اس سال ہمارے چاند پر پہلی بار قدم رکھنے کے کارنامے کو پچاس سال مکمل ہو جائیں گے۔ اس وقت سے صرف بارہ لوگ ایسے ہیں جو چاند پر چل پھر چکے ہیں۔ یہ ان چھ مختلف مشنز کا حصہ تھے جو تین سال کے عرصے میں ہوئے۔ اپنے عروج میں اپالو کے پروگرام سے چار لاکھ لوگ منسلک تھے۔ بیس ہزار ادارے اور یونیورسٹیاں۔ اگر اس پر آنے والے لاگت کو آج کی کرنسی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ 145 ارب ڈالر کے قریب کا نمبر ہے۔ اس قدر خرچ کر کے پھر یہ سب کچھ کیوں ختم ہو گیا۔ ایسا کیا ہوا کہ ہم نے چاند پر جانا ہی چھوڑ دیا؟
رائٹ برادرز کی پہلی بار اڑان سے نیل آرمسٹرانگ کے چاند پر قدم رکھنے کے درمیان صرف 60 سال کا وقفہ تھا۔ آج کی غیریقنیت سے بھری دنیا میں تاریخ کا وہ دور ایک پرانے وقتوں کے عظیم کارنامے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جب سب کچھ ہی ممکن لگتا تھا۔ حالیہ برسوں میں ہم اس پروگرام کے اہم لوگوں کو بھی کھو چکے ہیں۔ نیل آرم سٹرانگ، جنہوں نے پہلا قدم رکھا؛ جین سرنان، جنہوں نے آخری قدم رکھا؛ اب ہم میں نہیں رہے۔ یہ رومانس ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔
جب امریکی صدر کینیڈی نے چاند پر جانے کا اعلان کیا تو اس پر بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ امریکی ملٹری کی رائے تھی کہ اس سے نہ صرف ملٹری بجٹ پر اثر پڑے گا بلکہ بہترین سائنسندان اور بہترین دماغ میزائل اور عسکری طیاروں یا ایروسپیس کے بجائے اس پروگرام پر کام کریں گے۔ کئی سائنسدانوں کا خیال یہ تھا کہ صرف ایک پروگرام پر اتنا زیادہ خرچ کرنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دوسرے کئی پروگرام فنڈ نہیں ہو سکیں گے۔ سول سوسائٹی میں کئی لوگوں نے مخالفت کی تھی کہ اس پروگرام کی وجہ سے تعلیم اور صحت پر ہونے والے خرچ پر اثر پڑے گا۔
چاند پر جانا ترک کر دینے کی کئی وجوہات تھیں۔ امریکہ ویت نام کی جنگ میں الجھ گیا جو 1968 سے 1975 تک جاری رہی۔ اس کی وجہ سے بجٹ پر کٹ لگے۔ سرد جنگ کا ٹوٹتا جمود اور پھر یہ احساس کہ ترجیحات کچھ اور بھی ہونی چاہیئں۔ لیکن دو بڑی وجوہات تھی جو باقی پر بھاری تھیں۔ ان کو سمجھنے کے لئے صدر کینیڈی کی مئی 1961 میں کانگریس میں کی گئی تقریر تک جانا پڑے گا اور ان حالات کو سمجھنا پڑے گا۔
نومبر 1960 میں جان کینیڈی امریکہ کے صدر منتخب ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب سوویت یونین خلائی پروگرام میں بہت آگے تھا۔ (تفصیل نیچے لنک میں)۔ نظریات کی جنگ کی دنیا میں یہ کامیابی سوویت امیج کی کامیابی تھی۔ اس کا توڑ کرنے کے لئے کچھ کرنا تھا۔ 20 اپریل 1961 کو کینیڈی نے نائب صدر لنڈن جانسن کو میمو بھجوایا کہ دیکھا جائے کہ کونسا خلائی پروگرام ایسا ہے جو امریکہ کو اس دوڑ میں آگے لے جا سکتا ہے۔ جانسن ناسا سے ملاقات کر کے تین تجاویز لے کر آئے۔ یہ سب اپالو پروگرام کی بنیاد پر تھیں۔ اپالو پروگرام مرکری پروگرام کا اگلا قدم تھا اور اس میں راکٹ کے تین سٹیج بنا کر زیادہ طاقت والے راکٹ بنانے کا پروگرام تھا، جس کی رینج چاند تک ہو سکے۔ اس وقت تک اس پروگرام کا کوئی واضح مقصد نہیں تھا۔
پہلی تجویز یہ تھی کہ ایک سپیس سٹیشن بنایا جائے۔ ناسا کا اس پر خیال تھا کہ سوویت بھی اس کو جلد کر لیں گے۔
