ایک زمانے میں جب آتش نوجوان تھا اور شہزادرائے بالکل ایسے ہی تھےجیسے کہ اب ہیں تو بلال مقصود اور فیصل کپاڈیا کے گروپ سٹرنگز کا ایک گانا میوزک چارٹس پر راج کیا کرتا تھا جس کےبول کچھ پہاڑوں کو سر کرنے کے بارے میں تھے
سٹرنگز کے گانے اور ہماری پیشہ ورانہ زندگی میں یہی ایک قدر مشترک ہے اب متذکرہ بالا فعل یعنی کوہ پیمائی کی غرض وغایت میں اختلاف ہو سکتا ہے
اپنی سہولت کے لیے یہ سمجھ لیجیے کہ جنرل ہیڈکوارٹرز کا محبت بھرا مراسلہ اگر آپ کو سرخ گلابوں اور سفید برفو ں کی نگری میں پوسٹنگ کی نوید مسرت دے تو پھر پہاڑ چڑھنا اور انہیں اپنا مسکن بنانا اختیاری عمل نہیں رہتا ہم نئے نئے کپتان بنے تھے اور فی کندھا لگاتار تین پھولوں کا وزن اٹھائے پباں بھار نچدے پھر رہے تھے کہ اوپر بیان کی گئی نوید مسرت ہمارا پوچھتی ٹل پہنچ گئی
اگلا منظر گلگت کا ہے جہاں ہمیں خوشخبری دی گئی کہ غازی افسروں کی قلت کی وجہ سےہمیں انفنٹری رول پرپوسٹ کمانڈر کی ترقی دے دی گئی ہے اور اگلے محاذ پر ناردرن لائٹ انفنٹری کی ایک بٹالین ہماری منتظرہے
پلٹن میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور ایک دن اور رات کے آرام کے بعد ہم گشتی پارٹی کی ہمراہی میں منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئے۔ دو دن اور دو راتوں کی مشقت کے بعد جب ہم چودہ ہزارفٹ کی بلندی پر پرواز کیے بغیر پیدل پہنچے تومعلوم پڑا کہ یوسفیؔ صاحب ٹھیک کہتےتھے
ہرچیزکااوپراس کےنیچےسے بہترنہیں ہوتا
مرشدی نےعرق ریزی کےبعدان چیزوں کی لسٹ ترتیب دی تھی جن کانیچےان کےاوپرسےبہترہوتاہے
شربت، کھیر اور زردے کی کھرچن، گنے کی نچلی پور، سانپ کی دم، پارلیمنٹ کا ایوان زیریں، آخری اولاد، کراچی آرٹس کونسل کاگراؤنڈ فلور اب آپ اس میں سیاچن کےبیس کیمپوں کااضافہ کرلیجیے
غالباًمیرؔ کےبارےمیں مشہورہےکہ ایک دفعہ دورانِ سفر وہ سواری میں پہلوبدل کر بیٹھےرہےہمسفرسےبات تک نہ کی کہ زبانِ غیرسےاپنی زبان بگڑتی ہے
صاحب اپنی پوسٹ کی چڑھائی کے کٹھن سفرمیں ہم خود ہی سواری تھے خود ہی سوار سارے راستے ہمیں بات کرنے کا یارا نہیں تھا۔ اپنی رزم گاہ پہنچ کر جب سانس اور اوسان (اسی ترتیب سے) بحال ہوئے اور ہم نے زبان کھولی تو پتہ لگا یہاں کوئی ہم زبان ہی نہیں
یہ ان دنوں کی بات ہےجب ناردرن لائٹ انفنٹری کی نفری گلگت بلتستان کےمقامی لوگوں پر مشتمل ہوتی تھی نانگا پربت کے پڑوس میں جس پوسٹ کا قرعہ فال ہمارے نام نکلا وہاں 50 مربع گز کےگنجائشی علاقے میں ہمارے علاوہ ایک نائیک اور چھ جوان تھے۔ ان میں کک عبدالنبی کو چھوڑکر جو کشمیرسے تھا باقی سب صرف شنہا بولتے اور سمجھتے تھے
آپ سےجھوٹ نہیں بولیں گے
وہاں تو بات کرنے کو ترستی تھی زباں میری
ہم اردومیں بات کرتےتو ہمارےزیرِکمان جوان شنہا میں مسکراتے۔ جواباً ہم اردو میں مسکرادیتے
تاش کھیلنےمیں البتہ کچھ دقت پیش نہ آتی۔ صاحبو تاش کےپتوں کی ترکیب استعمال جو اردو میں رائج ہےوہی شنہامیں بھی مستعمل ہے
خیرصورتحال اتنی بھی مخدوش نہیں تھی ہماری بات ان کی سمجھ میں آجاتی تھی مگر جہاں لفظ جوڑکرجملےبنانےکی نوبت آجائے وہاں جوان سکوت اختیارکرتےیا پھر نائیک رسول پناہ کو آگے کردیتے
نائیک رسول پناہ ہمارا سیکنڈ ان کمانڈ تھا
اس کے ذمے فوجی امور کی انجام دہی میں روزانہ صبح و شام اپنے کمانڈر کی یعنی ہماری خدمت میں حاظرہوکر دست بستہ سچوئشن رپورٹ دینی ہوتی تھی عام دنوں میں جب فائرنہیں ہوتاتھاتو یہ دشمن کےعلاقےمیں خچروں اورپورٹرزکی نقل وحمل کی تفصیل ہوتی تھی
رسول پناہ ہوشیارحالت میں ہمارےروبروکھڑاپہلےاپنےدماغ میں لفظوں کوجملےکی شکل دیتا پھرخودکوادائیگی کےنازک مرحلے کےلیےتیارکرتا
اٹین شن کھڑاہونے کے باوجود زبان اورجسم بل کھا کھا جاتے رسول پناہ ہمارا مستقل مزاج ہیراسپاہی تھا۔ نہ اس نے ہمت ہاری اور نہ ہی ثانی الذکر نے حوصلہ
ابتدائی ہچکیوں اور رکاوٹوں سے بطریق احسن نمٹتے وہ بہت جلد اردو میں رواں ہوگیا اور مقابلتاً ہم بھی کچھ کچھ شنہا میں گٹ مٹ کرنے لگ گئےتو حجابات من و تو اٹھ گئے۔
رسول پناہ سے آل اوکےرپورٹ لینے، تاش کھیلنےاورکھانےکا سیریل ٹک کرنےسےجووقت بچتاتھا اس میں ہم نےایک اورمصروفیت دریافت کی
ابھی کل کی بات تھی ان کوہساروں میں کارگل کی جنگ لڑی گئی تھی
ہماری پوسٹ پرجوجوان تھے وہ اس معرکےمیں شریک تھے انہیں شیردل غازی کیپٹن چنگیزی کی دلیری اب تک یاد تھی بریگیڈ ہیڈکوارٹر سے بٹالین کے سفرمیں بریگیڈ میجر نےہمیں گلتری اورفارن شاٹ کےدرمیان وہ جگہ دکھائی تھی جہاں سےکیپٹن کرنل شیراپنے شیردل جوانوں کےساتھ کبھی نہ واپس آنےوالے گشت پر روانہ ہواتھا
