رسول بخش رئیس معروف اکیڈیمک شخصیت ہیں۔ آپ نے دیکھا پڑھا بھی ہوگا، مجھے صحیح علم نہیں کس ادارے/یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ آج اخبار میں ان کا ایک مضمون چھپا ہے۔ کرونا لاک ڈاون میں اپنے وقت کو وہ کس طرح شوق مطالعہ میں صرف کررہے ہیں۔ اس کا انہوں نے ذکرکیا ہے۔ ہم نے سوچا چلیں ہمارے عہد کے 'اسکالر' ہیں، دیکھتے ہیں۔ وہ آج اپریل 2020 میں کن جدید علوم، تحقیق، مصنفین سے بہرہ مند ہورہے ہیں۔۔ ان کا خود فرمانا ہے کہ " ان کا شعبہ ہی کتابیں ہیں، اگر کتاب نہ پڑھیں، تو علم میں تازگی نہیں آتی"۔
تو چلیں دیکھتے ہیں، وہ اپنے علم کو آج کے دور اور وقت میں کن کتب سے تازہ کررہے ہیں، پہلی کتاب کا ذکر ہے، مرزا ہادی رسوا کا مشہور ناول ' امراو جان ادا' ۔۔۔ چلیں اردو زبان کا کلاسیک ہی سہی، لیکن اتنی قدیم کتاب وہ بھی مرے ہوئے جاگیردار/نوابی دور کی کہانی۔۔۔ وہ میرے آج کے علم میں کتنی اور کیسی تازگی لا سکتی ہے؟ اور پھر یہ کتاب رسول بخش رئیس یا ہم جیسوں نے کبھی اپنے تعلیمی دور میں سنی پڑھی ہوگی۔۔ یا فلم بھی دیکھ لیں۔۔ اور پھر وہ یہ بھی بتاتے ہیں۔ کہ چند سال پہلے وہ لکھنو گے تھے اور وہاں وہ ' ثقافت' ان کوکہیں نہ ملی۔۔
چلیں اگلی کتاب یا شخصیت کا ذکر مولانا عبیدہ اللہ سندھی کے مقالات/خطبات کا انہوں نے لیا ہے۔ جب ہم ہندوستان میں اٹھنے والی فکری تحریکوں کو پڑھتے ہیں، تو عبیدہ اللہ سندھی کا نام بھی آ جاتا ہے۔۔ میرا خیال ہے جو رئیس صاحب اور میری عمرہے۔ یار بہت پڑھ لیا، ماضی کی ان مردہ تحریکوں اور ان کے افکار کو۔۔ ویسے ان کا تعلق بھی نصابی تعلیم سے زیادہ ہے۔
اب یہ اپنی 'علم کی پیاس کو بجھاتے بجھاتے' حضرت داتا گنج بخش کی ' کشف المحجوب' تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بارے فرماتے ہیں، 'جتنی بار اسے پڑھا جائے، اتنے ہی نئے راز کھلتے چلے جاتے ہیں۔۔" توبہ استغفار۔۔ یہ آپ کا اس جدید دنیا کا پروفیسر/اسکالر یونیورسٹیوں سے وابستہ شخص کہہ رہا ہے۔۔۔ پھر وہ داتا صاحب پہ حیران ہوتے ہیں، کہ وہ غزنی میں کتنا بڑا کتابوں کا ' ذخیرہ' چھوڑ آئے، اس زمانے میں کئی سال کے سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے۔۔۔ہندوستان لاہور آگے، ایسے ہے جیسے داتا صاحب غزنی میں کوئی ' لائبریری آف کانگریس' چھوڑ کر آئے ہوں۔۔!!
اس 'اسکالر' کو کان سے پکڑ کر بتایا جائے یہ 21ویں صدی ہے، اور لاہور، اسلام آباد ، کراچی کے کسی بڑی کتابوں کی سٹور پر لے جایا جائے، اس کو دنیا کے آج جدید بیسٹ سیلرز مغربی مصنفین کے ٹائٹل دکھائے جائیں۔۔۔ اور ان صاحب کو بتایا جائے، علم کس کو کہتےہیں، آج کے اسکالر کیا لکھ رہے ہیں، انسان کا شعورکہاں پہنچ چکا ہے۔۔ اس نام نہاد عالم کو داتا کی قبر سے اٹھا کرتازہ افکار و علوم کی شکل دکھائی جائے۔۔
ہمارے ملک کی عسکری اشرافیہ ہو، سیاست ہو، مذہب ہو، اکادیمیہ ہو۔۔ فرسودگی سی فرسودگی ہے۔ ۔دماغوں پر کائی جمی ہوئی ہے۔۔ میں نے اپنی تعلیم والی کتاب میں لکھا تھا کہ ہماری یونیورسٹیاں علم کے قبرستان ہیں۔
“