فارلینڈ کی ہفتہ وار فری مارکیٹ میں گرم موسم کی ناقابلِ برداشت شدت، خریداروں کی غیر معمولی تعداد اور بلند آوازوں کے شور نے دم گھونٹ دینے والا حبس پیدا کر رکھا تھا۔ اشیائے خوردونوش اور تازہ پھلوں، سبزیوں کی سستی خریداری کی وجہ سے گھریلو صارفین کے علاوہ چھوٹے دکاندار بھی بڑی تعداد میں اس ہفتہ وار فری مارکیٹ میں خریداری کیا کرتے تھے۔
یہاں چھوٹے چھوٹے سٹال لگا کر کمائی کرنے والوں میں فارلینڈ کے گوروں کے علاوہ مختلف لسانی، نسلی پس منظر کے دکاندار بھی موجود تھے۔ لیکن گفتگو کا ذریعہ البتہ انگریزی زبان ہی تھی، بھانت بھانت کے لہجوں کی انگریزی زبان۔ کئی دکاندار اونچی اونچی آوازوں میں اپنی کم قیمت اشیاء کی طرف گاہکوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھی میں ایک ستے ہوئے چہرے والا چینی سبزی فروش بھی تھا جو اس سارے ماحول میں بالکل الگ اور سخت بیزار دکھائی دے رہا تھا۔ وہ خاموشی سے کسی صارف کے لیے بھنڈیوں اور کریلوں کو تول کر لفافوں میں ڈال رہا تھا کہ اچانک اس نے کسی کو چینی زبان میں کہتے سنا:
“کیا یہ بینگن تازہ ہیں؟”
دکاندار نے بجلی کی سرعت سے نگاہ اٹھا کر اس طرف دیکھا جہاں سے آواز آئی تھی۔ آواز والی کا چہرہ چینی نہیں تھا۔ پھر اس نے اسی تیزی سے اپنی چاروں اطراف میں چینی زبان اور چہرے کی مطابقت تلاش کی۔ لیکن آس پاس کوئی بھی چینی عورت نہیں تھی۔ تب اس نے حیرت میں ڈوبا ہوا سوال ہوا میں اچھالا:
“یہ کس نے کہا؟”
“میں نے۔” غیر چینی چہرے والی عورت نے مسکراتے ہوئے چینی زبان میں جواب دیا۔
“ارے، تم چینی بول لیتی ہو؟”
چینی سبزی فروش کے بیزار چہرے کے تنے ہوئے عضلات پرمسرت حیرت کی ایک ہی ساعت میں ڈھیلے پڑ گئے۔ اس کی بے جان آنکھوں میں سے اس کی روح نے جھانکا اور چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ اس کے بعد اس نے تابڑ توڑ کئی سوال پوچھے، کہاں سے ہو؟ چینی زبان کیسے جانتی ہو؟ کب؟ کہاں؟ کیسے؟ ۔۔۔۔ اب ان دونوں کے آس پاس کی فضا میں قہقہے تھے اور ہم زبانی کے رشتے کا دھڑکتا ہوا احساس۔
[کوثر جمال]
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...