یہیں کہیں سے ایک راستہ تولولنگ اور ٹائیگرہل کو نکلتا تھا
صاحب یہاں ہمیں رکنے کی اجازت دیجیے کچھ سال پہلے ہم نے کارگل کے شیر دلیروں کو یادکیا تھا۔ سرحد کے اس پار اور اُس پار دونوں اطراف سے
اگرآپ اجازت دیں تو ایک ذرا نظربھرکے انہیں پھرسے دیکھتے ہیں
فلم پتنگا میں نگار سلطانہ پر فلمایا گیا گانا شمشادبیگم نے کچھ ایسے جی توڑ کے گایا کہ فلم تو ماضی کی بھول بھلیوں میں کہیں کھوگئی مگر نغمہ آج بھی تروتازہ ہے
میرے پیا گئے رنگون
کیا ہے وہاں سے ٹیلیفون
تمہاری یادستاتی ہے
چتلکر رامچندر کی کمپوزیشن اور انکی شمشاد بیگم کے ساتھ لازوال سنگت اپنی جگہ مگر دل میں ایک دفعہ وسوسہ تو آتا ہے کہ رب کائنات کی سجائی اس حسیِن دنیا میں ساری جگہوں کو چھوڑ کر پیا کو بھیجنے کے لیے آخر رنگون کا انتخاب ہی کیوں کیا گیا۔ ہمیں راجندرکرشن جنہوں نےاس گانے کےبول لکھےکی نیت پر بخداکوئی شک نہیں لیکن خدالگتی کہیں تو اس انترے میں ردیف قافیےکی چولیں بٹھانے کےعلاوہ شاعرکوآگے چل کرکچھ غیرشرعی آرزؤں اورتمناؤں کی بالترتیب عکاسی اورنکاسی مطلوب تھی
تم بن ساجن جنوری فروری
بن گئے مئی اور جون
تمہاری یادستاتی ہے
اوّل الذّکر حصّے میں جس موسمی کیفیت کا ذکر ہے ساجن کی غیرفراہمی کی صورت میں اس کے ثانی الذّکر حالت میں ڈھل جانے پر توسیدھے سبھاؤ تعزیرات پاکستان لگتی ہے۔ مرزا عبدالودود بیگ کا قو ل ہے(تھوڑی تحریف کے ساتھ) کہ جن باتوں کوسادہ نثرمیں کہہ دینے پر سیدھا حدود آرڈیننس لگتاہو وہی بات ایک شعری گنجائش کی اوٹ لے کر ہمارے شعراء ایک بے نیازی سے کہہ ڈال چلتے بنتے ہیں۔ ذرا اوپر بیان کی گئی سچوئیشن کوسلیس نثرمیں کہنے کی کوشش کرکے دیکھیے۔ علم الابدان کی اصطلاحوں سے بہت پہلے آپ شرم سے وہ ہوجائیں گے جو کراچی میں گھروں میں ٹینکروں سے ڈلواتےہیں۔
بات اگراب بھی واضح نہیں ہوئی تو ہم اپنی مادری زبان پنجابی کے ایک گیت کے بولوں کا گھونگھٹ نکال لیں گے۔ سریندرشندااورگلشن کومل کی نوک جھونک میں شاعرکہتاہے ، بلکہ گلوکارہ سے کہلواتا ہے
اسّو دے مہینے وچ چھٹی آیا فوجیا وے
وگدا کھُرا سی جدوں سون وچ موجیا وے
نکی نکی پیندی سی کنڑی
میں جا میرارب جاندا
اوہدوں کنج میری جند تے بنڑی
ہم اس کاترجمہ نہیں کریں گے کہ ہمارے اورآپ کے درمیان جو رہی سہی جھجھک ہے وہ فوت ہو جائے گی۔ اس ساری تمہید میں بتانا ہم یہ چاہتے تھے کہ کارگل کے پہاڑوں میں جون گزرچکا تھا اوراسو کے آنے میں ابھی دیر تھی مگر بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔
تو صاحب جون گزرچکاتھا اور اسّو کےآنے میں ابھی دیر تھی۔ اسکا مطلب تھا کہ برزل ٹاپ ابھی کھلاتھا اور دراس۔کارگل روڈ کو دیکھتی اونچائیوں میں آمدورفت کےراستےکھلےتھے۔ بونجی اوراستورسےسامان رسد لے کر چلنے والی ایچ ایم ٹی (ہائرڈ مکینیکل ٹرانسپورٹ ) منی مرگ کی وادی میں اترتی تھی اوراس کی برکتیں ہفتے میں کم ازکم ایک دن فرنٹ لائن پوسٹوں پر بھی جلوہ گر ہوتی تھیں۔
لکھنے کو تو ہم نے سادہ سی ترکیب سامانِ رسد لکھ دی، لیکن اس ایک لفظ میں امنگوں، آرزوؤں ،چاہتوں اور حسرتوں کے کیا کیا دفتربند تھےکچھ وہی جانتے ہیں جو کبھی انتظار کی نادیدہ زنجیر سے بندھے ہوں۔ اُدھر استو ر میں ایچ ایم ٹی کا ڈرائیور سلف مارتا تو اس کی گونج پہاڑ اندرپہاڑہمالیہ کےسلسلۂ کوہ کادل چیرتی ایک بلند محاذپربیٹھے ہردم چوکنااورمنتظررہنے والےکانوں پراترتی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ استورسےایچ ایم ٹی کےسٹارٹ ہوتےہی ہم جیسےبےصبرےانتظارکی ٹکٹکی پرلٹک جاتے۔ کتنی ہی آرزوئیں اڑان بھرتیں اوربرزل ٹاپ کےپارسےکشا ں کشاں جیپ کے ساتھ ساتھ چوکڑیاں بھرتی چلی آتیں۔
کسی کی آنکھیں سفید مرمریں انڈوں کی دیدبان ہوتیں توکوئی ’مرغی پہلےآئی یاانڈہ‘ والےمحاورےمیں مذکوراوّل الذّکرجنس کےانتظارمیں امید کی بھرواں سِل پرآرزوکی چھری کوآبدارمزیدآبدارکیےجاتا، اورہردو کےدل راستےکےہرہچکولےہر دھچکے کےساتھ مطلوب ومقصودِ مومن کی سلامتی کی دعامانگتےدہل دہل جاتے۔ کسی کی نگاہیں فریش ویجیٹیبل کےسبزباغ دیکھاکرتیں اورہمالیہ کی بےآب وگیاہ سنگلاخ چٹانوں میں امید کی سبزکونپلیں کھِل کھِل جاتیں۔ کوئی پچھلےسنڈےمیگزین کی چاہت میں کرسی بنکر سے نکال دھوپ لگوارہاہوتا۔کسی کوکوئے یارسےمدت ہوئ چلے محبت نامےکا انتظارہوتا، کسی کوگھربارسےجواب خیریت کےپیام کا۔صاحبو استورسے ایچ ایم ٹی نہیں چلتی تھی ، امیدوں، آرزوؤں اورامنگوں کا ایک کارواں تھا جو اُن بل کھاتے راستوں پر رواں دواں ہوتا۔ ہم نے بھی بابا استورشاہ کے آستانے پر آس کا ایک دھاگا باندھ رکھا تھا اور انتظارکے دیے ہماری آنکھوں میں بھی روشن تھے۔
