ہم یہ تو جانتے ہیں کہ ‘غزل’ کیا ہوتی ہے۔
عشقیہ بات چیت، عورت سے محبت کے بارے کلام کرنا اس کے لغوی معنی ہیں لیکن اس کا ایک اور بھی مطلب ہے؛ جب ہرن کا بچہ شکار میں پھنس جاتا ہے تو اس کے منہ سے نکلنے والی چیخ یا درد بھری آواز کو بھی غزل کہا جاتا ہے۔ آپ سوچیے ہرن کا بچہ جب شکار ہونے لگتا ہے تو وہ کیسی کربناک آواز نکالتا ہوگا۔۔۔ عورت کی کرب کے عالم میں نکلی چیخ بھی مجھے کچھ ایسی ہی سنائی دیتی ہے۔ میں بڑے سے بڑے حادثے کو دیکھ سکتا ہوں مگر عورت جب تکلیف سے کُرلاتی، چلاتی ہے تو میرے دماغ کے گنبد سے کچھ یوں ٹکراتی ہے کہ چھ فٹ کی یہ عمارت لرز کر رہ جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میں مرگ والے گھر نہیں جاتا، وہاں ایسی آوازیں اتنی بری طرح سے متاثر کرتی ہیں کہ میں کئی روز تک ٹھیک طرح سے سو نہیں پاتا۔ عجیب بھیانک خواب ذہن میں گھر کر جاتے ہیں اور اس مرگ پر برپا ہونے والا طوفان منوں مٹی تلے دفن مردے کے گوشت پوست سڑنے تک مجھ میں موجود رہتا ہے۔
کچھ ایسی ہی کربناک ‘غزل’ میں نے فلم ‘The Stoning of Soraya M’ میں سنی تھی اور کئی روز تک خود کو کوستا رہا کہ میں نے یہ فلم ہی کیوں دیکھی۔ عورت کا جسم نا کردہ گناہ کی سزا کے طور پر آدھا زمین میں گاڑ دیا جاتا ہے، ارد گرد مردوں کا ہجوم ہے، اس ہجوم میں اس کا شوہر اور بچے بھی شامل ہیں۔ پہلا پتھر پڑتا ہے، ضبط کرتی ہے، دوسرا پڑتا ہے۔۔۔ خون کی ایک دھار ماتھے سے چھوٹتی ہے اور ضبط ٹوٹتا ہے۔۔۔ روایات کے اسیر نشانے کی داد دیتے ہیں، سنگسار ہونے والی کے منہ سے ایک ‘غزل’ ہوا میں گونجتی ہے۔۔۔ اور آپ کے وجود کی دھجیاں بکھیر دیتی ہے، آپ سمجھ نہیں پاتے کہ آپ کا اپنا آپ کہاں کہاں بکھرا ہے۔ آپ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ گناہ ثواب جیسے الفاظ کو لغت میں شامل کرنے والا ایسی بے رحم سزائیں بھی ایجاد کر سکتا ہے اور پھر یہ انسان ان کو عملی شکل دینے والا اتنا سفاک بھی ہوسکتا ہے کہ ان سزاؤں کا بھار اٹھا سکے۔۔۔؟
یہ پتھروں کی حیوانی کہانی پتھر کے دور کی نہیں ہے، نوے کی دھائی میں فرانسیسی ایرانی صحافی اور ناول نگار فریدون صاحب جام ایران کے گاؤں کوہ پایہ میں آتا ہے تو ثریا کی خالہ اسے مشکلات سے گزر کر کہانی تھما دیتی ہے اور وہ جا کر ناول میں ڈھال لیتا ہے۔ 2009 میں ڈائریکٹر سیروس نورستہ اس کہانی کو سینما کی سکرین پر لاتا ہے اور ثریا منوچھری کی روح مژان مارنو میں حلول کر جاتی ہے جو ہمارے کانوں میں وہی چیخ کسی پگھلی ہوئی دھات کی طرح اتار دیتی ہے جو حقیقتاً دوسرا پتھر لگنے پر ثریا منوچھری کے وجود کو چیر کر نکلی ہوگی۔
حوصلہ ہے تو فلم دیکھ لیجیے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...