یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بہت مشکل ہے۔ آج جو یورپ روشنیوں سے جگماتا ہے، کل تک اس کی گلیان کیچڑ سے بھری ہوتی تھیں۔ آج یورپ اور امریکہ میں آباد ہونا ایشیا اور افریقی لوگون کے لیے کوشش اور ایک سہانا سپنا ہے۔ پانسو برس پہلے ایسے ہی خواب یورپ کے شہری ایشیا کے لیے دیکھا کرتے تھے۔ ایشیا کے شہر اس وقت یورپیوں کے لیے ایک الیف لیلوِی کشش رکھتا تھا۔ یہاں کے لوگ روزگار کی تلاش میں ایشیا کے مختلف شہروں میں مارے مارے پھرتے تھے۔ اس دور کی کتابین دیکھیں تو ہمیں ان لوگوں کا تذکروں سے بھری ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے یورپ کے نوجوان تعلیم کے لیے اندلس جایا کرتے تھے اور یورپ کی یونی ورسٹیوں میں اعلی تعلیم کے لیے عربی پڑھنے لکھنے کی انیسویں صدی تک لازمی شرط ہوا کرتی ۔ کتنے لوگوں نے عربی کتابوں نرجمہ کراکے اور نظریات اپنا کر اپنے نام سے منسوب کرلیں۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یونسکو کی رپوٹیں کہہ رہی ہیں۔
لیکن سوال وہیں کھڑا ہے ہم یورپ کیوں بن نہ پائے۔ یہ ایک ایسا سوال کہ اس پر اس پر سیکڑوں مفکرین نے بحث کی ہے۔ مگر کوئی شافی جواب جو لوگوں کو مطمعین کردے نہیں مل نہیں سکا۔ حالانکہ ارسطو سےلے کر ایلن بی اور موجودہ دور مین اس پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ بقول ابن خلدون ہر قوم کی ایک عمر ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ ذوال پزیر ہوجاتی ہے۔ ابن خلدون یہ عمر ایک سو بیس سال بتاتا ہے۔ پہلے دور میں جدوجہد کا ہوتا ہے اور دوسرا دور میں استحکام ہوتا ہے اور دولت کی ریل پیل ہوجاتی ہے۔ تیسر دور دولت کی ریل پیل کی وجہ سے لوگ عیاشی میں پڑھ جاتے ہیں ۔ مگر ہم قوموں کی تاریخ میں یہ بہت مختصر مدت ہے۔ قدیم زمانے میں بابل، مصر اور ایران نے بہت سی قومون نے عروج حاصل کیا اور ہزاروں سال تک باقی رہی۔ اس کی مثال قدیم مصر، روم، قسطنطنیہ اور خلافت عباسیہ کی ہیں۔ جن پر برا وقت بھی آیا مگر کسی نہ کسی صورت میں باقی رہی۔ اس کی مثال سلطنت رومہ ہے جو روم میں ذوال پزیر ہوئی تو قسطنطنیہ مین بھی ایک ہزار سال تک باقی رہی۔ یا اشکانی سلطنت چارسو سال تک باقی رہی، جس نے اپنے عہد ذوال میں بھی روم کے دو طاقت ور فوجون کو شکست دی ۔ جن میں ایک کا سربراہ پومپی تھا ۔ اس نے بالآخر ایک ایسی طاقت جو اسی سرزمین سے اٹھی تھی یعنی ساسانیوں کے لیے جگہ خالی کردی۔ ہم دیکھتے ہیں ساسانیوں کے عروج یعنی نوشیروان کے بعد صرف 74 سال میں چودہ بادشاہ ہوئے۔ آخر کار مسلمانوں کے ہاتھو تین سو سال کے بعد سرنگوں ہوگئی ۔ جب کے خلافت عباسیہ پانسو سال رہی اور اس کے سامنے بیسون قوموں نے عروج حاصل کیا اور تاریخ کے صفحوں سے غائب ہوگئں۔ لیکن خلافت عباسیہ لولی لنگڑی کسی نہ کسی طرح قائم رہی۔
یہاں وہی سوال ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ ہم یورپ کیوں نہ بن سکے؟ ابن خلدون کے عمر کے دورانہ سے میں متفق نہیں ہوں۔ مگر یہ ضرور مانتا ہوں کہ قوموں کی تاریخ میں یہ تین دور ضرور آتے ہیں ۔ مثلاً اکبر آگرہ سے رات دن کے سفر کے بعد صرف تین دن میں کابل پہنچ کر وہاں کی بغاوت کو سرد کی تھی۔ جب کہ اس کا پوتا اورنگ زیب نہایت عیش و آرام اور جاہ و جلال سے ایک ماہ کے سفر کے بعد قندھار ایرانیون کے قبضہ سے چھڑانے کے لیے پہنچا تھا اور ناکام رہا۔ اس کا مطلب یہی ہے اورنگ زیب کے دور سے ہی مغلوں کا ذوال شروع ہوگیا تھا۔ ویسے بھی ہر عروج اس کے ذوال کا اعلان ہوتا ہے۔
یہ عجیب بات ہے کم از کم ہم پاکستانیون نے پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کی مگر اس کے استحکام کے لیے جدوجہد کرنے کے بجائے تن آسان ہوگئے۔ ہم اس کے استحکام کے بجائے عیش و آرام کے دلدادہ ہوگئے اور اس کے لیے محنت کرنے کے بجائے شاٹ کٹ، سازشوں، ناجائز طریقوں سے اپنا مقاصد کے حصول میں پڑھ گئے۔ میں کسی ایک طبقہ کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ اس ڈور تمام لوگ شریک ہیں۔ ہر ایک کو عیش و آرام اور راتون رات دولت مند بننا چاہتا ہے۔ جہد اور محنت کے بجائے، ناجائزہ ، شفارش اور تعویز گنڈوں تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے جب ہم اپنے وطن سے مخلص نہیں ہیں تو اب ہم صرف یورپ بننے کا خواب دیکھ سکتے ہیں اور تباہی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