ہم میں سے کوئی بھی اکیلا نہیں۔ ہزارہا قسم کے جانداروں کا گھر ہے۔ یہ ہمارے اوپر رہتے ہیں۔ اندر رہتے ہیں۔ کبھی کبھار تو خلیوں کے اندر بھی۔ ان جانداروں میں سے زیادہ تر بیکٹیریا ہیں۔ اس کے علاوہ کئی اور ننھے منے آرگنزم جس میں فنگس ہے اور آرکیا (وہ پرسرار جاندار جو ہر قسم کے حالات میں رہنے کے ماہر ہیں)۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں وائرس بھی۔ ہمارے جسم کے خلیوں کی تعداد 30 ٹریلین ہے۔ ہم میں رہنے والے بیکٹیریا کی تعداد 39 ٹریلین۔ ہم ان کے لئے پوری دنیا ہیں۔
یہ صرف ہمارے ساتھ نہیں۔ سفنج، جو کہ سادہ ترین جانداروں میں سے ہیں جس کا جسم صرف چند خلیوں کی موٹائی والا ہے، اس کو بھی اگر مائیکروسکوپ کے نیچے رکھیں تو مائیکروبائیوم کی ایک پوری دنیا ملے گی۔ اس قدر زیادہ تعداد میں کہ پورا سفنج اسی سے ڈھکا ہو گا۔ چیونٹیاں کالونی میں رہتی ہیں اور ایک کالونی میں کئی ملین چیونٹیاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن ہر چیونٹی اپنی اندر ایک پوری کالونی ہے۔ ایک برفانی بھالو جو برف پر اکیلا جا رہا ہے۔ دور دور تک سفید برف کے سوا کچھ اور نہیں، ان جراثیم سے اٹا پڑا ہے۔ بار ہیڈ مرغابی ان جراثیم کو ہمالیہ سے اوپر لے کر جاتی ہے۔ ہاتھی سیل ان کو سمندر کی تہہ تک۔ جب نیل آرمسٹرانگ اور بز آلڈرن نے چاند پر قدم رکھا تو وہ عظیم چھلانگ ان جراثیم کے لئے بھی تھی کہ وہ بھی چاند تک جا پہنچے تھے۔
اورسن ولز نے کہا تھا، “ہم دنیا میں اکیلے آتے ہیں، اکیلے رہتے ہیں اور اکیلے ہی یہاں سے رخصت ہوتے ہیں”۔ ان کی بات تکنیکی اعتبار سے غلط تھی۔ جب ہم اکیلے بھی ہوتے ہیں تو ہم کبھی اکیلے نہیں ہوتے۔ ہم سمبیوسس میں رہتے ہیں۔ ایک زبردست اصطلاح جو بتاتی ہے کہ ہم سب کے ساتھ مل کر باہمی تعاون کے رشتے میں کیسے رہتے ہیں۔ جب ہم کھاتے ہیں تو ہم ان کو بھی کھلا رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم سفر کرتے ہیں تو یہ ہمارے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ جب ہم فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی خوراک بن جاتے ہیں۔ ہمارے اپنے اندر یہ کالونی ہزاروں قسم کے انواع کی ہے۔ یہ ایک پورا آباد جہان ہے۔ اگر کسی طرح ہمارے تمام خلیے اچانک غائب ہو جائیں تو ان جراثیم کا ہیولا باقی رہ جائے گا۔
کئی بار اس تصور کو سمجھنا مشکل لگتا ہے۔ کہ ہماری آنتوں میں یا صرف ایک خلیے میں ہی کیا کچھ ہو رہا ہے۔ زمین پر طرح طرح کے ایکوسسٹم ہیں۔ جنگل، چراگاہیں، مرجان، صحرا، نمکین دلدل۔ ہر ایک طرح کا ایکوسسٹم اپنے اندر اپنی طرح کی زندگی رکھتا ہے۔ ہر جانور کے ساتھ بھی ایسا ہے۔ منہ، معدہ، آنت، کوئی بھی حصہ جو بیرونی دنیا سے ملاتا ہے۔ ہر ایک جگہ کے اندر اپنی ہی الگ خاصیتیں رکھنے والا ایکوسسٹم آباد ہے۔ جن تصورات کے ذریعے ایکولوجسٹ ماحولیاتی ایکوسسٹم کا بتاتے ہیں، وہی ہمیں خوردبین کے نیچے نظر آتے ہیں۔ تنوع۔ خوراک کے جال جہاں پر مختلف جاندار ایک دوسرے کو کھاتے ہیں۔ کی سٹون انواع جو سب سے اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ پیتھوجنز، وہ انواع جو اس سسٹم کو بگاڑ دیتی ہیں۔ ان کا توازن بگڑ جانے پر اس ایکوسسٹم کی خرابی جو ان کے میزبان کے لئے بیماری بن جاتی ہے۔
جب خوردبین تلے ایک دیمک یا ایک سفنج یا ایک چوہے کو دیکھ رہے ہیں تو ہم خود اپنے آپ کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ ان کے جراثیم ہم سے مختلف ہیں لیکن ان کے سسٹم انہی اصولوں کے تحت چلتے ہیں جن کے تحت ہمارے۔ کوئی بھی تنہا نہیں۔ ان نظاموں کے اپنے اندر ہر وقت مسلسل مذاکرات چل رہے ہیں۔ یہ جراثیم ایک میزبان سے دوسرے میں بھی پھلانگ جاتے ہیں۔ جاندار سے مٹی اور پانی میں۔ عمارتوں اور ماحول میں۔ اور پھر کسی دوسرے میزبان میں بھی۔ یہ ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں اور اس دنیا کو۔ ان میں سے چند ایک بیمار بھی کر دیتے ہیں۔ لیکن اس دنیا پر اصل حکومت ان کی ہے۔
زولوجی دراصل ایکولوجی ہے۔ ہم جانوروں کی زندگی کو ان کے جراثیم کے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔ ایک کیڑا یا ایک ہاتھی، ایک جھینگا یا ایک کیچوا۔ دوست یا والدین۔ ہم ان کو ایک فرد کے طور پر تصور کرتے ہیں۔ بہت سے خلیوں پر مشتمل ایک جسم۔ جس کا ایک دماغ ہے اور ایک جینوم۔ ایسا سمجھنا بس ایک خوشگوار اور سادہ تصور ہے لیکن بس ایک فِکشن۔ ایسا نہیں۔ ہر کوئی ایک فوج ہے۔ کوئی بھی “میں” نہیں، “ہم” ہے۔ اورسن ولز کی کہی تنہائی کی بات بھول جائیں۔ اس کے مقابلے میں والٹ وہٹ مین کی بات ٹھیک ہے کہ “میں بڑا ہوں، مجھ میں کئی جہاں آباد ہیں