بھارتی فلمی گیتوں کے شوقین خواتین وحضرات کے لئے شکیل بدایونی کا نام اجنبی اورنامانوس نہیں ہے۔ انھوں نے تین دہائیوں تک بالی وڈ فلموں پر بطور گیت کار راج کیا تھا۔ اپنے دور کے مقبول ترین گیت کار شکیل بدایونی آج سے پچاس برس قبل 20-اپریل 1970 کو محض 53 سال کی عمر میں ٹی۔بی کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔
شکیل بدایونی 3- اگست 1916 کواتر پردیش( یو۔پی)کے شہر بدایوں میں پیدا ہوئے تھے۔ شکیل کے والد محمد جمال احمد سوختہ قادری کو اپنے بیٹے کی تعلیم میں خصوصی دلچسپی تھی۔ چنانچہ انھیں اردو، فارسی عربی اور ہندی کے اساتذہ گھر پر تعلیم دیا کرتے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 1936 میں شکیل احمد نے علی گڑھ مسلم یوینورسٹی میں داخلہ لیا۔ شکیل احمد کے اپنے خاندان میں کوئی شاعر نہیں تھا اس لئے اوائل عمری میں شکیل کا رحجان بھی شاعری کی طرف نہیں تھا۔ شکیل کا دور کا ایک رشتہ دار ضیا القادری بدایونی شاعر تھا اور اسی سے متاثر ہوکر شکیل نے بھی شاعری شروع کی تھی۔ کالج کے دنوں میں شکیل نے مشاعروں میں اپنا کلام سنانا شروع کیا تو انھیں بہت پذیرائی ملی۔علی گڑھ میں دوران تعلیم شکیل احمد نے حکیم عبدالوحید اشک بجنوری کی شاگردی اختیار کرلی تھی۔
تعلیم سے فارغ ہوکر شکیل نے دلی میں محکمہ سپلائی نےمیں ملازمت کرلی۔ دن سرکاری ملازمت میں گذرتا تو شام اور رات شکیل مشاعروں میں اپنا کلام سنا کر گذارا کرتے تھے۔ انہی دنوں شکیل نے ہندی فلموں میں گیت نگاری کا سوچا اور یہی مقصد لے کر وہ 1944 میں بمبئی چلے گئے۔ بمبئی میں ان کی ملاقات مشہور پنجابی فلم ڈائیریکٹر اور فلم ساز اے۔آر کاردار سے ہوئی جو انھیں مشہور سنگیت کار نوشاد کے پاس لے گئے۔ نوشاد نے شکیل احمد جو اب شکیل شکیل بدایونی ہوچکے تھے سے کہا کہ میاں شکیل! اگر کچھ لکھا ہے تو سناو۔شکیل نے اپنی غزل کا شعر پڑھا: ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنادیں گے۔ہر دل میں محبت کی ایک آگ لگادیں گے۔ یہ شعر نوشاد کو اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے شکیل بدایونی کو فلم درد جس کے پروڈیوسر کاردار تھے، کے گیت لکھنے کے لئے سائن کرلیا۔ درد کے گیتوں کی مقبولیت شکیل بدایونی اور نوشاد کو ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے وابستہ کرگئی۔ جس فلم کا سنگیت نوشاد دیتے اس کے گیت شکیل بدایونی لکھتے تھے۔ گھونگھٹ، گھرانہ،دیدار،بیجوباوار اور مغل اعظم کے گیتوں کو کون بھول سکتا ہے۔ ان فلموں میں شامل گیتوں کے تخلیق کارشکیل بدایونی تھے۔
شکیل بدایونی نے نوشاد کے علاوہ سنگیت کارروی کے ساتھ بھی کام کیا۔ گورودت کی فلم چودہویں کا چاند کے لئے شکیل کا لکھا گیت چودہویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو، جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتا ہے۔ روی ہی کے سنگیت میں شکیل کا یہ گیت حسن والے تیرا جواب نہیں آج بھی لاجواب ہے۔
شکیل بدایونی نے نوشاداور روی کے علاوہ سنگیت کار ہیمنتھ کمارکے ساتھ بھی کام کیا تھا۔صاحب بی بی غلام اور بیس سال بعد کے سنگیت کار ہیمنتھ کممار اور گیت کارشکیل بدایونی تھے۔ بیس سال بعد کا یہ گیت آج بھی روز اول کی طرح مقبول ہے۔ کہیں دیپ جلے کہیں دل۔
شکیل بدایونی کو تین سال متواتر بہترین گیت کار کے ایوارڈز ملے۔ 1961 میں چودہیویں کا چاند، 1962 میں حسن والے تیرا جواب نہیں اور 1963 میں کہیں دیپ جلے کہیں دل جیسے گیت لکھنے پر انھیں ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔
شکیل بدایونی ٹی۔بی کے مریض تھے۔ ان دنوں ابھی تک ٹی۔ بی کا کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہوا تھا اور اس مرض کا شکار شخص لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھتا رہتا تھا۔ شکیل بدایونی کی زندگی کے روز و شب بھی ٹی۔بی کے جان لیوا سائے میں بسر ہورہے تھے اورنوشاد کو شکیل بدایونی کی بیماری اور اس کی بدولت ان کی دگرگوں مالی پوزیشن کا علم تھا اس لئے وہ شکیل بدایونی کی مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کیا کرتے تھے۔ جب شکیل بدایوں پر ٹی۔بی کے حملے میں شدت آئی تو شکیل کو ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ نوشاد کو پتہ تھا کہ شکیل بدایونی کے مالی حالات ٹھیک نہیں ہیں چنانچہ ان دنوں نوشاد نے تین فلموں کے گیت لکھنے کے لئے ان سے معاہدے کئے اور انھیں معمول سے دس گنا زیادہ معاوضہ دلایا تھا۔
شکیل بدایونی نے جب شاعری شروع کی وہ ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ تھا۔ فضا میں ہر طرف انقلاب کی گونج تھی۔علی سردار جعفری۔ ساحر لدھیانوی کیفی اعظمی اور مجروح سلطانپوری کی انقلابی اور باغی شاعری گلی کوچوں میں گونج رہی تھی۔ شکیل ان کے برعکس انقلاب نہیں پیار و محبت کے شاعر تھے جو ان دنوں ترقی پسندوں کے نزدیک رد انقلاب کے مترادف تھا۔ چنانچہ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے نزدیک مردور قرار پائے اور ان کی شاعری کو رجعت پسند قرار دے کر مطعون اور مسترد کیا گیا۔ فلمی دنیا میں گیت نگاری میں بھی شکیل بدایونی اور ساحر لدھیانوی کے گیتوں میں اس دور کی نظریاتی چپقلش کا عکس موجود ہے۔ ساحر نے جب یہ لکھا کہ اک شاہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق تو شکیل نے لکھا کہ اک شاہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے۔
شکیل عشق ومحبت ،فراق اور زندگی کی حقیقتوں کو انتہائی سادہ لفظوں میں بیان کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ ان کے فلمی گیتوں کے علاوہ ان کی غیر فلمی غزلیں جو بیگم اختر نے گائی ہیں اپنے الفاظ کے چناو،موسیقیت اورخیال کی لطافت کا شاہکار ہیں۔ اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا۔اور میرے ہم نفس میرے ہم نشیں مجھے دوست بن کے دغا نہ دے ایسی غزلیں ہیں جنھیں بار بار سننے کو دل چاہتا ہے