میں تیسری کلاس میں تھا اور اس وقت ہم ٹندو محمد خان میں رہتے تھے۔ میرے والد ایک سرکاری ملازم تھے اور اچھے شاعر بھی تھے اس لیے وہاں کے ادبی حلقوں میں معروف تھے۔ میں ان دنوں کراچی آیا ہوا تھا کہ رات کے وقت پاپا کراچی پہنچے کہ کل تمہارے امتحان ہیں صبح سویرے گھر چلنا ہے۔
ہم اعلی صبح باپ بیٹا تایا کے گھر سے نکلے اور راستہ میں پاپا نے بی پی کے بند اور اس طرح چند چیزیں لیں اور سٹیشن روانہ ہوئے ۔ سٹیشن کے باہر سے ہی جنگ اخبار خریدا کیوں کہ اس زمانے میں اخباروں میں ایک دن بعد کی تاریخ درج ہوتی تھی اور اکثر شہروں کی طرح ٹندو محمد خان میں دوسرے دن پہنچتا تھا۔ ہم ٹرین میں بیٹھے اور حیدرآباد کے لیے روانہ ہوئے ۔
حیدرآباد پہنچ کر بسوں اڈے کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں ایک وین میں ایک آدمی کی جگہ تھی پاپا نے اس وین میں مجھے بٹھا دیا اور خود بس میں بیٹھ گئے ۔ میرے ساتھ پلاسکٹ کی ٹوکری تھی اس میں یہ سب چیزیں جن اوپر کا ذکر ہوچکا تھیں۔ میرے بیٹھتے ہی وین روانہ ہوئی۔
وین جب چلی تو میں نے ٹوکری میں اخبار نکالا اور اسے پڑھنا شروع کر دیا ۔ جب میں نے اخبار پڑھنا شروع کیا تو وین میں بیٹھے ہوئے مسافروں میں کچھ بے چینی پھیلی۔ حالانکہ اخبار کا مطالعہ کرنے پر عام مسافر کہاں توجہ دیتے ہیں۔
اصل میں وین کے تمام مسافر میرے علاوہ ایجوکیشن کے محکمہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ اس میں انسپکٹر اور عملہ کے دوسرے اراکین تھے اور ٹندو محمد خان میں اسکول کالینے جارہے تھے ۔ اس زمانے آج کی طرح پیبر نہیں ہوتے تھے ۔ بلکہ ایجوکشن کا عملہ آتا تھا اور بچوں کا امتحان لیتا تھا ۔ چوں کہ ان کا تعلق ایجوکشن کے محکمہ سے تھا اور وہ بچوں کا امتحان لینے جارہے تھے اور ان کے لیے حیرت کی بات تھی کہ ایک کمسن بچہ اخبار کا مطالعہ کر رہا ہے اور ان کے درمیان یہ بحث شروع ہوگئی کے کہ یہ اخبار پڑھ رہا ہے یا نہیں پڑھ رہا ہے ۔ ان سے ایک مجھ سے پوچھا کیا اخبار پڑھ رہے ۔
کیا تمیں نظر نہیں آرہا ہے ۔ میں نے اکھڑ پن سے جواب دیا ۔
اس میں کیا لکھا ہے ، اس نے دوبارہ پوچھا ،
تم خود ہی پڑھ لو ۔ میں نے ویسے ہی روکھے پن سے جواب دیا ۔
غرض وہ مجھ سے مختلف سوالات کرتے گئے اور میں میں نے اکھڑ پن سے جوابات دیتا رہا ۔ اس میں میرے سامان کے بارے میں تھے کیا مثلاً بی پی کے بند کے بارے پوچھا یہ کیا ہے ؟ میں نے جواب میں اگر نہیں پتہ ہے تو خاموش بیٹھے رہو ۔ مگر وہ وقفہ وقفہ سے میرے سے سوالات کرتے رہے اور میں ویسے ہی اکھڑ پن سے جواب دیتا رہا ۔ شاید انہیں مجھ سے سوالات کرنے میں مزا آرہا تھا ۔ بہرحال انہوں نے اندازہ لگالیا کہ میں واقعی اخبار پڑھ رہا ۔ تقریباً ایک گھنٹے کا راستہ تھا اور ہم ٹندو محمد خان پہنچ گئے ۔ وہ وین بجائے بس اسٹاپ کے میرے اسکول کے سامنے جاکر رکی ۔ شاید انہوں نے وین والے سے بات کرلی ہوگی ۔ وین خالی ہوگئی تو میں بھی اتر گیا اور وہ سب لوگ اسکول چلے گئے مگر میں نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ میں نے سوچا کہ پاپا میرا بستہ لے کر بس اسٹاپ پر پہنچیں گے اس لیے میں بس اسٹاپ چل دیا ۔ بس اسٹاپ پہنچا تو پاپا مجھے سائیکل پر آتے ہوئے نظر آئے ۔ مجھے دیکھ کر تم اسکول سے یہاں کیوں آئے ، بہرحال مجھے سائیکل پربیٹھایا اور اسکول چھوڑدیا ۔
