ایک بکری چراگاہ میں چرتی ہوئی دُور نکل گئی۔ پیاس لگی تو پانی کی تلاش میں اور آگے بڑھ گئی۔ ڈھلوان میں اسے پانی محسوس ہوا، پیاس کی شدت تھی بکری نے فوراً چھلانگ لگائی لیکن اندازہ غلط ہو گیا۔ وہاں زمین دلدلی تھی۔ بکری دلدل میں پھنس گئی۔ اب وہ نکلنے کیلئے جتنا زور لگاتی اور دلدل میں دھنستی جاتی۔ بکری کی زندگی اور موت کی کشمکش جاری تھی کہ وہاں ایک بھیڑیا آ گیا۔ بکری نے جب اس کو دیکھا تو اور خوف زدہ ہو گئی۔ ابھی ایک مصیبت سے نکل نہیں پا رہی تھی کہ اب موت اور سفاکی کے ساتھ سامنے آن کھڑی ہوئی۔ بکری نے آسمان کی طرف دیکھا، زیادہ گھاس کی لالچ میں اپنے ریوڑ سے الگ ہونے پر پشیمان ہوئی۔ ہاۓ افسوس! میں اپنے مالک کی نگاہوں میں رہتی، میں گروہ سے الگ نہ ہوتی۔ اے کاش! میں زیادہ چارہ کی حرص میں اندھی نہ ہوتی۔
بھیڑیئے نے جب شکار دیکھا تو اس کی رالیں ٹپکنا شروع ہو گئیں۔ اس نے بھی دور سے چھلانگ لگائی اور وہ بھی دلدل میں پھنس گیا۔ بکری نے اسے دھنسا دیکھا تو ہنس پڑی۔ اپنی تکلیف اور موت بھول گئی۔ بھیڑیئے نے غرّا کر پوچھا، اے نادان! کیوں ہنستی ہے؟ بکری نے کہا! میری موت بن کر آۓ تھے، لیکن خود پھنس گئے ہو۔ اب موت کا ذائقہ چکھ کے دیکھو۔
بھیڑیئے نے کہا؛ تُو خود بھی تو دھنسی ہوئی ہے۔ بکری نے کہا۔ اے درندے! میرے پھنسنے اور تیرے پھنسنے میں بہت فرق ہے۔ میرا مالک جب گھر جا کر اپنی بکریوں کو گِنے گا۔ تو اس کو ایک بکری کم ملے گی۔ وہ فکر مند ہو جاۓ گا۔ اپنا کھانا پینا بھول کر وہ میری تلاش میں نکلے گا۔ وہ مجھے جب اس دلدل میں پا لے گا تو مجھے یہاں موت کے منہ سے نکال کر اپنے ساتھ لے جاۓ گا۔ اے سنگدل بھیڑیئے! اب تو بتا تجھے کون تلاش کرنے آۓ گا؟ تجھے کون یہاں سے نکالے گا؟ بھیڑیئے نے خونخوار نظروں سے بکری کو دیکھا اور دلدل سے باہر نکلنے کی تدبیریں کرنے لگا۔
اب ہم اس کہانی کو یہاں روک کر دنیا کے حالات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ دنیا اس وقت ایک انتہائی تکلیف دہ موت والے وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ اس وائرس کا تعلق ڈائریکٹ انسان کی صحت سے جُڑا ہے۔ یہ جب تک آپ کے جسم سے باہر ہے آپ کی سانسیں چل رہی ہیں لیکن جب یہ آپ کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے آپ کی سانسوں کی ترتیب الٹنا شروع ہو جاتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس نے پہلے ایک لاکھ افراد تک پہنچنے کے لئے ٦۷ دن لئے تھے۔ لیکن اگلے ایک لاکھ تک کے لئے صرف ١١ دن لئے۔ خوف زدہ کرنے والی بات یہ ہے کہ اس نے تیسرے لاکھ لوگوں تک پہنچنے کے لئے صرف چار روز لئے۔ اب قدرت نے آپ کو اختیار دیا ہے لیکن ساتھ آزمائش بہت بڑی ہے۔ اس لئے اگر اس سے نمٹنا ہے تو اپنے گھروں میں قید رہنا ہو گا۔
