1965 کی جنگ کے بعد برسوں تک ہمارے ہاں بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری سب سے زیادہ طنز اور استہزا کا موضوع رہے.
کوئی چودہ پندرہ سال بعد نیشنل کالج آف آرٹس میں ایک ورائٹی شو/ڈرامہ ہوا. اس میں شاستری کا کردار بھی تھا. اس کیلئے کچھ مشابہت رکھنے والے ایک طالب علم کا انتخاب کیا گیا. اس کی اداکاری کا کمال ہی سمجھیں کہ اب چالیس سال بعد بہت سے دوستوں کو تو اس کا اصل نام یاد ہی نہیں، جب تک شاستری نہ کہا جائے، پہچان ہی نہیں پاتے. اب وہ بڑے ڈیزائنر ہیں.
نام ان کا عبدالحمید ہے. ان کے والد مولوی عبدالعزیز ہمارے بزرگ دوست تھے. شاستری سب کو بتاتا ہے کہ ملک صاحب مجھے انگلی سے پکڑکر این سی اے چھوڑ کر آئے تھے. مجھے تو وہ دن یاد نہیں، شاید مولوی صاحب نے یہ کام میرے ذمے لگایا ہوگا.
دوستوں کی وجہ سے میرا این سی اے اور اس کے بوائز اور گرلز ہوسٹلز آنا جانا بہت رہا.
وہاں ایسے عرفی نام رکھنے کا ٹرینڈ عام تھا جو اکثر کے ساتھ زندگی بھر کیلئے چپک گئے. پہلے وہاں میٹرک کے بعد داخلہ ہوتا تھا، پھر انٹر کے بعد ہونے لگا. بہر حال بچے ہی ہوتے تھے لیکن بہت جلد میچیور ہوجاتے.
ایک لڑکے کے والد ملنے آئے. چوکیدار کو بتایا، طاہر سے ملنا ہے. اس نے کہا، کون سا طاہر؟ یہاں تین طاہر ہیں.. طاہر جمال، طاہر رشید اور طاہر حرام دا.. بزرگوار نے کہا،
“حرام دا ای ہونا اے میرا پتر”
ایک لڑکے کا نام اتنا فحش رکھا گیا کہ میں یہاں لکھ نہیں سکتا. وہ نام چلا اتنا کہ لڑکیاں بھی بے سوچے سمجھے وہی نام لیتیں.
ایک چھوٹے قد کے گول مٹول لڑکے کا نام کلچہ رکھا گیا. پھر اسی وزن پر مختصر جسامت والی ایک لڑکی کو کلچی قرار دے دیا گیا. وہ میرے لئے چھوٹی بہنوں جیسی ہے بلکہ سگی بہن کی ہم نام بھی. ہمارے ایک دوست سے ہی شادی ہوئی. لیکن اس کا اصل نام یاد کرنے کیلئے مجھے دس منٹ سوچنا پڑا.
+
سعید ابراہیم Saeed Ibrahim کی یادیں :
مجھے نہیں یاد کہ این سی اے میں کسی کو ایسا نام دیا گیا ہو جو اس کی شخصیت سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ جیسے کہ سہیل (مرحوم) ہکا بکا۔ مفتی کی گائے کپڑا کھائے۔ بالا بی ایف (بی ایف کو کھولنا مناسب نہیں) مگر اتنا بتادوں کہ اقبال بہت مرنجاں مرنج اور زندہ دل نوجوان تھا اور جب آڈیٹوریم میں اس کے نام کا نعرہ لگتا تو وہ خود بھی اس عمل میں پورے جوش و خروش سے شامل ہوجایا کرتا۔ ہماری ایک سینئر اتنی سمارٹ تھیں کہ انھیں چَوَنی کا نام دے گیا۔ کراچی کے ایک دوست کو گھوڑے کے نام سے موسوم کیا گیا۔ شنید ہے کہ ان کی سالگرہ کے موقع پر ہاسٹل میں ایک دوست بہت بڑا پیکٹ لائے جو تہہ در تہہ پیکنگ میں ملفوف تھا۔ جب آخری تہہ پھاڑی گئی تو اس میں سے گھاس برآمد ہوتے ہی شرکائے محفل نے فلک شگاف نعرہ لگایا۔ “ٹکا ٹک ٹکا ٹک گھوڑے۔” کراچی کے ہی ایک پیارے دوست کو “تحفے” کا نام دیا گیا۔ ایک دوست کو ڈبل ایل کی آواز سے پکارا جاتا تھا جس میں پہلے ایل پر پیش بھی ڈالی جاتی تھی۔ اور ہاں میری بھی ایک عرفیت تھی چِٹا۔ اب بھی این سی اے کے کسی پرانے دوست کو فون کروں تو بتانا پڑتا ہے کہ میں سعید چِٹا بول رہا ہوں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...