تاریخ شہادت: 21 ستمبر 1857
1857ء کی جنگ آزادی کے نتیجے میں کئی ہیرو ابھر کر سامنے آئے جنہوں نے شجاعت اور جرأت کی نئی داستانیں رقم کیں لیکن پنجاب سے ایک ایسا ہیرو سامنے آیا جس کی دلیری کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ اس ہیرو کا نام ہے رائے احمد خان کھرل شہید 1803ء میں ساہیوال کے گاؤں جھمرہ میں پیدا ہونے والے احمد خان کھرل نے برطانوی راج سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس کے اسی وصف نے اسے ہیرو بنا دیا۔ کھرل زبردست سیاسی بصیرت کا مالک تھا اور اس کے مختلف قبائل کے رہنماوں سے دوستانہ تعلقات تھے۔ کھرل خود جٹ برادری کا ایک قبیلہ ہے۔
1857ء کی جنگ آزادی نے ہندوستان کے مختلف نسلی گروہوں کو اکٹھا کردیا تاکہ وہ برطانوی راج کا مقابلہ کرسکیں۔ مقامی فوجوں کی بڑی تعداد نے احتجاج کے طور پر برطانوی فوج سے علیحدگی اختیار کرلی اور وہ ایسٹ انڈیا کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان حالات میں کمپنی کو حریت پسندوں سے مقابلہ کرنے کے لیے انسانی وسائل کی اشد ضرورت تھی۔ نئے فوجی بھرتی کرنے کے لیے ایک برطانوی ایلچی کو ساہیوال بھیجا گیاتاکہ مقامی قبیلوں کے سرداروں سے مدد حاصل کی جاسکے۔ برطانوی ایلچی نے رائے احمد خان کھرل سے ملاقات کی جو کھرل قبیلے کے سردار تھے۔
یہ کھرل قبیلہ اوکاڑہ کے نزدیک واقع گوگیرہ میں آباد تھا۔ رائے احمد خان کھرل اپنے قبیلے میں بہت مقبول تھے اور انہیں اپنے قبیلے کے لوگوں کی ہر معا ملے میں زبردست حمایت حاصل تھی۔ احمد خان کھرل نے اس بارے میں بہت غور کیا اور پھر برطانویوں کی نئے فوجی بھرتی کرنے کی درخواست مسترد کردی اس نے اعلان کیا کہ وہ دہلی کے سلطان کا وفادار ہے برطانویوں کا نہیں۔ برطانویوں کے لیے احمد کھرل کا یہ جواب بالکل غیر متوقع تھا کیونکہ اس نے کئی مقامی زمینداروں کو جاگیریں اور خطابات دے کر اپنے ساتھ ملا لیا تھا لیکن برطانویوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ کھرل بکنے والا آدمی نہیں ہے بلکہ وہ ایک سچا قوم پرست اور حریت پسند ہے جو برطانوی راج سے آزادی کا متمنی ہے۔ کھرل کے اس رویے نے برطانویوں کو ناراض کردیا لیکن کھرل کو اس کی مطلق پروا نہیں تھی۔ کھرل ایک بااصول اور دیانت دار آدمی تھاجس نے عمر بھر اپنے نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ برطانویوں کو ایک اور چیز نے سخت غصہ دلایا وہ یہ کہ ساہیوال کے اردگرد قبائل نے برطانوی حکومت کو مالیہ دینے سے انکار کردیا۔ یہ ایک کھلی بغاوت تھی اور برطانوی انتظامیہ کے لیے ایک چیلنج تھا۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی تھی کہ برطانوی کنٹرول اب شاید اتنا مؤثر نہیں رہے گا۔ برطانوی اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ مقامی قبائل عَلم بغاوت بلند کردیں گے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مزاحمت کا طوفان کھڑا ہوجائے گا۔ لہٰذا اسسٹنٹ کمیشنر ساہیوال برکلے کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ان قبائل کی جانب سے کی جانے والی مزاحمت کو کچل دے چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ برکلے کو یہ بات واضح انداز میں سمجھا دی گئی کہ ان لوگوں کو سزا دینا بہت ضروری ہے جو مالیہ دینے سے انکاری ہیں ۔ دراصل برطانوی اس بات پر غضب ناک ہو رہے تھے کہ ان قبائل نے مالیہ دینے سے انکار کرکے ان کی توہین کی تھی۔ ’’باغیوں‘‘ کے خلاف مہم شروع کردی گئی اور بے شمار باغیوں کو گوگیرہ جیل میں ڈال دیا گیا۔