دوسری تجویز یہ تھی کہ ایک خلاباز کو چاند کے گرد چکر لگانے کے لئے بھیجا جائے۔ اس پر بھی خیال یہ تھا کہ سوویت پروگرام کے لئے یہ اتنا مشکل شاید نہ ہو۔ وہ بغیر خلاباز والے مشن سے یہ کام پہلے ہی کر چکے تھے۔
تیسری تجویز یہ تھی کہ امریکی خلاباز کو چاند پر اتارا جائے۔ ناسا کا خیال تھا کہ سوویت کو اس میں دشواری ہو گی اور ایسا لگتا بھی نہیں کہ وہ اس طرف توجہ دے رہے ہیں۔ یہ دوڑ جیتی جا سکتی ہے۔
شروع میں کینیڈی چاند پر مشن بھیجنے کے بارے میں شبہات کا شکار تھے، جس کی وجہ اس کی بھاری قیمت تھی۔ جو اگلے پانچ برسوں میں نو ارب ڈالر تھی (آج کے حساب سے ستر ارب ڈالر)۔ لیکن یہ وہ واحد آپشن تھی جس سے ٹیکنالوجی میں اپنی برتری ثابت کر کے وقار بحال کیا جا سکتا تھا۔ عام تاثر ہے کہ کینیڈی خلائی پروگرام کے بڑے سپورٹر تھے اور اپالو پروگرام انہی کی وجہ سے ہوا لیکن جب ان کی ملاقات جب ناسا کے ایڈمنسٹریٹر جیمز ویب سے ہوئی (جس کا ٹرانسکرپٹ 2001 میں پبلک ہوا)، اس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ان کو خلائی پروگرام سے خاص دلچسپی نہیں ہے۔ ان کے لئے ایسا کرنے کی واحد وجہ سوویت پروگرام اور خاص طور پر یوری گیگرین کا چند ہفتے پہلے کامیابی سے خلا میں جانے کا جواب دینا ہے۔
اس کا دوسرا پہلو کیوبا میں بے آف پگز میں ہونے والی خفت تھی جو اپریل 1961 میں اٹھانا پڑی۔ اس تمام پس منظر کے ساتھ جب انہوں نے 25 مئی 1961 کو کانگریس میں تقریر کی اور کہا، “ہماری قوم کو یہ طے کر لینا ہے کہ ہم اس مقصد کو اس دہائی میں حاصل کر لیں گے۔ ہم چاند پر انسان کو اتاریں گے اور پھر اس کو بحفاظت واپس لے کر آئیں گے۔” تو اس وقت ان کا مطلب صرف ایک انسان کو ایک بار بھیجنے کا تھا۔ ایک خلاباز جو چاند پر اترے، امریکی جھنڈا گاڑے اور واپس آ جائے۔ کینیڈی کے لئے ایک سیاسی مقصد حاصل کرنے کے لئے سیاسی فیصلہ تھا۔ دنیا کو یہ دکھانے کے لئے کہ ٹیکنالوجی اور تنظیمی طاقت امریکہ جمہوری کیپپٹلزم کے پاس ہے اور یہ سوویت کمیونزم سے بہتر ہے۔
اگرچہ یہ دوڑ سوویت یونین کو ہرانے کے لئے تھی لیکن کینڈی نے دو مرتبہ الگ الگ موقعے پر سوویت یونین کو اس پروگرام میں اشتراک کی دعوت دی۔ پہلی مرتبہ خوردشیف سے جون 1961 میں ہونے والی پرائیویٹ ملاقات کے دوران اور دوسرے مرتبہ اقوامِ متحدہ میں ستمبر 1963 میں کی گئی تقریر کے وقت۔ اس پیش کش کو قبول نہیں کیا دیا گیا۔ کینیڈی کے قتل ہو جانے کے بعد یہ تجویز دونوں اطراف کی طرف سے ختم کر دی گئی۔
وقت کے ساتھ اپالو پروگرام ایک خلاباز کو بھیجنے کے بجائے دس مشنز لینڈ کرنے کا پروگرام بن گیا۔ کینیڈی کے قتل کئے جانے کے بعد یہ پروگرام ان کی چھوڑی ایک یادگار اور علامت۔ اپالو 1 کا حادثہ تین خلابازوں کی موت کا سبب بنا، جب وہ فلائٹ سے قبل ٹیسٹ کر رہے تھے، لیکن اس مشن کے عزم میں کمی نہیں آئی۔ اس حادثے سے یہ احساس بھی ہوا کہ یہ مشن کس قدر خطرناک ہے۔ بہت سے نامعلوم سے بھرا ہوا۔
چاند کے گرد چکر لگانے کا مرحلہ تو آسانی سے طے ہو گیا لیکن چاند پر اتارنے والا لینڈر بنانے میں توقع سے زیادہ وقت لگا۔ اپالو 11 کی لینڈنگ اور واپسی کو ٹھیک طریقے سے سمولیٹ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اور اس میں ہونے والی کسی بھی خرابی کا مطلب یہ تھا کہ اس کا عملہ واپس نہیں آ سکے گا۔ خلائی دوڑ کا آخری مرحلہ کرنے والے خلابازوں کی چاند پر تکلیف دہ موت، اس دوڑ کی جیت نہ ہوتی۔ لیکن جب تک سب کچھ ٹھیک ٹھیک نہ ہو جاتا، کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ یہ سب محنت کامیابی پر متنج بھی ہوتی یا نہیں۔
