کچھ عرصہ قبل ڈنمارک میں تحقیق کے دوران مجھے ایک تجربے کے لیے ایک سائنسی آلہ درکار تھا۔ یہ آلہ دراصل مختلف سینسرز کے برقی سگنلز جو Analog ہوتے ہیں، کو ڈیجیٹل ڈیٹا میں تبدیل کر ایک خاص رفتار سے جمع کرتا ہے اور پھر اسے کمپوٹر میموری میں سیو کرتا ہے تاکہ سنسرز سے حاصل کردہ اس ڈیٹا کو آسانی سے پراسس کیا جا سکے، جانچا جا سکے اور اس سے مختلف نتائج اخذ کیے جا سکیں۔ اسے سائنس کی زبان میں DAQ کارڈ یعنی ڈیٹا حاصل کرنے والا کارڈ کہا جاتا ہے۔ اسکی قیمیت ڈیٹا کو جلد سے جلد اور تیز رفتاری سے حاصل کرنے اور ایک وقت میں مختلف چینلز سے اکٹھا کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔
(یہ بات میں سادہ انداز میں سمجھا رہا ہوں، سائنسی اصطلاحات کو چھوڑ کر جیسا کہ سیمپلنگ ریٹ،ایکیوزیزیشن فریکونسی وغیرہ وغیرہ)
سو مختصر یہ کہ زیادہ چینلز اور زیادہ رفتار کا مطلب زیادہ قیمت۔
میری تحقیق کے لیے جس نوعیت کا کارڈ درکار تھا وہ دنیا بھر میں محض چند کمپنیاں ہی بناتی تھیں۔ان میں سے ایک چھوٹی سی سویڈن کی کمپنی بھی شامل تھی جو خاص طور پر یہ کارڈ میڈیکل ایمیجینگ کے لیے بنا رہی تھی۔ میرے استفسار پر اس کمپنی نے مجھے اس چھوٹے سے کارڈ کی قیمت 14 ہزار یورو یعنی آج کے تقریباً 32 لاکھ روپے بتائی۔
کارڈ خریدنے کے بعد اس سے گلے کے کینسر پر مفید تحقیق کا موقع ملا۔ مگر اس بات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر ہمارا ملک پاکستان غریب کیوں ہے؟ یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے اور آپکا اس سے اتفاق کرنا ہر گز لازم نہیں۔۔دراصل میں جب پاکستانی معاشرے میں سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت پر بار بار زور دیتا یوں تو اسکے پیچھے مقصد یہی ہوتا ہے کہ ہم اس زمانے میں روایتی طریقوں اور روایتی طرزِ فکر سے ترقی اور خوشحالی حاصل نہیں کر سکتے۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ یہاں کی معیشت کا بیشتر دارومدار کپاس، گندم، گنا، چاول اور دیگر زرعی فصلوں اور ان سے جڑی روایتی انڈسٹریوں سے منسلک ہے۔
اب یہ دیکھیں کہ کتنے انسانوں کی دن رات محنت اور کئی ایکڑ پر اُگائی گئی گندم یا کپاس جو ہماری برآمدات کا بہت بڑا حصہ ہے، کی مالیت عالمی منڈی میں کتنی ہے؟ ان برآمدات پر ہر سال خرچ ہونے والے وسائل، انسانی مشقت وغیرہ وغیرہ آخر میں محض چند ڈالرز فی ٹن کے بھاؤ بکتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ گندم، کپاس وغیرہ پیدا کرنے کا عمل نسبتاً آسان اور دماغ کے محدود استعمال سے ممکن ہے۔
مگر اب ذرا اُس کارڈ کے بارے میں سوچیں جسکی قیمت 32 لاکھ تھی۔ اس کارڈ کو بنانے میں کئی انسانی دماغ صرف ہوئے ہونگے، برسوں کی تحقیق اور انجنیرنگ کے بعد اسے بنانے کا طریقہ پختہ ہوا ہو گا اور اب وہ سویڈن کی کمپنی محض اس طریقے کو بار بار کاپی کر کے نئے سے نئے کارڈ بناکر اُن پر کئی ہزار ڈالر کا منافع کما رہی ہے۔ گویا انسانی دماغ کی جدت سے بنا پراڈکٹ(کارڈ) روایتی طریقوں سے بنے پراڈکٹ(زرعی اجناس) سے کہیں مہنگا ہے۔اور کیوں نہ ہو ؟ کہ انسانی عقل سے مہنگی کوئی شے ہے؟
فی زمانہ ہم دیکھتےہیں کہ جدید سے جدید خیالات پر بنی سافٹ وئیر اور ہارڈوئیر کی کمپنیاں آج سے تیس چالیس سال پہلے تک تھی ہی نہیں مثال کے طور پر گوگل,ایمازون، مائکروسوفٹ، ایپل وغیرہ وغیرہ اور آج ان کمپنیوں کا سالانہ منافع کئی ممالک کے جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے۔ کیوں؟ محض انسانی دماغ کی جدت سے۔ عقل کی کمائی کھا رہے ہیں وہ۔
اس مثال سے ہمیں کیا پتہ چلتا ہے؟ ہم جو سائنس اور ٹیکنالوجی اور جدید تحقیق کو معاشرے میں ایک محدود مقام دیتے ہیں، یہ رویہ ہمیں آگے سے آگے اور نت نئی جدید اور قیمتی برآمدات بنانے سے روکے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس پیسہ بنانے کا جو آلہ موجود ہے جسے عقل کہتے ہیں اُسکا استعمال خال خال ہے۔ ہم انسانوں اور اُنکے دماغوں پر خرچ کرنے کی بجائے فرسودہ علوم اور جنگی جنون پر خرچ کرتے ہیں۔
ہم غریب اس لیے نہیں کہ ہم بے وقوف ہیں، ہم غریب اس لیے ہیں کہ ہماری ترجیحات میں سائنس اور جدید علم سیکھنا ناپید ہے۔
جس دن ہمارے حکمران اور عوام یہ بات سمجھ گئے، اُس دن یہ ملک صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔
ورنہ ہم محض گندم، گنے ہی بیچتے رہیں گے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...