پنجاب میں جب کسی گھر میں وفات ہو جاتی تھی تو چارپائی الٹی کر دیتے، آئینے میں شکل نہیں دیکھتے تھے، گھر میں کھانا بھی نہیں پکاتے تھے۔ شاید اِسی لیے پھوہڑی ڈالنے کا رواج بھی ہو۔ اس موقعے پر کھانا پڑوسیوں اور برادری کی طرف سے آتا تھا جس کو کوڑا وٹہ کہتے تھے۔ خیال تھا کہ موت اِن حرکات کے نتیجے میں اُنھیں مزید تنگ نہیں کرے گی۔ پے درپے مرنے والے بچوں کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کا نام بھی اِسی لیے کالو وغیرہ رکھتے تھے تاکہ موت کو وہ اچھا نہ لگے۔
تدفین کرنے کا طریقہ اِس لیے ایجاد ہوا کہ قدیم انسان کو خواب میں بھی وہ لوگ نظر آتے جو اُسے معلوم تھا کہ مر چکے ہیں۔ اُس نے سوچا کہ اگر زمین کے اندر اِنھیں دبا دیا جائے، یعنی دفن کر دیا جائے تو وہ تنگ نہیں کرے کرے گا۔
مختلف تہذیبوں نے اپنے اپنے طریقے سے موت سے نمٹنا سیکھا۔ ہم ہیں کہ موت کو سر پہ بٹھا لیا، ہر بار اُسے لبھاتے ہیں، دعوت پر بلاتے ہیں، اُس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ناچتے ہیں، نصابی کتب میں اُس کے گن گاتے ہیں……
ول ڈیورانٹ نے لکھا ہے کہ نیوبریٹن کے دیسی لوگوں کا خیال تھا کہ انسانوں کو موت دیوتاؤں کی کسی خطا کے نتیجے میں آتی تھی۔ دیوتائے خیر Kambinana نے اپنے احمق بھائی Korvouva سے کہا، ’’نیچے انسانوں کے پاس جاؤ اور اُن سے کہو کہ اپنی کھالیں اتار دیا کریں؛ اِس طرح وہ موت سے بچ جائیں گے۔ لیکن سانپوں سے کہنا کہ وہ لازماً موت کا شکار ہوں گے۔‘‘ Korvouva نے پیغامات خلط ملط کر دیے؛ اُس نے سانپوں کو لافانیت کا راز بتا دیا، اور انسانوں کو موت کی بدبختی کی خبر سنائی۔
یقیناً ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ ورنہ کوئی قوم اتنی بے وقوف تو نہیں ہو سکتی تھی۔ ہمارا کوڑا وٹہ کرنے کو کون آئے گا؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...