ہوش سنبھالتے ہی جو بات سب سے پہلے مکمل اصرار سے بتائی گئی، وہ یہ تھی کہ ایک خدا ہوتا ہے، جو سب کچھ ہمارے ارد گرد ہو رہا ہوتا ہے، وہی کرتا ہے… اور ہم مان گئے…
سو جب بھی بارش کا طوفان آتا اور بجلی کڑ کڑ کڑکتی تو ہم گھبرا کے خدا کے غصے ہونے کی وجہ سمجھنے کی کوشش کرتے اور پھر اپنی یا اماں کی کسی غلطی (جو ابا اکثر ڈھونڈ کے نکال لاتے تھے) کو وجہ قرار دے کے معافی مانگتے رہتے…
پھر جب مسجد جانے جوگے ہوئے اور وہاں یہ بتایا گیا کہ وہ خدا اکیلا ہے، اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں، نہ ماں کا پیار نہ باپ کی شفقت ، نہ بھائی کا سہارا نہ بہنوں کے چاؤ، نہ بیوی کا ساتھ، نہ اولاد کی خوشیاں… ہم گھر آ کے رات کو بستر میں دبک کے خوب روئے.. ہمیں خدا پہ بہت ترس آیا.. اتنا اکیلا… کاش ہم اسے مسجد (خدا کا گھر بتایا گیا تھا) سے اپنے ساتھ لے آتے، ہمارے گھر رہتا.. ہم اکٹھے سکول جاتے، ساتھ کھیلتے مگر….
پھر سکول میں بتایا گیا کہ ہم مٹی سے بنے ہیں، تو ہم کافی دن نہاتے ہوئے اپنے جسم کو کھرچتے اور نہا چکنے کے بعد تولیہ دیکھا کرتے تھے کہ مٹی تو نہیں اتر رہی ہماری.. بجائے اس کے کہ روز روز نہانے سے اور منہ ہاتھ دھونے سے ہم گھٹتے جاتے، ہم اور بڑھتے جاتے تھے، قد بڑھ رہا تھا، ہاتھ پاؤں لمبے ہو رہے تھے.. جانے کس مٹی سے بنے تھے ہم… اکثر ہم جب اماں کی بات نہ مانتے تو اماں کہتی کہ ڈھیٹ مٹی کے بنے ہو تم… شاید ہم کسی ڈھیٹ مٹی کے تھے…
پھر جب کچھ ابتدائی غیر نصابی سائنسی کتب تک رسائی ہوئی تو ہم عجیب سی کشمکش میں پڑ گئے… لیکن بھلا ہو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور والوں کا، جنہوں نے بیالوجی میں بھی قرآنی آیات سے ہمیں واپس وہیں لا کھڑا کیا، جہاں ہم بچپن سے کھڑے کرائے گئے تھے…
جوانی کے ایام، یقین مانیے، جوانی کی ضروریات و خواہشات کو پورا کرنے میں ہی صرف کرنے چاہئیں، سو ایسا ہی ہوا… مگر ایک اکیلے ہی سب کچھ کرتے خدا سے ایک تعلق پھر بھی رہا….
جب وقت نے دوڑ لگاتے ذرا بھر کو سانس لی تو ہم پھٹی آنکھوں سے، مٹی سے بنے جسم کی حقیقت، کڑکتی بجلیوں کی وجہ ، کائنات اور اس کے اندر ہوتی تبدیلیوں، موسموں کی آمد و رفت، بارشوں سے سمندری طوفانوں تک، زلزلوں سے پہاڑوں کے آگ اگلنے تک کی وجوہات کو دیکھ رہے تھے…
ہمیں خود پہ بہت ترس آیا