ہم نشینی اگر کتاب سے ہو
اس بہتر کوئی رفیق نہیں
کون کہتا ہے یہ کتاب کی آخری صدی ہے
نہیں صاحب یہ کتاب کی آخری صدی نہیں
بلکہ یہ تو کتاب کی صدی ہے
اگر ہم زندہ ہیں تو کتاب کو بھی زندہ رکھنا ہو گا
اور کتاب ژندہ ہے تو ہم بھی زندہ ہیں ۔
کتاب کو ژندہ رہنا ہوگا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھی زندہ رہیں
ہمیں کتاب کو زندہ رکھنا ہو گا
یہ سب سے بڑھ کر ہم مسلمانوں کی زمہ داری ہے
کہ ہم لوگ ہی تو کتاب کے وارث ہیں
کتاب والے ہیں
کتاب کے خوگر ہیں
کتاب کے ساتھی ہیں
کتاب زندگی بھی ہماری ہے اور اسکے محافظ بھی ہم ہیں
ہمیں اپنا یہ مشن مکمل کرنا ہے
ہمیں ہی یہ ذمہ داری بطرز احسن نبھانی ہو گی
سارا الہامی و غیر الہامی علم کتاب ہی میں مرکوز و مستور ہے
انسان کی ذہنی اپچ نے آڑھی ترچھی لکیروں کو لفظ کا نام دیا اور پھر انہی لفظوں کو کتابوں میں محفوظ کر کے آنے والی نسلوں تک آفاقی پیغام پہنچایا
کتابوں نے ہمارے ماضی کو حال کا آئینہ بنایا ہے اور ہمارے حال کو بھی ہمارے مستقبل سے جوڑنے کا سبب کتابیں ہی ہوں گی
انکی اہمیت سے کس کو انکار نہیں
کہ انکار ممکن ہی نہیں
انکا انکار اپنی زات سے انکار کے مترادف کے مترادف ہے
اور اپنی اقدار سے انکار کا دوسرا نام ہے
انکل سرگم نے بجا کہا ہے
کتابیں باتیں کرتی ہیں ہمارا دل بہلاتی ہیں
کتابیں صرف باتیں کر کے ہمارا دل ہی نہیں بہلاتیں یہ ہمیں زندگی کا درس بھی دیتی ہیں
ہمیں راستہ بھی دکھاتی ہیں
ہمیں جینا بھی سکھاتی ہیں
آج کل کہ صورت حال کو اگر ذہن میں رکھیں تو انٹرنیٹ کی وجہ سے ہم سوشل میڈیا کے عادی ہو چلے ہیں
لوگ کتابیں خریدنے سے زیادہ پی ڈی ایف ایڈیشن کی طرف زیادہ راغب ہیں
وجہ اس کی یہ ہے کہ اس پر ان کا کچھ خرچ نہیں آتا
مفت کے مزے لے لیتے ہیں لیکن اس طرح وہ لکھاری اور پبلشر کی حق تلفی کرتے ہیں
ان کا نہیں سوچتے جن کا تعلق کتاب سے ہے
خواہ وہ لکھاری ہو ۔۔۔پبلشر ہو ۔۔۔۔یہ کتابیں فروخت کرنے والا –
مہنگائی نے عوام آدمی کی مانا کہ کمر توڑ کے رکھ دی ہے لیکن اگر باقی معاملات جیسے تیسے چل رہے ہیں تو کتاب کیون نہیں
یہ ہماری زندگی سے کیوں نکل رہی ہے
کتابیں زندہ رہیں گی
انھیں زندہ رہنا ہو گا
اگر ہمیں یہ بتانا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں تو ہمیں کتاب کا سوچنا ہو گا
کتاب سے اپنا رستہ مضبوط بنانا ہو گا
اب آخر میں مجھے اپنے بچپن کی ایک عادت تھی کہ اپنے بیگ میں نئی پرانی سبھی کتابیں بھر لیا کرتے تھے کہ لوگ کہیں ہم بڑی جماعت میں پڑھتے ہیں
یہ دیگر بات کہ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ بڑی جماعتوں والے تو دو کتابیں بغل میں دبا کر کالج پہنچ جاتے ہیں اور بیگ تک اٹھانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے ۔۔۔