اس زمانے میں گوگیرہ ساہیوال کا ہیڈکوارٹر تھا۔رائے احمد خان کھرل کے لیے یہ بات سخت ناقابل برداشت تھی کہ ان کے قبیلے کے اتنے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا جائے۔ کھرل نے اپنے قریبی ساتھیوں سے طویل مشاورت کی اور پھر فیصلہ کیا کہ برطانویوں نے جن کو گرفتار کیا ہے انہیں ہر صورت آزاد کرایا جائے ۔ یہ جرأت مندانہ اقدام تھا لیکن کھرل ہر قسم کے نتائج کے لیے تیار تھا۔ 26 جولائی 1857ء کی رات کو رائے احمد خان کھرل نے گوگیرہ جیل پر حملہ کیا اور تمام قیدیوں کو آزاد کروا لیا۔ اس موقعے پر کئی ہلاکتیں ہوئیں۔ رائے احمد خان کھرل اپنے بے شمار ساتھیوں کے ساتھ بھاگ نکلا اور گشکوری کے جنگل میں پناہ لی۔ یہ جنگل گوگیرہ سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ قدم سراسر برطانوی راج کے احکامات کی خلاف ورزی تھا اور اب برطانوی انتظامیہ نے ان کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا۔ حکمت عملی میں گاؤں کے گاؤں جلانے کا منصوبہ تھا۔ برطانویوں کے نزدیک رائے احمد خان کھرل سے نجات پانا انتہائی اہم تھاکیونکہ یہ وہ رہنما تھا جس نے لوگوں کو برطانوی راج کے سامنے کھڑا ہونے کا پیغام دیا تھا۔ برطانویوں نے کھرل کے خاندان کے افراد کو گرفتا رکر لیا اور انہیں قتل کرنے کی دھمکی دی۔ رائے کھرل اپنی ماں اور خاندان کے دوسرے افراد کی زندگی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کردیا۔ اس کی گرفتاری سے افراتفری میں اضافہ ہوگیا، کیونکہ قبائل کا احتجاج بڑھتا جارہا تھا۔ برطانوی انتظامیہ کو دباؤ کے سامنے جھکنا پڑا اور انہوںنے رائے احمد خان کھرل کو رہا کردیا لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کردی کہ وہ گوگیرہ چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ رائے کھرل جیل سے باہر آگیا لیکن اس کا مقصد قبائل کو متحد کرنا تھا۔ جنگل میں اپنے ساتھیوں سے مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ دریائے راوی کے دونوں طرف قبائل اکٹھے ہو جائیں گے اور چیک پوسٹوں پر حملے کریں گے۔ رائے کھرل کو آمنے سامنے لڑائی میں پکڑنا یا ہلاک کرنا آسان نہیںتھاکیونکہ وہ علاقے سے اچھی طرح واقف تھا۔ تاہم اسے پکڑنے کی ایک ترکیب تھی۔ یہ وہی ترکیب تھی جو ٹیپو سلطان اور نواب سراج الدولہ کے خلاف استعمال کی گئی تھی۔ اس کے تحت اندر کے آدمی کی وفاداریاں خریدنا تھا جو رائے کھرل کے بارے میں ساری اطلاعات دے۔ دو افراد نے رائے کھرل سے غداری کی حامی بھر لی۔ ایک کا نام تھا سرفراز کھرل اور دوسرا تھا ینہان سنگھ بیدی۔ یہ دونوں کھرل کے خفیہ اجلاس میں شامل تھے۔ ان دونوں نے ساری اطلاعات برطانویوں کو پہنچا دیں۔ منصوبے کے مطابق احمد خان کھرل کو اپنے اتحادیوں سے ملاقات کے لیے دریائے راوی پار کرنا تھا۔ یہ ساری اطلاعات برطانویوں بھی کو پہنچا دی گئیں۔ اس سے پہلے کہ برکلے پہنچتا، رائے کھرل دریا پار کر چکا تھا۔ اس کے بعدرائے کھرل اور اس کے ساتھی برکلے سے بڑی بے جگری سے لڑے اور انہیں پسپائی پر مجبور کردیا۔ یہ رائے احمد خان کھرل اور ان کے ساتھیوں کے لیے عظیم فتح تھی۔ اس موقع پر رائے احمد خان کھرل نے نماز پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ برکلے اور اس کے فوجی زیادہ دور نہیں تھے ۔ جب کھرل نماز پڑھ رہا تھا تو برکلے نے حملہ کردیا۔ رائے کے ساتھی بیدی نے اسے شناخت کرلیا اور کچھ ذرائع کے مطابق اس نے کھرل پر پہلی گولی چلائی۔
یہ 21 ستمبر 1857 ء کا دن تھا اور اس دن محرم کی 10تاریخ تھی۔ کھرل کی شہادت کے دو دن بعد ان کے ایک دوست مراد فتیانہ نے برکلے کو ہلاک کردیا۔ رائے احمد خان کھرل کی عظیم قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ –
اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین