنے کے لئے چئیرٹی سنٹرز قائم کیے جاتے ہیں،تاکہ حکمران طبقے کے اللوں تللوں پر کوئی انگلی نہ اٹھائے۔ایک منصفانہ اور عادلانہ نظام میں اسطرح کے اخلاقی فلسفوں کی ضرورت نہیں رہتی،کیونکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے غربت خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔اسلئے اخلاق کا اعلیٰ درجہ بہترین نظام حکومت کا قیام ہے،جہاں نہ کوئی منگتا ہو،نہ بے گھر ہو اور نہ کوئی اپنی عزت نفس کا سودا کرنے والا۔فرانسیسی مصنف انا طول فرانس اس حوالے سے کہتا ہے۔,,قانون کا انسانی مساوات کا سنہرا اصول جو امیر اور غریب کو پلوں کے نیچے سونے سے،گلیوں سے بھیک مانگنے سے اور روٹی چرانے سے منع کرتا ہے۔،،سرکاری اخلاقیات جس کو عام شہری قانون سمجھ کر قبول کر لیتا ہے کے بارے میں ٹراسٹکی کا کہنا ہے۔,,حکمران طبقہ اپنے مقصد کو معاشرے پر جبراٗ لاگو کرتا ہے اور اسے ان تمام ذرائع کو غیر اخلاقی تصور کرنے کا عادی بنا دیتا ہے،جو اسکے مقاصد سے متصادم ہوتے ہیں۔یہ سر کار ی خلاقیات کا سب سے بڑا کام ہے،یہ اکثریت کے لئے نہیں بلکہ ایک روز بروز کم ہونے والی اقلیت کے لئے عظیم ترین،،ممکنہ خوشی،،کے تصور کو آگے بڑھاتی ہے۔ایسی حکمرانی جو محض طاقت کے زور پر ایک ہفتہ بھی قائم نہیں رہ سکتی،اسے اخلاقیات کے سیمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔،، مختلف معاشروں کے ہاں نیکی اور اخلاق کے مختلف درجے ہوتے ہیں۔ایک فلاحی ریاست میں گدا گری کو غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے اور دینے والا اسکو اچھا عمل نہیں سمجھتا،کیونکہ وہاں شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی ریاست مکلف ہے۔اسی طرح سوشلسٹ ریاستوں میں گداگری مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی۔اور سرکاری اخلاق کا جنازہ نکل گیا تھا،اسے مترشح ہوا کہ بہترین سیاسی معاشیات میں اور بہترین نظام حکومت میں نام نہاد اخلاقی اقدار کا خاتمہ ہوجاتا ہے،کیونکی اخلاقی اقدار کا گہرا تعلق اقتصادیات سے بھی ہوتا ہے۔اخلاقی انا پرستی کا تصور بھی حطیہ شعور سے غائب ہو جاتا ہے۔ایک ہی سف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔اسکے باوجود انسان کو ایک عالمگیر اخلاقیات کی ضرورت ہے،اور انفرادی طور پر بھی اسکی ضرورت رہے گا،وہ انسان دوستی،مساوات اور احساس مروت کا رشتہ ہوگا۔اور یہ سب استحصال سے پاک ریاستوں میں ممکن ہوگا۔ دوسرا بہترین اخلاق کی نشو ونما ایک عوامی اور جمہوری نظام میں بہتر انداز میں ہوتی ہے،جہاں عوام الناس کو ہر طرح کی جمہوری آزادی ہو۔عوام میں ارادے کی آزادی اور انتخاب کا حق سماجی ارتقا میں تیزی پیدا کر دیتا ہے۔تاریخ کا سفر خط مستقیم کی طرف طے ہونا شروع ہو جاتا ہے۔عوام کا اجتماعی شعور اپنے لئے بہترین اخلاقی اقدار کا تعین کرتا ہے،جس کا براہ راست تعلق سیاسی معاشیات اور پیداواری قوتوں سے ہوتا ہے،زمام کار جب عوام کے ہاتھوں میں آجائے،تو انفرادی اخلاق اجتماعی اخلاق اور اجتماعی شعور میں تبدیل ہو جاتا ہے،کیونکہ انسان اور اس کا اخلاق و شعور سماجی ارتقا کی پیداوار ہوتا ہے۔ اسلئے بہترین اخلاق بہترین جمہوری نظام کا پروردہ ہے۔بہترین نظاام کو لانا اعلیٰ اخلاق کا وصف ہے،جہاں مقتددر سرکاری اخلاق کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...