میں اپنی کلاس میں جا کر بیٹھ گیا ، ہمارے استاد نے مجھے کچھ نہیں کہا ۔ کیوں کہ وہ خود ہمارے گھر آکر پاپا کو بتاگئے تھے کہ پرسوں امتحان ہے معین کو کراچی سے لے آئیں ۔
ہماری کلاس میں وہی انسپکڑ صاحب غالباً جو راستہ میں مجھ سے سوالات کر رہے تھے کلاس کا امتحان لینے آگئے ۔ میری کم عمری تھی اور مجھے اتنا شعور ہی نہیں تھا کہ وہی صاحب امتحان لینے آئے ہیں اور میں توجہ ہی نہیں دی تھی کہ وین میں کون کون بیٹھا ہے اور میرا رد عمل عمر کے حساب سے تھا ۔ انہوں نے کچھ رہاضی کے سوالات کروائے اور پھر ہر ایک بچے سے کچھ سوالات کرتے اور اس سے کوئی نظم سنتے ۔ میرا نمبر آیا تو انہوں نے مجھ سے ہمدردی اقبال مشہور نظم سنانے کے لیے کہا ۔
ابھی میں پہلا شعر ہی سنا رہا تھا کہ وہ اچانک سیٹ سے اچل پڑے ، ارے یہ تو وہی ہے جو راستہ بھر میرے پر روب جھاڑتا رہا ۔ اب تو میں اس کا اچھی طرح امتحان لوں گا ۔
ہمارے استاد نے یہ سن کر انسپکٹر صاحب سے کہا سر یہ بہت ہوشیار بچہ ہے ۔
ہاں یہ تو میں جانتا ہوں یہ سارے راستے اخبار پڑھتا ہوا آیا اور میرے ہر سوال کے بارے میں مجھے کھری کھری سناتا رہا ۔
ہمارے ماسٹر صاحب سن کر خاموش ہوگئے ۔
پھر مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی صاحب ہیں جو وین میں ساتھ بیٹھے تھے اور مگ میں کچھ نہیں بولا خاموشی کھڑا رہا ۔
انسپکٹرصاحب نے اپنے ساتھ آئے ہوئے ایک دو افراد کو اور بلا لیا ۔
ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب بھی آگئے ۔
انسپکٹر صاحب نے اپنے ساتھ آئے ہوئے افراد سے کہا یہ وہی لڑکا ہے نا جو کہ سارے راستے اخبار پڑھتا رہا اور میں جب بھی کچھ پوچھا مجھے کھڑی کھڑی سناتا رہا ۔
ہاں سائیں یہی ہے اب اس کا حشر برا کرنا ۔ ان ساتھیوں میں ایک نے مجھے ڈرانے کی کوشش کی
ہاں اگر یہ فیل ہوگیا تو اس کا حشر برا کروں گا ۔ انسپکٹر صاحب نے جواب دیا ۔
پھر انسپکٹر صاحب مجھے اپنے سامنے بلویا اور مجھے سوالات شروع کر دیئے ۔ ان کے سوالات عام جنرل نالج کے تھے ۔ مثلاً فلاں سیاسی پارٹی کا سربراہ کون ہے ۔ اسمبلی کا اسپیکر ، امریکہ کا صدر ، اس طرح کے سوالات کئے ۔ میں ایک آدھ کے علاوہ سب کے جوابات درست دئیے ۔ انہوں نے مجھ شاباشی دی کہ واقعی تم اخبار پڑھتے ہو اور کہا اس سے جو کچھ میں نے پوجھا ہے اس کے جواب تو میٹرک کا لڑکا بھی نہیں جانتا ہے ۔ یہ بہت ہوشیار بچہ ۔
وہ انسپکٹر صاحب ہمارے گھر بھی آئے تھے ۔ انہوں نے پاپا پوچھا تھا کہ آپ کا بچہ ماشاء اللہ ہوشیار ہے ، مگر راستہ میں میں نے جو کچھ پوچھا اس کے جواب نہیں دیئے ۔
اصل میں ہم نے اپنے بچے کو ایسی تربیت کی ہے کہ وہ اجنبیوں سے فری نہیں ہونا ۔ پاپا نے جواب دیا ۔
آپ میری یہ داستان سن کر یہ نہ سمھیں کہ شاید میں کمر عمری میں ہی سقراط بن چکا تھا ۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں تھا ۔ مجھے پڑھنے کا چسکا ضرور تھا اس لیے جو کچھ ملتا تھا وہ پڑھ لیتا تھا مگر سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا ۔ کیوں کہ میرا شعور ابھی پختہ نہیں ہوا تھا ۔ اخبار اور کتابوں کا مطالعہ کرلیتا تھا ۔ میرا ذوق اور شوق بچوں کہانیوں اور میری علمیت جنرل نالج تک محدود تھی ۔ کوئی اس عمر میں عالم بنے کا دعویٰ کرے تو غلط ہے ، ہاں وہ حروف شناس ہونا اور بات ہے لیکن انہیں سمجھنے کے لیے جس شعور کی ضرورت ہوتی وہ یہ شعور تو مجھے صحیح معنوں میں میٹرک کے بہت بعد میں آیا تھا ۔ ہوسکتا ہے ۔