آپ دنیا کا کوئی بھی مذہب اختیار کر لیں، آپ کسی بھی مذہب کی مقدس کتاب اٹھا کے دیکھ لیں، آپ اپنے ارد گرد ایک دائرہ کھینچ لیں اور اس میں بیٹھ کر چالیس دن تک مراقبے میں چلے جائیں۔ آپ ساری زندگی سمندر کی تہہ میں سانس روکے بیٹھے رہیں۔ آپ دنیا کی بلند ترین چوٹی پر تپسیا کر لیں۔ آپ شاہ بلوط کے درخت کے ساتھ الٹا لٹک کر زندگی گزار لیں۔ آپ کو اپنی زندگی کا آخری سانس لیتے ہوۓ انکشاف ہو گا کہ کائنات اپنے جن سنہری اصولوں کے ساتھ چل رہی ہے اس کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ جو کچھ آپ اپنے جسم، اپنے وجود، اپنی ذات، اپنی سوچ کے ساتھ نہیں ہوتا دیکھنا چاہتے وہ کسی اور کے لئے بھی نہ کریں۔ اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوۓ آپ اس وقت اپنے آپ کو اپنے گھروں میں محدود کر لیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کسی صحت مند انسان کے لئے قاتل ثابت ہوں یا کوئی آپ کے لئے ایسا بیج بو جاۓ جس کا خمیازہ آپ کی فیملی کو بھگتنا پڑے۔
اس وقت دنیا لاک ڈاؤن کی طرف چلی گئی ہے۔ پاکستان نے بھی جزوی طور پر لاک ڈاؤن کی طرف جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہت بڑے نقصان سے بچنے کے لئے یہ ایک مناسب فیصلہ ہے۔ ہمیں اس فیصلہ کا ساتھ دینا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کے معاشرہ سے کٹ کے رہ جانا، تنہائی میں چلے جانا ایک سخت مشقت والا کام ہے۔ لیکن یہ کام پہلی بار نہیں ہو رہا۔ یہ ازل سے شروع ہوا ہے ابد تک جاری رہے گا۔ یہ تنہائی یہ قرنطینہ شاید ہمیں اب زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔ لیکن حقیقت ایسے نہیں ہے۔
اگر ہم اس لاک ڈاؤن یا قرنطینہ کو تھوڑا سا اور زاویہ سے دیکھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر انسان اپنی پیدائش کے ابتدائی لمحات بھی ایک قسم کے قرنطینہ میں گزارتا ہے۔ ایک قطرہ سے روح اور وجود کے مراحل ماں کے پیٹ کے قرنطینہ میں گزارنے والا انسان باقی زندگی میں بھی ایسی آزمائشوں سے گزر کر اپنا اختتام بھی مٹی کی ڈھیری کے قرنطینہ میں کرتا ہے۔
لیکن جو درجات میں بلند ترین ہیں وہ ہر لمحہ قرنطینہ کی آزمائش سے گزرتے ہیں۔ مختصراً آپ دیکھ سکتے کہ حضرت آدمؑ کا قرنطینہ زمین بنی، حضرت نوحؑ کا قرنطینہ ایک کشتی بنی، حضرت یونسؑ کا قرنطینہ ایک مچھلی بنی، حضرت ایوبؑ کا قرنطینہ ان کا اپنا جسم بنا، حضرت ذکریاؑ کا قرنطینہ ایک درخت بنا، حضرت یعقوبؑ کا قرنطینہ دو آنکھیں بنی، حضرت یوسفؑ کا قرنطینہ ایک کنواں بنا، حضرت داؤدؑ کا قرنطینہ ہتھیلی کا نشان بنا، حضرت سلیمانؑ کا قرنطینہ ایک لاٹھی بنی، حضرت ابراہیمؑ کا قرنطینہ آتش نمرود بنی، حضرت اسماعیلؑ کا قرنطینہ ایک خواب بنا، حضرت موسیٰؑ کا قرنطینہ ایک دہکتا تندور بنا۔
غرض یہ کہ مختلف ادوار میں انبیاء کرامؑ اس فیز سے گزرے ہیں۔ سب سے زیادہ یہ آزمائش نبی آخر الزماں، رحمت اللعالمین، نبیوں میں رحمت لقب پانے والے، اس عظیم کائنات کے مالک کے محبوب کے حصہ میں آئی، خواہ وہ غارِ حرا میں گزارے ہوۓ لمحات ہوں، طائف کی وادی میں سر سے بہتا خون پاؤں تک ہو، شعب ابی طالب کی گھاٹی میں گزارے تین سال ہوں، اپنے گھر اپنے بچپن، اپنے پروردگار کا گھر چھوڑ کر ہجرت ہو، یا پھر معراج کی رات اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے لئے خیر و عافیت مانگنے والا وقت ہو یا پھر اس دنیا سے پردہ فرمانے سے پہلے اپنے وجود اپنے خاندان کی نہیں بلکہ دور دراز کسی کونے کھدرے میں بیٹھے اُمتی کے لئے رحم کی اپیل ہو۔
یہی وہ وجہ ہے کہ ہم صرف مصیبت میں تو پھنس جاتے ہیں، لیکن عذاب سے بچ جاتے ہیں۔ آپ تصور نہیں کر سکتے ان قوموں کا جو پہاڑوں کو ملا کر کچل دی گئیں۔ پانی میں غوطہ لگوا لگوا کر ماری گئیں، یک لخت بستی الٹا دی گئی، پتھروں سے کچل ڈالی گئیں، زمین کی تہوں میں دھنسا دی گئیں، صرف ایک آواز آئی پوری قوم کی لاشیں زمین پر چت ہو گئیں۔ ان میں سے کسی کو مہلت نہیں ملی۔ یہ صرف ہم ہیں جو مہلتوں اور نوازشوں کے سلسلے سے جڑے ہوئے ہیں۔
آپ لاکھ دلیلیں دے کر میری بات کو رد کر دیں مگر حقیقت یہی ہے کہ کورونا نامی وائرس ایک دلدل ہے اور ہم اس میں دھنسنا شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن اس سے نکلنا دھنسنے سے زیادہ آسان ہے۔
ہم واپس بکری اور بھیڑیا کی کہانی کی طرف چلتے ہیں۔ ہمیں پتہ چلے گا کہ سورج غروب ہوتے ہی جب اندھیرا چھا گیا تو بکری کا مالک اس کی تلاش میں آیا۔ بکری کو دلدل سے نکالا۔ واپس باڑہ میں لے کر گیا اور باقی بکریوں کے ساتھ کھونٹے پر باندھ دیا۔ مالک کی بکریاں پوری ہو گئیں۔ مالک اب کھانا بھی کھاۓ گا، پانی بھی پیئے گا اور رات سکون کی نیند سو جاۓ گا۔ سوال ہے کہ بکری تو بچ گئی لیکن ہم اس کورونا نامی وبا سے بچنے کے لئے کیا کریں۔ اس کا جواب بہت آسان ہے۔ ہم کچھ بھی نہ کریں۔ ہم صرف اپنے آپ کو وہ بکری سمجھ لیں اور تصور کر لیں کہ ہمارا کھونٹا ہمارے آخری نبی رحمت العالمین کا در ہے اور ہمارا مالک جب گنتی کرے گا تو پوری تعداد نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اس وبائی دلدل سے نکال کر لے جاۓ گا۔ ہمیں اپنی رحمت والے کھونٹے سے باندھ دے گا۔ لیکن اس کے لئے ہمیں اپنے مالک پر بکری جتنا یقین رکھنا ہو گا۔ آئیں ایک بار اپنے مالک کے آگے انتہائی ادب کے ساتھ درود کا نذرانہ پیش کریں۔ اس کی برکت سے نہ صرف اپنی خیر مانگیں بلکہ تمام انسانیت کی خیر مانگیں، ورنہ کورونا سے بچ بھی گئے تو کسی اور بھیڑیا کا شکار ہو جائیں گے۔ .. جزاک اللہ خیرا کثیرا .:-
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...