ایک اشارہ اور رات کے اندھیرے میں مومبتیاں جل اٹھتی ہیں. دیے روشن ہو جاتے ہیں. ایک اشارہ، تھالی اور تالی سے ملک گونجنے لگتا ہے. ایک اشارہ کچھ بھی کر سکتا ہے اور ہم اب بھی خوش فہمیوں کا شکار، گہری نیند کے مجرم، تنہایی کی بساط پر گھوڑے اور مہرے کے کھیل میں الجھے ہوئے ہیں. کس نے کہا کہ زی نیوز نے معافی مانگی . زی نیوز نے لفظ کھید یعنی دکھ محسوس کیا ہے . جس دن امیش دیوگن نے اپنے ایک لائیو پروگرام میں یہ کہا کہ اب اس چینل پر ہندو مسلمان نہیں ہوگا ، اسی دن اس چینل پر عام دنوں سے کہیں زیادہ مسلمانوں کو رسوا اور بدنام کیا گیا . یہ فرضی ویڈیو جو کبھی ویتنام کے نکلتے ہیں ، کبھی بنگلہ دیش کے ، کبھی کسی اور ملک کے ، اور ان ویڈیوز کو مسلمانوں اور تبلیغی جماعتوں کے کارنامے کہہ کر دکھایا جا رہا ہے ، ضروری ہے کہ ایسے چینلوں پر ہر دن مقدمے کے کیے جاییں . کیا زی نیوز کے کھید ظاہر کرنے سے عام ہندوؤں تک یہ پیغام پہچا کہ کہ تبلیغی جماعت یا مسلمان بے گناہ ہیں ؟ کیا ارنب کے ریپبلک چینل پر مسلمانوں کو مسلسل رسوا کرنے کا سلسلہ بند ہوا ؟ کیا محض کھید ظاہر کرنا، اپنا پلڑہ جھاڑنا عام ہندوؤں کو زہریلی نفسیات کے جال سے باہر لانے میں کامیاب ہوگا ؟ سوال ہی نہیں . ملک کا نقشہ وہی لیکن فسادی مسلمان .دہشت گرد مسلمان .. ٢٥ کروڑ عوام کو نفرت پھیلانے والے چینلوں نے حاشیہ پر ڈال دیا ہے . مسلمان سو کروڑ ہندوؤں کی نظر میں آج مجرم سے کہیں زیادہ ہیں . کھڑکی سے جھانکتی ایک بچی اپنی ماں سے کہتی ہے : وہ دیکھو ، مسلمان جا رہا ہے . ماں اسے اندر کھینچتی ہے ، کرونا ہو جائے گا . تبلیغی جماعت کا ایک رکن اپنے گاؤں میں صرف اس لئے خودکشی کر لیتا ہے کہ وہ نفرت کی زبانیں سن سن کر گھبرا گیا تھا .
ابھی ایک ویڈیو دیکھا .کچھ لوگ ایک سبزی فروش کو گھیر کر کھڑے تھے . سبزی فروش نے اپنا نام محمد بلال بتایا . اسے گندی گندی گالیاں دی گیں اور ڈنڈے سے پیٹا گیا . یھی حال اس وقت پورے ملک کا ہے . لاک ڈاون کے بعد سب سے آسان شکار مسلمان ہوں گے .فقط ایک اشارہ .یا اشارے کی ضرورت بھی نہیں پڑیگی .
میں اس وقت الف لیلیٰ کے پیتل کے شہر میں ہوں اور موسیٰ بن نصیر کو دیکھ رہا ہوں جو اپنے آدھے لشکر کو لے کر پیتل کے شہر میں داخل ہوتا ہے اور اسے چاروں طرف موت نظر آتی ہے۔اس نے دیکھا کہ چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں بچھی ہیں۔ ان میں بچے بھی ہیں، عورتیں بھی، اس کے ساتھی بھی۔ اس کے بعد وہ بازار میں نکلا۔ عالیشان عمارتیں، بڑی بڑی دکانیں، پیتل کے سامان، مگر سوداگروں کا ہجوم مرا پڑا تھا۔ چاروں طرف مردے اور ایسے مردے کہ ان کی کھالوں سے بدبو اٹھ رہی تھی۔ پھر موسیٰ ریشم کے بازار میں گیا۔ ریشم وکمخواب کے ڈھیر مگر یہاں بھی اس کا واسطہ مردہ سوداگروں سے پڑا، جو فرش پر گرے ہوئے تھے اور ان کی موت کو برسوں گزر چکے تھے۔وہ جواہرات، موتیوں، یاقوت کے بازار میں گیا اور وہاں بھی لاشیں دیکھیں۔ صرافوں کا بازار لٹا ہوا تھا۔ دکانوں میں سامان تھے مگر کسی مسافر کا پتہ نہیں۔ پھر وہ عطاروں کے بازار میں گیا۔مشک، عنبر، عود، کافور کی بوریاں رکھی دیکھیں۔مگر یہاں بھی اس کے آنے سے قبل موت شب خون مار چکی تھی۔ بازار، چو رستے، دکانیں، فرش ہر جگہ لہو کے فوارے اور ان کے مالکان گہری نیند میں سوئے ہوئے… اور موسیٰ خیال کرتا ہے کہ جب سب اسباب رہ جائیں گے یہیں دھرے ہوئے تو پھر زندگی کیا ہے اور سفر کیا ہے۔ حکومت کیا ہے، بادشاہوں کے واہمہ کیا ہیں اور غرور کیا ہے…..؟