گلگت کے سفرپر روانہ ہونے سے پہلے ٹل سے زادِسفرباندھتےہم نےگیریژن لائبریری سےعلی پورکاایلی ایشوکروالی۔ ہماراخیال تھاکہ پوسٹ پر آپریشنل ذمہ داریوں سےجووقت بچے گااس میں مطالعےسےدل بہلائیں گے۔ لائبریری ریک میں ساتھ ہی الکھ نگری بھی قرینےسےرکھی تھی۔اسےیہ سوچ کر چھوڑدیاکہ پتہ نہیں پہلی والی کتاب پڑھ بھی پاتےہیں یانہیں۔ اس کی ایک اوروجہ بھی تھی۔ آپ فلائٹ لگیج پیک کررہےہوں یا ایف سی این اےپوسٹنگ کارک سیک۔ہروزن بڑھانےوالی چیزسے آپ اپناپنڈچھڑاتے ہیں۔ ایک کو تو ایئرلائن والےکلیئرنہیں کریں گے رہ گئی دوسری تووہ پاپ کی وہ گٹھڑی ہے جسے یا تو آپ نے پوسٹ کی جان توڑ چڑھائی میں خود اپنی کمر پر لاد کر ڈھوناہےیا کسی پورٹرنے جو کہ آپ جیسا ہی گوشت پوست کا انسان ہے۔ تو ہم نے الکھ نگری سے تو چشم پوشی کی مگر سیاچن کے عازمِ سفرہونے سے پہلے کراچی گئے تو مارگریٹ مچل کی ’گون وِد دا وِنڈ‘ بھی گناہوں کے بوجھ میں شامل کرلی۔ گھر سے رخصت ہونے لگے تو ہمیشہ کی طرح ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
آٹھویں جماعت میں ہم گھرسےسامان ڈھوکرکیڈٹ کالج آگئے تھے۔ تب بھی خدا حافظ کہتےوقت ماں جی کارونا ہمیں یاد ہے۔ اس کےبعد سےہمارااپنے گھر سے مہمان والا رشتہ رہا، جس کے آنے پر باقی بھائیوں اوربہن کو حسدمیں مبتلاکرنےوالی آؤ بھگت اورجاتے سمےماں کی آنکھوں میں آنسوایک مستقل معمول بن گئے۔چھٹی سے واپسی ایسا منظرہے ہماری زندگی نے جس کی ان گنت دفعہ ریہرسل کی ہےلیکن صاحب اس سکرپٹ میں جان ڈالنے والے ماں کے آنسو ہر دفعہ ایک نئی دعا ، ایک نیا محبت نامہ دل کو عطا کرتے ہیں جس کے بھروسے ہم نے بڑے لمبے سفربے دھڑک طے کیے ہیں۔خوش نصیب ہے وہ اولاد جسے کے والدین دعاکرنے
کو حیات ہیں اور جو وہ گھر سے نکلیں تو ماں کے آنسوؤں کا سائبان ان کے سروں پرسایہ کیے رہتا ہے۔
باپ سِراں دے تاج محمّد ، ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
تو صاحب جب ہم پوسٹ چڑھے تو ہمارے ساتھ علی پور کا ایلی اور گون ود دا ونڈ بھی تھیں۔ جغرافیائی اصطلاح میں جس بلندی سے اوپردرخت اور ہریاول ناپید ہوجائےاسےٹری لائن کہتے ہیں۔اس سے اوپر جائیں تو جس بلندی کےبعد زمین سارا سال برف کی سفید شال اوڑھے رکھتی ہےاسے سنو لائین کہا جاتاہے۔ صاحبو جو نکتہ جغرافیے کی کتابوں میں نہیں لکھا وہ یہ ہے کہ سنو لائن اور ٹری لائن کے بیچ ایک ایسا غیرمرئی مقام بھی آتا ہےجہاں وقت رک جاتا ہے ، باتیں ختم ہوجاتی ہیں اور ایک اداسی دل پر ڈیرا ڈالنے کو پھرتی ہے۔اس اداس بلندی پر اردوبولنے والا عمران، کشمیری بولنے والا نبی اور شنہا بولنےوالی رسول پناہ کی ٹیم ایک دوسرے کا سہاراتھے اور ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر جیتے تھے۔تو صاحب وقت رک گیا تھا اور پہلے تین ہفتوں تک ہم انگریزی ناول مکمل اور علی پور کا ایلی تین چوتھائی ختم کرچکے تھے۔ اگلےہفتے تک مرحوم صدیق سالک کی ہمہ یاراں دوزخ کی طرح سگریٹ کے پیکٹ اور صابن کے ریپرپڑھنے کی نوبت آگئی۔ہم نے پہلی ڈسڑیس کال نیچے بیس کیمپ کو دی۔
گلگت اورپنڈی میں ہرکارےدوڑائےگئےجوخبر لائےکہ ایف سی این اےاور ریئرہیڈکوارٹردونوں لائبریریوں میں گوہر مقصود دستیاب نہیں
اس وقت ہمالیہ کی بلندیوں میں ہمیں اپنی فوجی اماں شدت سے یاد آئیں۔ یونٹوں میں سیکنڈ ان کمانڈ عموماً سب سے سینیئرمیجرہوتاہے۔ اس عہدےکو ٹوآئی سی بھی لکھتےاور کہتےہیں۔ فوجی لوک روایتوں میں ٹوآئی سی کو یونٹ کی ماں کہتے ہیں۔ پوسٹ سے اگلی کال فوجی نیٹ پر ٹل کی گئی ، ٹو آئی سی سے بات ہوئی اور فوجی گنجائشوں کے حساب سے کسی قدرلاڈ میں راقم السطور نے گیریژن لائبریری کے ریک میں پڑی الکھ نگری کا ذکر کیا۔ تو صاحب جہاں کارگل کے پہاڑوں پر صاحبان خوش خصال و شیریں مقال انڈے اور مرغی ، سلاد و سنڈے میگزین یاپھر کسی محبت نامے کی آس لگائے منی مرگ اور استورکی سمت تکتے تھے وہیں کہیں ایک پوسٹ کمانڈرہنگو اور دوآبے کی ہمسائیگی میں ٹل سے چلی الکھ نگری کی راہ تکتا تھا۔
اردو کی آخری کتاب میں ہمسایہ ملک پر ایک تعارفی مضمون میں ابن انشاء لکھتے ہیں،’بھارت کے بادشاہوں میں راجہ اشوک اور راجہ نہرومشہورگزرے ہیں۔ اشوک سے ان کی لاٹ اوردہلی کا اشوکا ہوٹل یادگار ہیں اور نہرو جی کی یادگارمسٔلہ کشمیر ہے جو اشوک کی تمام یادگاروں سے مضبوط اور پائیدارمعلوم ہوتا ہے‘
صاحبو اس پائیدارمسئلے کو دوام بخشتی ایک ناپائیدار سی لکیرہے جو شکرگڑھ کی قربت میں نقشے پرخط شکست میں کھنچتی ہے تو کشمیرکے پربتوں کو کاٹتی چلتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ دنیا کی چھت تک پہنچتی ہمالہ کی فصیل بلند بانگ کو بھی دولخت کرتی سیدھی دو ہمسایہ ملکوں کے دل میں ترازو ہوتی ہے۔ ان گنت چھوٹے بڑے معرکوں اور تین عدد جنگوں کا خون پی کرپلی اس لائن آف کنٹرول کی خوبی یاخرابی اس کی ناپائیداری میں مضمرہے
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
اور صاحب خرابی کی یہی صورت بر بنائے فتوروفساد ہے۔ یہاں باڑ کیوں کھڑی ہوئی وہاں بنکرکیوں بنا، اِس باڑ کو گرادو اُس بنکرکو ڈھا دو، جونقش غیرکہن تم کو نظرآئے مٹادو۔ اگر دیکھا جائے تو لائن آف کنٹرول پر وقفے وقفے سے چھڑتی اس چاند ماری کا نقشہ ہوبہو اپنے مسدس حالی کے جیسا ہے (تھوڑی تحریف کے ساتھ، اللہ تعالیٰ اور مولانا الطاف حسین حالیؔ ہمیں معاف کریں)
کہیں ہے باڑھ اٹھانے پہ جھگڑا
کہیں بنکراک نیا بنانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی ہے تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی ہےتلوار ان میں
اس لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری سے جنوبی سمت نارووال سے نیچے نیچے بین الاقوامی سرحد کی رضامندانہ حد بندی ہے مگرآپسی اندیشے اور بےاعتباری کا یہ عالم ہے وہاں بہت سا لوہا اورکنکریٹ پلائی ، آدم کو پھلانگنے سے بازرکھتی اس کے قد سے کہیں اونچی خاردارتارکھڑی ہے۔ بہت پرانی بات نہیں ہے، ہمارے پڑھنے والوں کو احمد بشیرسسٹرز(مراد اس سے بشریٰ انصاری اورعاصمہ عباس ہیں) کا گایا اورانہی پرفلمایا گانا ہمسایہ ماں جایہ یاد ہوگا۔ درمیان میں کھنچی دیوارجس کے اوپر ریت اورسیمنٹ کے مضبوط گارے میں پیوست خون آشام کانچ کے ٹکڑے اپنا کٹیلا پھل اٹھا ئے کھڑے ہیں کہ کسی بھی اٹھتے ہاتھ کو چشم زدن میں خون میں نہلا دیں گے۔ دیوارکے دونوں اطراف سے ایک دوسرے کی سُن گُن لیتی ’گواہنڈنیں‘ ایک پیاربھری لجائیت سے بات کرتی ہیں مگر پھرایک سنی سنائی بات کا شک کئی خدشوں کا روپ دھارکرانکی آنکھوں پر اترتا ہے
ٹی وی تے میں سنیااے کہ تیرے کول ایٹم اے!
میں وی ایہوای سنیااے کہ تیرے کول ایٹم اے!
مگر یہ فکرمندی زیادہ دیر نہیں رہتی کہ بہت جلد باہمی رائے سے دونوں گرہستی خواتین متذکرہ ایٹم کو ’چُلّھے وچ پا کے‘ اور اس عمل کے لازمی نتیجے میں بجنے والے ’پٹاکوں‘ پر بھنگڑا ڈالنے کی ترغیب دلاتی ہیں ۔ جوہری توانائی کے تعاون سے پیش کیے جانے والےاس خوش آئند بھنگڑے کی تجویزپردونوں حکومتیں تادم تحریر خاموش ہیں۔ توصاحبو جب تک دونوں ملک ایک مشترکہ جوہری بھنگڑے کی سرکاری تائید نہیں کردیتے تب تک عسکری تلواروں کے سائے میں ایک طرف سے شکتی اور دوسری طرف سے اٹن چلتا رہے گا جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔
ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا، ہم جو کارگل کے پہاڑوں پر اگلو زن تھے۔ راوی چین کی بانسری بجارہاتھا کہ اس کی خود کی آنکھ لگ گئی۔ یکایک ہمارے پڑوس کی پوسٹوں پر چاند ماری شروع ہوئ اور بات بڑھتے بڑھتے دونوں اطراف کا توپخانہ گرجنا شروع ہوگیا اور یاران کامران ونگہبان جان و ہتھیارکی سلامتی کے لیے بنکروں کے محتاج ہوگئے۔ روزانہ کی دی جانے والی آل اوکے رپورٹ میں اردو کے کچھ نئے جملوں کا اضافہ ہوگیا اور ایک صبح رواں دواں رسول پناہ ایک دفعہ پھررک رک کر چلنے لگا۔ باہمی کرید و افہام سے معلوم ہوا کہ فائر پھر سے کھل جانے پر بٹالین ہیڈ کوارٹر سے پانی کے متعلق کچھ احکام موصول ہوئے ہیں۔ ابھی برف ٹھہرنا شروع نہیں ہوئی تھی یعنی پڑتی تو تھی مگرپگھل پگھل جاتی تھی ۔ ایسے میں ہم پینے اور ضرورت کا پانی پوسٹ سے تھوڑا دور اسی اونچائی پر دشمن کی ناک کے عین نیچے ایک چشمے سے لایا کرتے تھے جسے مقامی زبا ن میں سانگر کہتے ہیں۔ اب چونکہ محاذ اچانک گرم ہوگیا تھا تو انڈین پوسٹ کے فائر کی ڈائریکٹ زد میں آنے کے باعث ہماری چشمے تک کی آمدورفت پر پابندی لگ گئی۔ اور کچھ ہی دنوں میں انورمقصود کی زبانی ’آپ نہانے کا پوچھتے ہیں وہاں دھونے کے لالے پڑگئے‘۔
متبادل انتظام کی صورتحال کچھ یوں تھی کہ اب ہمارے دو جوانوں کی پارٹی کو لگ بھگ پانچ ہزار فٹ نیچے اتر کر بیس کیمپ سے جری کین میں پانی بھر کے کمر پر لاد دوبارہ پانچ ہزار فٹ کی جان توڑ چڑھائی چڑھنی پڑتی۔ یکایک پانی ایک متبرک جنس کی صورت اختیار کر گیا تھا جسے ہم پھونک پھونک کر برتنے پر آگئے تھے۔ صاحبو جوانمردی، جذبۂ جہاد اور شوق شہادت کی اہمیت اپنی جگہ ہمارے پڑھنے والے اتفاق کریں گے کہ ان کے ساتھ ساتھ
طہارت بھی ہے مطلوب و مقصود مومن
افسر کو نہائے ہفتے سے اوپرہوگیا تو ایک دن اپنے شیردل جوانوں کے ساتھ اترائی اور اس کے بعد کی چڑھائی کا کشٹ کاٹتے ہوئے بیس کیمپ کے پانی کے ذخیرے سے جسم کو سیراب کر آیا۔پوسٹ پر پہنچا تو رسول پناہ کے چہرے پر ناگواری کا سایہ سا تھا۔ پوچھنے پر فرمایا کہ آپ مہربانی کروبیس کیمپ نہانے مت جاؤ۔ جب آپ بولو ہم پانی ادھرلے کرکے آتاہوں۔ تفتیش کرنے پر پتہ لگا کہ بیس کیمپ کے صوبیدارنے کہیں رسول پناہ کو طعنہ دیا ہے کہ تم سے کمانڈر کے نہانے کا پانی اوپر نہیں لے جایا جاتا۔ یکبارگی ان جفاکش لوگوں کی سادہ لوحی اور ’غیرت ‘ پر بہت پیار آیا۔ صوبیدار صاحب کی حسبِ موقع و ضرورت ’تسلّی و تشفّی‘ کردینے کے بعد رسول پناہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر فوجی گراری جتھے اڑ گئی اوتھے اڑگئی۔ مجبوراً افسر نے آئندہ شاور کے ارادے کو لامحدود مدت کے لیے ملتوی کردیا۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اس کے کچھ ہی دن بعد پہاڑوں نے برف کی چادر مستقل اوڑھ لی اور ہم برف اکٹھی کرکے کے ٹوآئل کے سٹوو کی گرمی پر پگھلا گر پانی بنانے میں خود کفیل ہوئے تو گرم حمام کی قسمت بھی کھل گئی۔
ساتھ ہی ساتھ پینے کی بھی فراوانی نصیب ہوئی تو دھیان کچھ کھانے کی سمت منتقل ہوا۔ صاحب بنی نوع فوج نے سیاچن کی بلندیوں کو خوردنی اعتبارسے دو واضح گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ فریش کھانے والے اور ڈبہ کھانے والے۔ اس میں ایک بڑا دخل فوج کی لاجسٹک پلاننگ کو بھی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جہاں جہاں گاڑی کی پہنچ ہے اور ذرائع نقل وحمل کھلے ہیں وہاں فریش راشن دستیاب ہے۔ وہ بلندیاں جو بار برداری اور سامان ڈھونے کے لیے پورٹرز اور ان کے خچّروں کی محتاج ہوتی ہیں ان کی قسمت میں روز ازل سے ڈبہ لکھا جا چکا۔ ان میں اکثریت ثانی الذکر لوگوں کی ہے اور اسی تناسب سے ان میں حاسدین پائے جاتے ہیں۔ ہم چونکہ شروع دن سے قسمت کے دھنی واقع ہوئے ہیں تو ہمارا پانسہ حسد کرنے والی جماعت یعنی ڈبہ کھانے والے خانے میں گرا۔
اگراسّی ۔ نوے کی دہائی میں آپ کی مسیں بھیگ رہی تھیں یا پھر انگیا کسی وجہ سے جس کا بھلا سا نام ہے روز تنگ سے تنگ ترہوئی جاتی تھی توعین ممکن ہے کہ لفظ ڈبہ یادداشت کے پردے پر کچھ پرانی تصویریں تازہ کردے۔احمد اورفریش ویل کا دور تھا اوران کی مصنوعات کے اشتہاروں میں ٹن ڈبے میں سربمہر بند تیار سالن بھی ہوتے تھے۔ دور پرے کے آپ کے وہ رشتے دار جو چھٹیوں سے خلیجی ممالک کو واپس پلٹتے کراچی میں ایک آدھی رات یا دن کے لیے آپ کے مہمان بنتے انہیں ساتھ لیتے جاتے۔ اللہ ہماری اماں کو خوش و خرم اور سلامت رکھے لڑکپن میں ہماری حسرت ہی رہی کہ ہمیں بھی کبھی وہ رنگین رال ٹپکواتی تصویروں سے لیس ڈبے سے کھانے کا موقع ملتا۔ کسے معلوم تھا کہ لڑکپن کی یہ کسک سیاچن کی بلندیوں پر کچھ اس فراوانی سے نکلے گی کہ اگلے پچھلے سب قرض بے باق کردے گی۔صاحب ہم یہ تو نہیں بتاسکتے کہ نوے کی دہائی میں ایک چاؤ سے پیک کیے ڈبوں کے مواد کا اصل ذائقہ کیاتھا مگر شنید ہے کہ اجزائے ترکیبی اور ان کی دیرپا تاریخ منسوخی کا بنیادی جزو زبید ہ آپا کے ٹوٹکوں کی طرح ایک ہی رہا ہوگا۔یعنی اچار۔ اب آپ اس پروہ مشہورفوجی محاورہ لاگو کردیں۔ فوج کے ایمونیشن اور راشن کی سپلائی سب سے کم بولی لگانے والے ٹھیکیدارکے حصے میں آتی ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھیے کہ اگر آپ کی پانچوں حسیں ٹھیک کام کررہی ہیں اور چھٹی میں کوئی فتورنہیں ہے تو معلوم ہی نہیں پڑتا تھا کہ جو ڈبہ آج کھارہے ہیں اس میں قرون اولیٰ کے زمانے میں حنوط کیا گیا مرغی کا سالن ہے یا قریب قریب اسی زمانے کی آلو گوبھی۔ یا پھر پیوند کاری کی برکتوں سے اگائی گئی اے ٹی جی ایم یعنی آلو ٹماٹر گاجر مٹر کی کوئی نایاب قسم۔ ہمارے آپ کے سر کی قسم لگتا تھا اچارکے ساتھ روٹی کھارہے ہیں۔اب جن کی قسمت میں تین ٹائم اچارکے ساتھ روٹی کھانا لکھا جاچکاہو تو یہ کہنے کے مقابلے میں کہ ہم کھانا کھاتے تھے یہ کہنا حقیت کے زیادہ قریب ہوگا کہ ہم روز کھانے کا سیریل ٹک کرتے تھے۔
