میَں شاید تیسری یا چوتھی کلاس میں نو یا دس سال کا تھا۔ اُردو کے محاورے بہت اچھے لگتے تھے۔ جلدی یاد ہو جاتے تھے اوراستعمال کرتا تھا بغیر سمجھے بُوجھے۔
ہمارے سامنے والے گھر میں، عُمر میں مجھ سے چند سال بڑا مظفر رہتا تھا جسکو سب جپھو کہتے تھے۔ اُسکے ساتھ اُسکے ماں باپ آغا صاحب اور اُسکی بہنیں رہتی تھیں۔ ایک بہن کی عُمر شادی کے قابل ہو چُکی تھی۔
اُنکا ایک منزلہ گھر پُرانی حویلی کی طرز پر بنا ہوا تھا۔ درمیان میں کھلا صحن اور چاروں طرف کمرے۔ گلی کی طرف دروازہ، دروازے اور صحن کے بیچ ایک ڈیوڑھی جہاں سے سیڑھیاں اوپر چھت پر بیت الخلأ وغیرہ کے لئے چڑھتی تھیں۔
اُنکے گھرکےپیچھے والے مکان کے صحن میں ایک بہت اونچا بیری کا درخت تھا جسکی اُوپر والی کُچھ شاخیں جپھو کے گھر کی چھت پر بھی جُھکی ہوتی تھیں۔ جب درخت پر بیر لگتے تھے تو ہم بچے جپھو کے گھر کی چھت پر چڑھ کر ایک لمبے بانس کے ساتھ بیر توڑا کرتے تھے۔ بانس کے دوسرے سرے کی ایک فُٹ لمبائی کو دوحصوں میں چیر کر بیچ میں بیر کی گٹھلی پھنسا دیتے تھے تاکہ چِرا ہوا بانس بیر کی موٹائی سے تھوڑا زیادہ کُھلا رہے۔ درخت کی ٹہنی پر لگابیر بانس کے دو نصف دائرہ نما حصوں پر مشتمل سپرنگ دار چِمٹےکی گرفت میں پھنس جاتا تھا اور اسطرح ہم ان بیروں کو بھی توڑ سکتے تھے جن تک ہمارا ہاتھ نہیں پہنچتا تھا۔
بیری والے پچھلے گھر میں رہنے والے لوگوں کے بچوں کو اپنے درخت سے ہمارا بیر توڑنا پسند نہیں آتا تھا۔ ایک دن میَں جپھو کی چھت پر چڑھا حسبِ معمول بیر توڑتوڑ کر کھا رہا تھا۔ اُن بچوں نےمجھے بیر توڑنے سےروکنے کے لئےمجھ پر چند پتھر پھینکے۔ بدقسمتی سے ایک دو پتھر میرے اُوپر سے ہوتے ہوئے نیچے جپھو کے صحن میں گر گئے جہاں جپھو کی ماں اور بہنیں بیٹھی تھیں۔ انھوں نےمجھے اپنی چھت پر چڑھے دیکھ لیا تو سمجھا کہ وہ پتھرمیں نے پھینکے تھے۔ شام کو آغا صاحب گھرواپس آئے تو اُنہیں گھر والوں نے بتایا۔ آغا صاحب نے ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر ہمارے والد صاحب کو سارا ماجرا بتا دیا۔
بآجی نے مجھے آغا صاحب کے سامنے بُلایا اور پُوچھا۔
میں نے سب قِصہ بتا کر اپنی طرف سے بڑے اطمینان کے ساتھ مضبوط دلیل دی۔
” بآجی۔ گھر میں بیری ہوگی تو پتھر تو آئیں گے نا!“
آغا صاحب بہت ناراض ہو کر واپس چلے گئے۔ مجھے اُنکی ناراضگی کی بالکل سمجھ نہیں آئی۔
بعد میں بآجی نے مجھے میرے کہے ہوئے محاورے کا صحیح مطلب سمجھایا!!
“