سماجی ماہرین سماج کی درجہ بندی مختلف انداز سے کرتے ہیں مارکس کی درجہ بندی کی بنیادی اکائی معیشت ہے اور وہ سماج کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے بوژوا اور پرولیٹیریٹ (ورکنگ کلاس ) جبکہ میکس ویبر سماج کی درجہ بندی معیشت،سٹیٹس اور طاقت کی بنیاد پر کرتا ہے
پاکستان کے سماج کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے امراء،مڈل کلاس اور غرباء امراء کا طبقہ اپنی سماجی درجہ بندی کے معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے اس میں شمولیت بہت مشکل ہوتی ہے کیونکہ ان کا رہن سہن اور تعلیم و تربیت کا انداز باقی سماج سے مختلف ہوتا ہے لیکن سئول بیروکریسی یا ملٹری بیروکریسی کے ذریعے نہ صرف اس طبقہ میں شامل ہوا جاسکتا ہے بلکہ ان کو کنٹرول بھی کیا جا سکتا ہے جبکہ غرباء کا طبقہ تعلیم،سماجی رتبہ،صحت غرض تمام قسم کی سہولتوں سے محروم ہوتا ہے ان دونوں طبقات کے درمیان ایک بڑا طبقہ وجود رکھتا ہے جس کو مڈل کلاس کہا جاتا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق اس طبقہ کی پاکستان میں تعداد چار سے چھ کڑور ہے یہ زیادہ تر پڑھے لکھے جوانوں پر مشتمل کلاس ہے یہی جوان سیول بیروکریسی اور ملٹری بیروکریسی کے مقابلہ کےامتحانات پاس کرکے ایڈمینسٹریٹیو باڈی میں شامل ہوکر حکومتی پالیسیز کا عملی طور پر اطلاق کرتے ہیں لیکن میڈل کلاس سماج کا وہ طبقہ ہے جس میں مذہبیت اور منافقت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے یعنی یہ طبقہ انڈین موسیقی سنتے ہوئے ریاست میں اسلامی خلافت کے نفاذ کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں ان کی ذہنیت سازی میں مذہبی ،معاشرتی اور ثقافتی رسم و رواج کی بہت اہمیت ہوتی ہے ان رسوم کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ یہ طبقہ طاقت اور سٹیٹس حاصل کرکے سماجی درجہ بندی میں اعلی درجہ کا حصول بھی چاہتا ہے یہ کلاس سیاست اور سیاستدانوں کے متعلق اچھی رائے نہی رکھتی کیونکہ پاکستان میں سیاست امراء کا طبقہ کرتا ہے اور وہ غرباء کے کندھے کو استعمال کرکے امراء کے مفاد میں حکومتی پالیسیز مرتب کرواتے ہیں جس کا نقصان مڈل کلاس طبقہ کو ہوتا ہے اس لیے مڈل کلاس طبقہ سیاستدانوں کے متعلق اچھے خیالات نہی رکھتا اور انھیں استحصالی طاقت سمجھتا ہے پاکستان دو قومی نظریہ کی بنا پر وجود میں آیا جس میں مذہب کی بنیاد پر ایک قوم تشکیل دی گئی تھی جس کی وجہ سے پاکستانی سیاسی نظریات میں مذہب کو بہت اہمیت حاصل ہے
پاکستان ایک سیکورٹی سٹیٹ ہے کیونکہ اس کا نظریاتی مخالف ہمسایہ ملک اس کے قیام سے ہی اس کے وجود کیلیے بہت بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے اس لیے پاکستان کی اندرونی سیاست اور معاشرے پر انڈیا سے متعلق پالیسیز اور اس کے ساتھ لڑی جانے والی جنگوں سے پیدا ہونے والی سوچ نے بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں یہی وہ محرکات ہیں جن کی وجہ سے مڈل کلاس اور سیکورٹی محکمہ (فوج) کے درمیان ایک قدرتی اتحاد قائم ہوتا ہے اور بہت حد تک فوج اپنی حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے نظریاتی حمایت اسی کلاس سے حاصل کرکے ایلیٹ کلاس کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہتی ہے اور ملک میں جمہوری نظام کے خاتمہ کے باوجود کوئی بڑی سیاسی تحریک یا بدامنی پیدا نہی ہوتی بلکہ مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور باقاعدہ نجات دہندہ کے طور پر خوش آمدید کہا جاتا ہے مڈل کلاس کی طرف سے اسی حمایت اور نظریاتی ہم آہنگی کے پیش نظر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ایک مختلف حکمت عملی ترتیب دی ہے جس کے پیش نظر اب ملٹری اسٹیبلشمنٹ ڈائریکٹ مارشل لاء کے بجائے پس پردہ رہ کر چند اپنے پیدا کردہ سیاسی کرداروں کے ساتھ مل کر ایلیٹ کلاس کے سیاستدانوں کو مستقل طور پر غیر فعال کرنا چاہ رہی ہے تاکہ ملک میں ایک سیاسی استحکام آسکے اور سرمایہ داری نظام کے لیے ماحول سازگار بن سکے