لیکن صاحب اب اتنا بھی کال نہیں پڑا تھا کہ اچار ہی کھاتے چلے جاتے ۔ استور سے چلی ایچ ایم ٹی کی برکت سے ہفتوں میں کبھی کبھار اپنی اصلی حالت میں سبزی اور کڑ کڑ کرتی جنس تازہ زندہ حالت میں پہنچ ہی جاتی ۔ مگر اس کے ساتھ جو سلوک ہوتا وہ کچھ کچھ اس پنجابی محاورے سے ملتا جلتا تھا جس میں ایک بھولی بھالی تیسری جنس کے ہاں ’منڈاجمنے‘کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا ذکرہے۔
تو صاحبوجاڑوں کی آمد کی ایک کٹیلی صبح کا ذکر ہے ایک دن کڑکڑانے کی جگہ اچانک ممیانے کی آواز سے آنکھ کھلی ۔ اگلو سے باہر نکل کر دیکھا تو لگا کہ گوشت خوری کے خواب ِ غفلت کی بھول بھلیوں میں گم افسر سیاچن کے آسمان سے گر کر کسی بکرا پیڑی کی کھجور پر اٹک گیا ہے۔ اس تنگ سی جگہ میں جہاں چھ لوگوں کے اژدہام میں عقل دھرنے کی جگہ نہ تھی، چار بکرے قطار اندر قطار باہر نکلی آنکھوں اور پھولتی سانسوں کے تھپیڑوں میں لت پت حیران پریشان ممیارہے تھے۔
دیارغیرمیں عید کے چاند اور ماں کے پکوان سے جڑا شان والوں کا جذباتی اشتہارہمارے پڑھنے والوں کو یاد ہوگاجس میں بڑا بھائی امی کی فراہم کردہ ریسیپی کا جزواعظم یعنی شان بمبئی بریانی مصالحے کا پیکٹ استعمال کرتے ہوئے چھوٹے بھائی کے لیے ہوبہو پیکٹ سے مشابہ بریانی تیارکرکے جھٹ پٹ پروس دیتا ہے۔اشتہارمیں تواس کےعلاوہ اوربھی بہت کچھ تھا جیسے کہ بیک گراؤنڈ سکورمیں دعائیں لکھ کے چاند پرٹانگنے کی شاعرانہ مگرسائنس کے اصولوں سے متصادم تمنا، بھائیوں کے آنسو اور بیٹے کی فلیٹ آمد سے سنکرونائزڈ ماں کی انٹرنیشنل زوم کال وغیرہ مگر ہم بوجۂ طوالت ان کا ذکرنہیں کریں گے۔
صاحبو! چھاؤنیوں کے سکھ سے دورجب وردی بوٹوں والے سکیم پر یا پھرمیدانِ جنگ کی قربت میں فوجی کینوس میں خیمہ زن ہوتے ہیں تو چاند نکلے یا نہ نکلے گھرکا سکھ اور اس کے پکوان بے طرح یاد آتے ہیں۔ اب چونکہ زندگی شان مصالحے کا اشتہارنہیں ہے تو مصالحے کے پیکٹ کی جگہ آفیسرزمیس کے نمک مرچ اور گرم مصالحے کے پلاسٹک کے ڈبوں کا تصورکرلیجئے اوربڑے بھائی کی جگہ میس کک (باورچی) خالق کا۔ اب اس تصوراتی خاکے میں کراچی کا رنگ بھرتے امی کی ریسیپی کی جگہ لیتے میجرشاہنواز کو لے لیجیے کہ یونٹ کے سیکنڈ ان کمانڈ ہونے کی رعایت سے ان کا درجہ یونٹ کی ماں کا ہی توتھا۔
تو واقعہ کچھ یوں ہے کہ گجرات کے میدان کارزارمیں کبھی بھی چھِڑجانے والی جنگ کی تیاری میں پلٹن جذبۂ جہاد سے سرشارتھی۔ ایسے میں کھانے کا ہوش کس کافر کو تھا۔ آفیسرزمیس کا بھلامانس کک خالق جو من وسلویٰ پروس دیتا ہم چپ چاپ صبرشکرسے کھالیتے۔ جنگ نے نہ ہونا تھا نہ ہوئی اور دھیرے دھیرے میدانِ کارزار ٹریننگ زون بن گیا تو ہم پر بھی واضح ہوگیا کہ چھ مہینے سال تک تو ہم کہیں نہیں جاتے۔ ایسے میں وسطی پنجاب کی ایک گردآلود شام جب حبس زوروں پرتھا اور دورافق پر ایک لال آندھی طلوع ہونے کو پر تولتی تھی میجرشاہنوازکو گھرکے پکوانوں سے جڑاعید کا چاند نظرآگیا۔
میس کے تمبو سے باہرجہاں افسروں کی ٹولی شام کی چائے سے دل بہلارہی تھی خالق کی طلبی ہوگئی۔ صاحب ہم دم بھرکو پیچھے ہٹ جاتے ہیں آپ ذری کراچی کے نستعلیق لہجے اور جھنگ کی رس بھری بولی کے مکالموں کا مزہ لیجئے
اماں خالق تم چکن کری بنالیتے ہو
جی سر
اچھا تو بتائیے کیسے بنتی ہے
سر کڑاہی لواں گا، وچ گنڈے سٹاں گا، ہری مرچ مصالحہ تے فیر چکن پا دیاں گے
اچھا توچکن کڑاہی بھی بنالیتے ہو
جی سر
اماں وہ کیسے بناتے ہو
اوہوای سر، کڑاہی لواں گا، وچ ٹماٹرپاواں گا، ہری مرچ مصالحہ تے فیر چکن
!بیڑا غرق ، دونوں میں فرق کیا تھا
سر کڑاہی وچ گنڈیاں دی تھاں ٹماٹرپائے تاں ہیگے
اتنے میں آندھی آ گئی
کارگل کےپہاڑوں پرسردیوں کی آمد کی کٹیلی صبح قطاراندرقطارچارممیاتے بکروں کو دیکھ کر جب کچھ اوسان بحال ہوئے اور یہ یقین ہوگیا کہ ہم خواب نہیں دیکھ رہے تو معلوم پڑا کہ یہ پوسٹ پرمقیم نفوس کا رواں سردیوں کے حصے کا مِیٹ آن ہوُف تھا۔ مِیٹ آن ہوُف کا آسان ترجمہ کریں تو یوں سمجھ لیجیے اپنے پاؤں پرچل کرآنے والاراشن ۔ سردیوں کی راشن ڈمپنگ جاری تھی اور یہ چارزندہ بکرے اپنے پاؤں پرچڑھتے لڑھکتے سنگلاخ چٹانوں اور ان گنت دعاؤں کے سائے میں سرمقتل آئے تھے۔ یوسفیؔ نے لکھاہے کہ مسلمان کسی ایسے جانورکو پیاربھری نظروں سے دیکھ ہی نہیں سکتے جسے وہ ذبح کرکے کھانہ سکیں۔تو صاحب وہاں ہمالیہ کی بلندیوں پر ہمارے پوسٹ کے مکین بشمول ہمارے جن نظروں سے ان بکروں کودیکھ رہے تھے وہ پیار بھری تو نہیں البتہ للچائی ہوئی ضرورتھیں۔ ران ، دستی، گردن کو بتدریج ٹٹولتی اور پپولتی ہوئ۔مڈھ قدیم سے ڈبہ اوراسکے مشمولات بمعہ اچارکھاتے بے قناعتے شکموں پر ان برفاب چوٹیوں میں شان مصالحےکے اشتہارکاچاند طلوع ہوگیاتھااور چارسو چھٹکی چاندنی میں ہم اپنی اپنی ریسیپیوں کو یادداشت کے پردے پرحفظ کرنے میں لگ گئے تھے۔
