2021 میں خلا میں بھیجی جانی والی خلائی دوربین آج ہمیں اربوں نوری سال دور اور بگ بینگ سے کچھ عرصہ بعد کی بننے والی کہکشائیں دکھا رہی ہیں۔ اس بارے میں
سوشل میڈیا پر اس طرح کے عنوانات لگائے جاتے ہیں کہ ہم ماضی کو دیکھ رہے ہیں۔ گویا ماضی کو دیکھنا کوئی انہونی بات ہو۔ ہم ہر روز ہر وقت ماضی ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جی !! اسے سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان دراصل دیکھتے کیسے ہیں؟
آپکی آنکھ کو کسی شے کو دیکھنے کے لئے روشنی درکار ہوتی ہے۔ بغیر روشنی کے اندھیرے کمرے میں آپ کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ یوں پہلی بات تو یہ ثابت ہوئی کہ روشنی کا دیکھنے سے تعلق ہے۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ انسانی آنکھ دیکھتی کیسے ہے؟ جب کسی شے سے روشنی ٹکراتی ہے تو وہ آس پاس کے ماحول میں بکھرتی ہے۔ مثال کے طور پر آپکے کمرے میں موجود بلب کی روشنی آپ سے دو فٹ دور لگے پنکھے سے ٹکراتی ہے اور پھر آپکی آنکھ میں پڑتی ہے۔ آپکی انکھ میں موجود مخصوص خلیے روشنی کے لیے حساس ہوتے ہیں۔ وہ پنکھے سے بکھری اس روشنی کو آنکھ میں پڑنے پر برقی سگنلز میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ سگنلز دماغ تک نروز کے ذریعے پہنچتے ہیں اور دماغ انہیں جانچ کر یہ بتاتا ہے کہ سامنے پنکھا پڑا ہوا ہے۔ اب اس سارے عمل میں کچھ وقت لگتا ہے یعنی چند مائیکروسیکنڈز۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ آپ چند مائیکروسیکنڈز ماضی میں دیکھ رہے ہیں۔ اب پنکھا تو چونکے آپ سے کچھ فٹ دور تھا اور روشنی کی رفتار جو 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے، اسے آپ تک پہنچنے میں ایک سیکنڈ کا بھی شاید اربواں حصہ لگا ہو تو آپکو محسوس نہیں ہوا پر آپ ماضی دیکھ رہے تھے۔ مگر اسی اُصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جو چیز جتنی دور ہو گی، اُسکی روشنی اُتنی ہی دیر سے ہم تک پہنچے گی۔ مثال کے طور پر سورج کی روشنی زمین پر آنے میں تقریباً ساڑھے آٹھ منٹ لگتے ہیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم جو سورج دیکھ رہے ہیں وہ ساڑھے آٹھ منٹ پہلے کا ہے۔ یعنی ہم سورج کو ماضی کی میں حالت دیکھ رہے ہیں۔ وہ اس لیے کہ سورج ہم سے اتنا دور ہے کہ اسکی روشنی کو ہم تک پہنچتے اتنا وقت لگتا ہے۔
اسی طرح آپ جب آسمان میں ستارے دیکھتے ہیں تو آپ اُنکی ماضی کی حالت دیکھتے ہیں۔ کوئی ستارا اب اس وقت میں کیسا دکھتا ہے یہ آپ نہیں جان پاتے بالکل ویسے ہی جسیے آپ یہ نہیں جان پاتے کہ آپکے سامنے لگا پنکھا "اب” یعنی موجودہ "حال” میں کیسے دِکھتا ہے۔
اب جب لوگ یہ سنتے ہیں کہ ہم ماضی میں دیکھ سکتے ہیں تو وہ یہ سوچتے ہیں کہ کیا جیمز ویب سے ماضی کی زمین کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جب زمین پر کروڑوں سال پہلے ڈائنوسارز پھر رہے تھے؟ اسکا جواب آپکی عقل کیا دیتی ہے؟ اب تک اوپر تحریر میں جو بیان کیا ہے اسکے تناظر میں آپ کیا کہتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے یا نہیں ؟
اسکا سیدھا اور عقلی جواب یے کہ نہیں۔ اسکی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ جیمز ویب زمین سے محض 15 لاکھ کلومیٹر دور یے۔ زمین کی روشنی کو جیمز ویب تک پہنچنے میں محض 5 سکینڈ لگیں گے۔ دوسری وجہ یہ کہ جیمز ویب ٹیکیسکوپ کا رخ زمین اور سورج کی مخالف سمت میں ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جیمز ویب دوربین انفراریڈ روشنی میں کائنات کا مشاہدہ کرتی ہے اور اسکے حساس آلات کو سورج کی روشنی اور حرارت سے بچانے کے لیے اس پر حفاظتی شیلڈ لگائی گئی ہے اور اسکا رخ سورج سے مخالف سمت رکھا گیا ہے۔
تو اب آپکی فرمائش پر کہ 5 سیکنڈ پہلے کی زمین دیکھنی ہے اتنی مہنگی ٹیلی سکوپ کو زمین کیطرف موڑ کر ناکارہ تو نہیں کیا جا سکتا۔ آپ نے اگر 5 سیکنڈ پہلے کی زمین پر کچھ دیکھنا ہے تو اپنی پانچ سکینڈ پہلے کی سیلفی دیکھ لیجئے ۔ ڈائناسورز دیکھنے میں کیا رکھا ہے۔
ایم بی بی ایس 2024 میں داخلہ لینے والی طلباء کی حوصلہ افزائی
پروفیسر صالحہ رشید ، سابق صدر شعبہ عربی و فارسی ، الہ آباد یونیورسٹی نے گذشتہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو...