2011 میں ہمیں حج کی سعادت نصیب ہوئی اور ہمارے مکتب کا نمبر 55 تھا۔ اور یہ منیٰ میں مزدلفہ کی حدود کے قر یب ترین طریق مشاہ پر تھا۔حج سے اگلے دن تقریباًگیارہ بجے کسی نے ہمارے خیمے کے دروازے پر کھڑے کھڑے مجھے پکارا اور کہا کہ آپ کے لئیے ایک کام آگیا ہے باہر نکل کر دیکھا تو چھ خواتین سادہ سے پاکستانی حلئیے میں گم سم کھڑی تھیں۔انکے کارڈ پہ دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ نیپال سے ہیں۔اور کل جمرات پر رمی کے لیے گئی تھیں اور وہاں سے وآپسی پر اپنے ساتھی مردوں سے بچھڑ گئیں۔انکے مکتب کا نمبر A 55 تھا۔اور اسی غلط فہمی میں کہ ان کا مکتب 55 نمبر مکتب کے قریب ہی ہونا چاہئیے کوئی انہیں یہاں تک کا راستہ بتا گیا۔
حج کے دوران میری پوری کوشش رہی کہ بوڑھے اور سادہ لوح لوگوں کی جس حد تک مدد ہو سکے کی جائے اور اسی وجہ سے میں اپنے مکتب والوں کی نظر میں آگیا اور وہ عمومی رہنمائی کے لئیے مجھ سے رابطہ کرتے رہتے۔
معلم نے 7 ذالحج کی رات کو ہمیں منیٰ پہنچایا تھا میں نے اگلے دن صبح نماز فجر کے بعد فوجی انداز میں اپنے گردونواح کا جائزہ لیا اور مزدلفہ میں جا کر نہر زبیدہ کی باقیات اور نو تعمیر شدہ ریلوے نظام بھی دیکھ آیا۔اور اسی روز مجھے پتہ چلا کہ یہاں راستے تلاش کرنا اور اپنے خیمے تک وآپسی کے لیے رہنمائی کے لیے جہازی سائز کے معلوماتی بورڈز لگے ہوئے ہیں لیکن عربی میں ۔ میں اپنے خیمے سے کچھ لو گوں کو ان بورڈز تک لے کر بھی گیا جو کچھ راستہ سمجھنے کی خواہش رکھتے تھے۔
نیپالی خواتین کے کیمپ کی تلاش میں اس بورڈ تک گیا او ر ان کا کیمپ تلاش کر کے انہیں بتایا کہ وہ یہاں سے تقریباً 8 کلو میٹر جمرات سے شمال میں ہےاور گاڑی کے ذریعے وہاں پہنچنے کے لئیے تقریباً 35 کلو میٹر بزریعہ بائی پاس جانا پڑتا ہے
ان میں سےایک خاتون اردو روانی سے بول بھی رہی تھی باقی سمجھ لیتی تھیں لیکن بولنے میں روانی نہیں تھی۔میں انہیں اپنے مکتب سے باہر بورڈ تک لے آیا۔اور یہاں تک آتے آتے وہ عورت جو اردو بول اور سمجھ سکتی تھی وہ کہیں ہم سے بچھڑ گئی۔اب وہ ہمیں تلاش کر رہی ہو گی اور ہم اسے لیکن وہ مل نہ سکی۔خواتین سے ان کے مکتب کا ٹیلی فون نمبر پوچھا تو کسی کو کچھ معلوم نہ تھا میں نے احتیاطً ان کے کارڈ پلٹ کر دیکھے تو ایک کےکارڈ کے اندر ہاتھ سے تحریر شدہ دو تین فون نمبر ملے جو کے سعودیہ کے ہی تھے۔ان پر کال کی تو کال وصول کرنے والے نے بتایا کہ یہ کل شام سے بچھڑی ہوئی ہیں اب آپ ان کو اپنے سے علیحدہ نہ کرنا ہم ان کے لیے کوئی بندوبست کرتے ہیں۔
میں نے ان کو مکتب کے باہر سائے میں بیٹھایا اور ان کے کھانے کا کچھ انتظام کرنے لگا۔ پتہ چلا بیچاریوں نے پریشانی میں کل سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ کھانے کا بندوبست کرنے کے بعد میں خود بھی سڑک کنارے ان کے قریب ہی ورثا کے انتظار میں بیٹھ گیا۔پاس سے گزرتے پاکستانی لڑکوں کے گروپ نے دعا و سلام کی اور پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں تعارف کے بعد وہ چلے گئے وہ خود انٹرنل حاجی تھے
کچھ دیر بعد وہی لڑکے وآپس لوٹے تو مجھے وہاں بیٹھا دیکھ کر پوچھا کہ خیریت تو ہے آپ ان خواتین کے ساتھ ہمیں پریشان لگے ہیں میں نے بتایا کہ یہ نیپالی خواتین راستہ بھولی ہوئی ہی اور ان کے وارثوں کو بلایا ہوا ہے جبکہ میں انکا انتظار کر رہا ہوں۔ ان میں سے ایک لڑکا جو کہ تقریباً 35 سال کا ہو گاان کے سامنے جزباتی انداز میں دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔اور اپنی جیب سے 100 سو ریال کے نوٹ نکال کر ان کو دینے لگا۔ پہلی ہی خاتون حلیمہ نے نوٹ لینے سے انکار کر دیا۔لڑکا بولا آپ میری ماں جیسی ہیں اپنے لئیے کچھ لے لینا میں اپنی خوشی سے دے رہا ہوں۔ یہاں پر اس خاتون نے تاریخی فقرہ کہا جو قو موں کے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔اس نے کہا،
”ہم گم ہو ئے ہیں کوئی فقیر تھوڑے ہی ہیں۔“
اور وہ لڑکا حلیمہ کا ہاتھ پکڑ اپنے گالوں سے لگا کر رونے لگا کہ یہ اعتماد اور خوداری۔
تقریبا پانچ بجے شام کچھ لوگ نیپال کا تکونا جھنڈا سر سے اونچا لہراتے ہوئے میری بتائی ہوئی جگہ پہنچے اور وہ معصوم خواتین ان کے ساتھ روانہ ہوئیں۔