ایک ہی رات کی چابکدستی میں جب چارقربانیوں کی رسم بطریق احسن ادا ہوگئی اور گوشت کے پارچے ہمالیہ کے برفیلے مدفن میں محفوظ کرلیے گئے تو ہم پرمنکشف ہواکہ بلتی کوُزیِن میں ذبح شدہ بکرے کا ہرعضو کسی نہ کسی ترکیب میں خوردنی اور مباح ہے سوائے سِری کے۔ ہم نے پوسٹ کک نبی کو بمشکل ان چارسرین کو تلف کرنے سے روکے رکھا کہ ہمارے اند رکا لاہوری مغزاوربرین مصالحے کی لعاب دارخواہش پر ریجھ سا گیا تھا۔ اب وہاں نہ شان مصالحے کے پیکٹ اور نہ ہی اماں کے باورچی خانے کی ترکییبیں ۔ یادداشت کی زنبیل کو ٹٹولاتو یوسفیؔ کے یارطرح دار بشارت علی فاروقی جو کھانے کے معاملے میں کافی نفاست پسند واقع ہوئے تھے، کا بھنے ہوئے مغزکی مدح میں یہ فرمان یاد آیا۔
لہسن کا چھینٹا دے دے کے بھونا جائےاور پھٹکیوں کو گھوٹ دیا جائے تو ساری بساند نکل جاتی ہے۔ بشرطیکہ گرم مصالحہ ذرا بولتا ہوا اور مرچیں بھی چہکا مارتی ہوں۔
اگلو میں ہمارے اگلےحکم کے انتظارمیں کھڑے نبی کے سامنے مندرجہ بالا ترکیب کے الفاظ کی ہم نے دل ہی دل میں چند ایک مرتبہ جگالی کی تو سچ بتائیں ہماری بات کھولنے کی ہمت ہی نہیں پڑی۔ گجرات کے کارزارمیں مکالمۂ خالق و شاہنواز ہو یا ہمالیہ کے برف زار میں موازنۂ عمران ونبی حاصل کلام چکن کڑاہی اور بھنے مغز کی فال نکالنے کو ہمارے قارئین کی ذہانت کافی ہے۔
صاحبو، ان آدم بیزار بلندیوں پرجہاں موسم کی شدتیں دوسرے علاقوں سے کہیں بڑھ کر اثرانداز ہوتی ہیں اورزندگی کی ساعتیں کسی غش کھائے کھچوے کی سی سست رفتاری سے گزرتی ہیں، وہاں بھی موسم بادل سورج اورہوا دل پر محبت کسک خوشی اورغم کی آنکھ مچولی کھیلنا نہیں چھوڑتے جو نسل انسانی کو ودیعت ہوئی ہے، کہ وہاں کے رہنے والے بھی ہماری آپ کی طرح کے انسان ہیں اور ہمالیہ کے برفستان میں بھی ان کے سینے میں ایک دل ہے کہ جو دھڑکتا ہے۔ ۱۵ ہزارفٹ کی بلندی پربھی سورج کاطلوع ہونا امید کا پیامبربن کے آتا ہے اور دن ڈھلنے اورشام کے اترنے کا منظراداس کردینے والا ہوتا ہے۔ بانو قدسیہ نے راجہ گدھ میں شام کا ذکربہت تفصیل سے کیاہے ۔ شام جو آفتاب کو ایئرپورٹ پر سی آف کرکے پلٹتے قیوم کو چھاؤنی میں ملی تھی ۔ بانو آپا کاماننا ہےکہ
شام کے وقت ہمارے اندررہنے والے پتھراوردھات کے زمانے والے انسان کے ساتھ بہت کچھ بیت جاتی ہے۔تہذیب کے ہر قیدی کے اندرہرسانس کے ساتھ شام داخل ہوتی ہے۔ کندھے پرشکارکیاہوا بارہ سنگھا لٹکائے ہزاروں سال پہلے غارکارہنے والا جس طرح گھر کو بھاگتا تھا آج بھی اپنی اپنی جان کو کندھے پر مشکیزے کی طرح لٹکائےسب شہری لوگ پناہ کی طرف بھاگتے ہیں۔ سب شام سے بدکتے ہیں۔ اندھیرے سے ڈرتے ہیں۔
ہمالہ کے بلند معبدوں میں جب سائے لمبے ہوتے تھے تو ہم غاروں میں رہنے والے کل کے نور کی آس کے بارہ سنگھے کندھوں پر ڈھو اپنے اپنے بنکروں کی طرف بدک جاتے
بے وفائی کی گھڑی، ترک مدارات کا وقت
ترک دنیا کا سماں ختم ملاقات کا وقت
ہم بھی اپنی تنہائی سمیٹتے بچھاتے اگلو کی راہ لیتے اور اندرکے شورکو دبانے کے لیے ٹرانزسٹرآن کرکے آواز اونچی کردیتے۔ باہر جیسے جیسے سیاہی اجالے میں گھلتی چلی جاتی دل کی سپاٹ زمینوں پر یادوں کےدیے اورایک محبت کے جگنو اترنے لگتے ۔ مغرب کے فوراًبعد کا یہ وقت آپریٹرکے تھرو گھر بات کرنے کا ہوتا۔ لیکن ہم گھربات کرنے کے بہانے فون کہیں اورکرتے تھے۔
ہم نے اپنے کسی مضمون میں کراچی کی مضافاتی بستی سٹیل ٹاؤن میں اپنی رہائش کا ذکرکیا ہے۔ وہاں سے ہم نے کرائے کے گھر کو خداحافظ کہا تو سٹیل ٹاؤن سے متصل نوتعمیرشدہ گلشن حدید میں مالکانہ حقوق کے ساتھ اپنے گھرمیں منتقل ہوگئے۔ ایک بڑے شہرکا مضافاتی سٹیٹس کیا ہوتا ہے اس سے اندازہ لگائیے کہ گلشن حدید کو پہلی ٹیلیفون ایکسچینج عطاہوئ تو ساتھ ہی کراچی سے الگ علاقائی کوڈ بھی تحفے میں ملا۔ یعنی کراچی سے گلشن حدید فون کرنے والے نمبرسے پہلے علاقائی کوڈ ۰۲۰۱ ڈائل کرتے تھےاور گلشن حدید والے اس کا الٹ یعنی نمبرسے پہلے کراچی کا کوڈ ۰۲۱ ملاتے۔ اب چھاؤنی کراچی میں تھی تو پیسکام (فوجی ٹیلیفون) پر بات بھی کراچی کے لوکل نمبرپرہوسکتی تھی۔ اس کا حل ہم نے یہ نکالا کہ ماڈل کالونی میں ایک دورکے تایا سے رشتے داری بشرط استواری کی داغ بیل ڈالی۔ ان کے بچے ہمارے ہم عمرتھے اوردونوں خاندانوں کا گھروں میں آنا جاناتھا۔ تو ہم انہیں تواتر کے ساتھ فون کرنے اور ان کی وساطت سے اپنی خیریت گھروالوں تک ریلے کرنے لگے۔ اماں کا دل جب بات کرنے کو بہت بے تاب ہوتاتو سارا ٹبرویک اینڈ پر گلشن حدید سے ماڈل کالونی آ براجمان ہوتا اور اس دن کی کال پر ہماری اپنے گھروالوں سے بات ہوجاتی۔ ہماری پہاڑوں کی پوسٹنگ کے دوران گھروالوں کےاس تواترسے ماڈل کالونی آنے جانے نے چن تو پھرچڑھانا تھا ۔ ہمارے تایا کے گھر سے ایک دخترنیک اخترسعید صاحب کے ہم سے چھوٹے بیٹے کے عقد میں آئیں۔ ہم آج بھی رضوان کو چھیڑتے ہیں کہ ہماری سیاچن پوسٹنگ کے صدقے اس گھر کو ایک بھابھی نصیب ہوئی ورنہ عالم تو یہ تھا کہ