سب یہیں دھرا رہ جائے گا .تا ریخ کے لا متناہی صحرا میں ہوں جہاں چاروں طرف خون کی گرد اٹھ رہی ہے ۔اسی صحرا میں چنگیز خاں بھی تھا، جو بوڑھا ہوچکا تھا اور اسے اس بات کا احساس تھا کہ اس کے دشمن اس کی بوٹی بوٹی نوچ کر کھا جائیں گے وہ دوبارہ چین پر حملہ نہ کرسکا اور اسی عالم میں اس کی موت ہوگئی۔ مرنے کے بعد اس کی لاش کو قراقرم لایا گیا اور فوج نے جوبھی راستے میں آیا، اسے قتل کردیا۔ ہدف یہ تھا کہ چنگیز خاں کی موت کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ صنوبر کے درخت کے نیچے اسے دفن کیا گیا۔قبیلے کے لوگ باری باری سے اس کی قبر کے پاس پہرہ دیتے رہے۔ یہ اس شخص کا خوف تھا، جو انسانی سروں کے مینار تعمیر کرنے کا شوقین تھا اور جو انسانی سروں کی کھوپڑیوں کے پیالے میں شراب پینے کا عادی تھا مگر لاکھوں کے مجرم کو بیدردی کے ساتھ قضا اپنے ساتھ لے گئی۔
تاریخ کے لق ودق صحرا میں دفن کہانیوں میں ایک کہانی ہلاکو اور اس فوج کی کہانی ہے کہ وہ شہروں میں بھوکے گدھوں کی طرح ٹوٹ پڑتے۔ غضبناک بھیڑیوں کی طرح انسانی جسم کو روند دیتے۔ حرم کی عورتوں کو گلیوں میں گھسیٹتے اور ہوس کا نشانہ بناتے۔ ان میں ہر عورت تاتا ریوں کے ہاتھ کا کھلونا بن کر رہ گئی تھی۔ دریائے دجلہ کے دونوں کناروں پر آباد شہر، الف لیلیٰ کی شہزادی کی داستان سنانے والا شہر بغداد میں جب ہلاکو کے قدم پڑے تو دولاکھ سے زیادہ معصوم انسان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔لیکن موت ہلاکو کے پیچھے تھی اور جب گھوڑے پر سوار اس کے پاؤں رکاب سے نکلے تو وہ گھوڑے سے نیچے گر گیا۔ سہما ہوا گھوڑا اس قدر بدک گیا کہ اس نے ہلاکو کو پتھروں میں گھسیٹ کر اس کا سر پتھروں سے پٹخ پٹخ کر ماردیا۔ جب لشکر ہلاکو کے پاس پہنچا تو ظالم حکمراں مر چکا تھا اور اس کی کھلی آنکھوں میں سے خوف جھانک رہا تھا۔
تاریخ کے لامتناہی صحرا میں ایک خوف زدہ کرنے والی کہانی ہٹلر کی بھی ہے جس نے خود کو گولی مارکر خود کشی کرلی۔یہ وہ شخص تھا، جس کے نام سے ایک دنیا آج بھی لرزتی ہے۔
تاریخ کے عالیشان محل میں ایک قید خانہ تھا۔ عظیم الشان قید خانہ…میں اس قید خانے کو دیکھ سکتا ہوں ۔ اس قید خانے میں اپنے اپنے وقت کے تمام سکندر موجود تھے… اور اس عظیم الشان قید خانے میں ایک قطار سے ان کی لاشیں سجی تھیں۔ان سب کے چہرے بدنما، بد ہیئت تھے اور اس وقت وہ کسی بھی قسم کا زلزلہ پیدا کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔ مگر یقیناً، جب زندہ تھے، ان کا دماغ سازشوں کا گھر رہا ہوگا اور یہ سازشیں انسانی ہلاکت کا بازار گرم کرنے میں مصروف رہی ہوں گی مگر اب قید خانے میں یا سرد خانے میں پڑے تھے اور ان لاشوں سے بدبو پیدا ہورہی تھی۔
اب یہ بدبو مسلمانوں کے جسم سے آ رہی ہے . اور غیر مسلم ، مسلمانوں سے فاصلہ قائم کر چکے ہیں . ہوشیار پر پنجاب کے گاؤں سے مسلمانوں کو دھکے دے کر نکال دیا گیا .ہر روز نیے نیے حادثے ہمارا پیچھا کر رہے ہیں . موسیٰ بن نصیر اپنے لشکر کے ساتھ لوٹ گیا .مسلمانوں کو کون پناہ دے گا ؟ تبلیغی جماعت کو کانگریس ، عام آدمی پارٹی اور دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی مجرم ثابت کر چکی ہیں . در اصل تبلیغی جماعت نہیں ، مسلمانوں کو مجرم ثابت کیا گیا ہے . ان حالات میں، جب ایک مخصوص لباس نفرت کا حامل بن چکا ہے۔جب ایک نام اچانک کچھ لوگوں کو چوکا دیتا ہے۔ جب آپ کسی قید خانےمیں پھینک دیے جاتے ہیں، ایک حکمراں سر عام ایک قوم کے لوگوں کی ہلاکت کا جشن مناتا ہے اور مخصوص نام والے آدمیوں کے لیے ڈیٹنشن سینٹر کے دروازے کھولتا ہے۔جہاں ایک کال کوٹھری میں سو سے زیادہ لوگ ہوتے ہیں . یہ لوگ آرام سے پاؤں بھی نہیں پھیلا سکتے… ان پر راتوں کی نیند تنگ ہوتی ہے اور بیداری کی اذیت کا عذاب بھیجا جاتا ہے اور پھر ان کال کوٹھریوں میں گؤ موت…تعفن… بدبو کے ریلے اٹھتے ہیں۔سوچئے ، ہم کہاں آ گئے . اور لاک داؤن ختم ہونے کے بعد ہماری زندگی کیسی ہو گی ؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...