سوویت نے اپالو پروگرام کے دوران اپنا ریموٹ کنٹرولڈ لینڈر لوناخود اول اتارنے کی کوشش کی۔ یہ لینڈر فروری 1969 میں چاند تک پہنچا لیکن یہ واپس اڑنے میں ناکام رہا۔ اس کو کئی سال تک راز رکھا گیا۔ سوویت کا اگلا لینڈر فروری 1970 میں چاند تک پہنچا لیکن اس وقت تک امریکہ خلابازوں کو کامیابی سے اتار چکا تھا اور چاند پر جھنڈا گاڑ چکا تھا۔ دو خلاباز ساڑھے اکیس گھنٹے چاند پر گزار کر بحفاظت واپس پہنچ چکے تھے۔ یہ دوڑ جیتی جا چکی تھی۔ کینیڈی کا کیا گیا اعلان رنگ لا چکا تھا۔
اس کے بعد 9 مزید مشن پلان کا حصہ تھے۔ پہلا مشن اصل اور بڑا اعلان تھے۔ باقی مشن سائنس کے لئے تھے اور اس تمام بڑے انفراسٹرکچر کو استعمال کرنے کے لئے۔ لیکن اس کے علاوہ کوئی بڑا گرینڈ پلان تھا ہی نہیں کہ پہنچ گئے تو پھر ہو گا کیا؟ آگے کرنا کیا ہے؟ ان سوالات کی طرف اس وقت بھی اشارہ کیا گیا تھا لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
جب کامیابی کا ابتدائی جوش و خروش ٹھنڈا پڑا تو پھر یہ سوال واپس اٹھنا شروع ہوئے۔ یہ سب تو ہو چکا ہے، یہ تو پہلے بھی دیکھا تھا۔ اگلے مشنز پر عوامی رائے یہ رہی۔ چاند پر جانا دنیا بھر کے اخباروں کی پہلی خبر ہوتی تھی۔ یہ پچھلے صفحوں کی خبر بن گئی یا کچھ ملکوں میں اخبار کا حصہ بھی نہ بنی۔ اس میں دلچسپی کا لیول ویسے گرا جیسے پتھر پانی میں ڈوبتا ہے۔ جب عوامی دلچسپی ہی نہ ہو تو پھر اس پروگرام کا بجٹ کاٹنے والے چاقو نکل آئے۔ اپالو 12 کے بعد ناسا نے اعلان کیا کہ وہ پچاس ہزار ملازمتیں ختم کر رہے ہیں اور اب ان کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار رہ جائے گی۔ ان کو ختم کرنے سے پہلے ہی یہ لیول 1960 کے مقابلے میں نصف ہو چکا تھا۔ اپالو 20 کو منسوخ کر دیا گیا۔ اس کی جگہ پر سکائی لیب بھیجی جائے گی۔
اپالو 13 کا مشن خبروں اور پروگرام میں دلچسپی کو ایک بار پھر واپس لے کر آیا لیکن تمام غلط وجوہات کی بنا پر (تفصیل نیچے لنک سے)۔ اس میں سوال بس یہ تھا کہ کیا خلاباز زندہ واپس پہنچیں گے کہ نہیں؟ اس کے بعد فوری طور پر آوازیں آنا شروع ہو گئیں کہ اپالو پروگرام کو بند کر دیا جائے۔ ناسا اس پروگرام کو ایک ناکام مشن کی صورت میں ختم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے فیصلہ یہ ہوا کہ دو مشن منسوخ کر دئے جائیں گے اور تمام اہم مقاصد اپالو 17 کے ذریعے حاصل کئے جائیں گے جو چاند کا آخری سفر ہو گا۔
انسانیت کی عظیم چھلانگ اس کے بعد لو ارتھ آربٹ تک محدود رہ گئی۔ بڑے راکٹ جو چاند تک پہنچ سکیں، یہ ماضی کا قصہ بن گئے۔ چاند خلائی تاریخ کا ایک فُٹ نوٹ بن گیا۔ خلانوردی سے نظامِ شمسی کو جاننے کا کام روبوٹس کے سپرد کر دیا گیا۔ اپالو 17 پر سرنن کے آخری قدم نے اپالو کا باب ختم کر دیا۔
اکانومسٹ نے اس پر ایک دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ اپالو کے پروگرام کو سوویت نظریے کا مقابلہ کرنے کے لئے چنا گیا تھا۔ یہ ثابت کیا جائے کہ امریکی فری مارکیٹ سسٹم سوویت مرکزی کنٹرولڈ سسٹم سے بہتر ہے۔ لیکن اس تمام پروگرام میں امریکی پبلک ریسورس، پیسے اور مرکزی حکومتی تنظیم کو استعمال کیا گیا۔
اس کو پڑھنے کے لئے یہاں سے