ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا دماغ ،ہمارے طاقتور ہتھیار،ہماری سیکھنے کی قابلیت اور ہمارے سماجی رشتے یہ سب ہمارے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں اور ان سب وجوہات کے باعث ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ اس دھرتی پرانسان سب سے ہوشیار اور طاقتور جانور کی حیثیت سے جیتا آیا ہے جبکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایسا بلکل نہیں ہے، باوجود اپنی عقل اور طاقتور ہتھیاروں کے جو ہم نے فقط طاقتور جانوروں کے خوف میں بنائے تھے، ہم نے کبھی کسی بڑے جانور کا شکار کیا ہی نہیں، ہماری خوراک پودے، کیڑے ،چھوٹے جانوروں کو پالنے یا طاقت ور جانوروں کے چھوڑے شکار پرگزارے سے ہوتا تھا اور ان پتھر کے ہتھیاروں کا ایک استعمال ہڈیوں کو توڑنے کے لیے کیا جاتا تھا تاکہ ہم ہڈیوں میں موجود گودا نکال کر اسکو کھا سکے۔ بلکل ایک ہدہد کے جیسے جو لکڑی سے اپنی خوراک حاصل کرتی ہے ، سوال یہ ہے کہ سب ہتھیاروں اور ذہانت کے باوجود ہڈیوں کا گودا ہی کیوں؟
تصور کرے کہ ایک شکار شیروں کے جھنڈ نے کیا ہے اور آپ انتظار کررہے ہیں کہ وہ اپنا پیٹ بھر کر کھالے تاکہ جو بچ جائے وہ آپ کھاسکے لیکن اسکے بعد وہاں خونخوار بھیڑیے آجاتے ہیں جو سب کھا جاتے ہے اور آپ کے لیے صرف ہڈیاں ہی رہ جاتی ہے تب آپ کیا کرے گے کیسے خود کو بھوک سے مرنے سے بچائے گے؟
اور یہ صرف تصور نہیں حقیقت ہے انسان لاکھوں سال تک اس صورتحال سے گزرتے آئے ہیں، یہی حالات ہماری تاریخ اور ہماری فطرت کو سمجھنے کی کنجی بھی ہیں ، مگر یہ سب کچھ چار لاکھ سال پہلے تبدیل ہوا جب انسانوں کی چند پرجاتیوں نے جھنڈ کی صورت میں بڑے جانوروں کا شکار کرنا شروع کیا اور صرف ایک لاکھ سال کے سفرمیں انسان اس خوراک کے نظام میں سب کو پیچھے چھوڑ کر سب سے مہان بن گیا یہ بے مثال سفر ترقی اور نیچے سے اوپر تک کی چھلانگ جو انسانوں نے لگائی اس نے ہمارے ماحولیاتی نظام میں حیران کن تبدیلیاں رونما کی دوسرے جانور جیسے کے شیر اور شارک وٰغیرہ نے بلندی تک کا یہ سفر ملین آف ملین سالوں میں طے کیا تھا جس کے باعث ہمارے ماحولیاتی نظام نے انکی جانچ پڑتال رکھی کہ یہ تبدیلی کوئی طوفان نہ بڑپا کرسکے یعنی اگر شیر زیادہ خونخوار بن گئے تو ہرنوں غزالوں نے بھی اور تیز دوڑنا سیکھ لیا لگڑ بگو نے مزید بہتر طریقے کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کرنا سیکھ لیا اور گینڈے مزید سے مزید غصیلے ہوگئے جبکہ ہم انسانوں کو دیکھے تو انھوں نے یہ سفر اس قدر تیزی سے طے کیا کہ ماحولیاتی نظام کو وقت یہ ہی نہ مل سکا کہ وہ سب ٹھیک رکھ سکے سب حالات کی جانچ پرتال رکھ سکے انسان خود بھی اس ماحول میں آراستہ نہ ہوسکا بہت سے جانور جنھوں نے کڑوروں سال تک سب پر راج کیا تو پھر قدرت نے بھی انکے اندر ایک خود اعتمادی بھردی جبکہ ہم انسان ایک ڈکٹیڑ کے جیسے ہیں جس نے اقتدار پر قبضہ کیا ہے اس لیے ہماری ذات اپنے اس مقام کو لے کر خوف اور اضطراب سے بھری پڑی ہے جس نے انسانوں کو خونخوار درندہ بنا دیا ہے ، کئی تاریخی آفات، جیسے کہ جنگیں اور ماحولیاتی تباہیاں اس ہی جلد بازی کا نتیجہ ہے۔
سوس آف انفارمیشن
Homo Sapiens By
Yuval Noah Harrari