”مرد“ اور ”عورت“ کا تقابل ہر وقت کسی نہ کسی صورت میں ہوتا ہے رہتا ہے، مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ”مرد“ جسم کا نام نہیں اور ”عورت“ بھی محض جسم نہیں ہوا کرتی، دونوں اصناف اپنی مخصوص صفات رکھتے ہیں کبھی مردوں میں زنانہ پن زیادہ ہو جاتا ہے تو کبھی ہمت وحوصلہ میں خاتون مردوں کو کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے ، مرد ایک ”توانا“ سوچ کا نام ہے جو انسان کو مقابلہ کی ہمت عطا کرتی ہے، ہار ماننے سے انکار کرنا سیکھاتی ہے مگر ہماری بدقسمتی کہ ہمارے معاشرہ میں مرد کا کام محض عورت کو دہشت زدہ کرنا ٹھہرا اور وساٸل کی تقسیم پر اپنا تسلط اس طرح بناۓ رکھنا کہ دوسرے لوگ غریب عوام جیسے بنے رہیں،یہ سوچ گھر کی خاتون کی بھی ہوسکتی ہے جو پورے خاندان کو اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتی ہو ،مگر اصل میںمرد شجاعت و بہادری کا نام ہے جو وقت پڑنے پر گھنا درخت بنتا ہے خود دھوپ میں رہ کر بے لوث سایہ فراہم کرتا ہے مگر خریدار وفرخت کا بازار اتنا پھیل چکا ہے کہ مرد ہو یا دونوں ہی اصل کھو چکے ، نہ خاتون کو عزت کے اصل معنی معلوم ہیں۔
نہ مرد کو محبت اور ملکیت میں فرق پتہ ،ہر سڑک پر چلنے والی چادر میں لپٹی عورت جب تک موڑ نہ مڑ جاۓ تب تک گھورنا پسندیدہ عمل ، خاتون کی بے جا فرماٸشیں اور عدم تحفظ کا رویہ مرد کو گھر سے باہر تلاش پر مجبور کر دیتا ہے مرد کی تربیت بھی خاتون کی مرہون منت ہے زیادہ تر ،جب خاتون بیٹوں کو بے جا لاڈ پیار سے ضدی بنا کر کسی آنے والی کو خاوند سدھارنے کا ٹاسک عطا کر دیتی ہیں تو نسلوں کی بربادی ہو جاتی ہے ،حوصلہ ،ہمت اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگی ماں ہی بیٹوں کو سکھایا کرتی ہے دوسرے الفاظ میں انسان کو ”مرد“ بن کر زندگی گزارنا سکھنے والی خاتون ہی ہے اور جہاں برادری سسٹم چلا آرہا ہے وہاں تو ضد اور انا ہی مردانہ رویہ ہے ،مذہبی فرقہ بندیاں مزید سخت مردانہ رویے بنانے میں معاون ہیں جہاں مقامی روایات میں لچک دکھانا مذہبی خلاف ورزی کہلاٸی جاتی ہے۔