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
دیکھیے بات اگلو کی شام سے چلی تو کہیں کی کہیں چلی گئی۔ تو صاحبو جب رات جوبن پر آنے لگتی تو اگلو میں پارٹی لائن آن ہوجاتی۔ یہ ایک سیکٹر کے تمام پوسٹ کمانڈروں کا فیلڈ ٹیلیفونک لنک تھا۔ دن بھر کے حالات، سچوئیشن رپورٹس، عدو پر فائرگرانے اور خود پر فائرآنے کی تفصیل ، اپنی اپنی چھٹی جانے کے دنوں کی گنتی کی الٹی ترتیب (کاؤنٹ ڈاؤن) ، چھٹی گئے ہوؤں کے باقی ماندہ دنوں کی گنتی کی سیدھی ترتیب، لطیفے، چٹکلے، غزلیں، نظمیں، گانے، ترانے کیا نہیں تھا پارٹی لائن پر۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ ہمارا سیاچن کا لہکتا چہکتا ایف ایم سٹیشن تھا جسے بارہ ہزار فٹ سے لے کر پندرہ، سولہ ہزارفٹ کی تمام بلندیاں کیچ کرتی تھیں۔ مگراس پارٹی لائن کے آن ایئرہونے سے پہلے شام کی ٹاسک لسٹ پر ایک اور سیریل کا ٹک ہونا بہت ضروری تھا۔ ریڈیو پاکستان کے اسلام آباد سٹیشن سے مواصلاتی لہروں پر نشر کیا جانے والا فوجی بھائیوں کے لیے وقف انکے عزیزوں کے پیغام اور پاکستانی فلمی گانے نشرکرتا پروگرام۔ بدلتے ناموں اور بدلتی آوازوں کے ساتھ کبھی آپکی فرمائش کبھی جاگتا پاکستان اور کبھی کچھ اور، چاہت کے عنوان بدلتے رہے مگر بلندیوں پرفائز فوجیوں کے نام نشیب سے بھیجے گئے چاہنے والوں کے پیاموں میں محبتوں کی شدت اور گئے دنوں کے گانوں اور دوگانوں کے انتخاب کی نغمگی سدابہاررہی۔
تو صاحبو ہمالہ کی سردشاموں کی بے مہرہواؤں میں ایک گرم اگلوکی مہربان آغوش میں ایک ٹرانزسٹربجتا تھااور اس پر ایک تواترکے ساتھ ہرنغمے سے پہلے کچھ محبو ب نام گونجتے تھے۔ ان میں کئی دفعہ ہمارے نام بھی گونجے ، عمران، رسول پناہ، ابراہیم، قاسم ، شاہ خان ، عبدالنبی اور دوسرے۔ یہ نام ہمارے وہاں سے چلے آنے کے بعد بھی گونجے ہوں گے اور ہمالہ کے پہاڑ آج بھی ان کی بازگشت سنتے ہوں گے کہ میدانِ کارزار بھی وہیں ہے اور چوکیاں بھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ۲۰۰۲ کی سرد شاموں میں ایک نام دوسروں سے زیادہ، بہت زیادہ پکارا اورسنا گیا۔ کیپٹن عمرجمشید۔ عمر ہماراکورس میٹ ، اسلام آباد میں مقیم اپنی والدہ کا اکلوتا بیٹا اور بہنوں کا اکلوتا بھائی جب سیاچن کی برف پوش بلندیوں پرتھا تو اس کے نام محبت کے پیام ریڈیو کی وساطت سے روز بلاناغہ نشرہوتے تھے۔ اسلام آبادکے ایچ ۸ کےقبرستان میں جنازہ گاہ والے داخلی دروازے سے اندرآتے ہی پہلی روش پر بائیں مڑ جائیں تو تھوڑا آگے جاکر کیپٹن عمرجمشید شہید کا مدفن ہے۔ اپنے چاہنے والوں کے پیغام سمیٹتا عمرجمشید ۲۰۰۲ کی اپنی سیاچن پوسٹنگ میں وطن پرنثارہوگیا۔ سیاچن کی برفاب بلندیاں اور کٹھورموسم خراج مانگتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ کون کس کا کتنا محبوب اور کسی کا کوئی کتنا طلبگارہے۔
اج تڑکے مر گیا جیہڑا چاواں نال پلیا سی
ہم اپنی پوسٹنگ کی مدت پوری کرکے کارگل کے پہاڑوں سے بخیریت نیچے اترآئے تھےمگرابھی ہماری قسمت میں چند سالوں کی دوری پرہمالیہ کا ایک اور پروانہ لکھا جاناتھا۔ میجرکے رینک میں اپنی اگلی پوسٹنگ پر ہم سکردو سے کچھ دور گمبہ میں تعینات تھے۔ یہاں فوج کا کمبائنڈ ملٹری اسپتال بھی ہے۔اسی روڈ پر ایک روز بڑھئی کی دکان سے گزرہوا تولکڑی کے کچھ تابوتوں پرنظرپڑی۔ یہ سی ایم ایچ گمبہ کی کیژوالٹی سپلائی لائن تھی۔ دشمن کے فائر سے کم اور موسم کی سختیوں سے زیادہ شہید ہونے والوں کے جسد خاکی اسی اسپتال کے سردخانے میں آتے تھے اور ان تابوتوں کو اپنا مسکن کرتے راولپنڈی کی طرف پروازکرجاتے۔ بہت سال نہیں گزرے کہ اسی سرد خانے میں عمرجمشید بھی پل بھرکوٹھہراہوگااور آنے والے دنوں میں خدامعلوم کتنے عمراور ٹھہریں گے۔ گمبہ سی ایم ایچ روڈ پر اس دوپہرہم نے ان بے نامی تابوتوں کو بہت غورسے دیکھا مگر کہیں کوئی نام ، کوئی اشارہ نظرنہیں پڑا۔ صاحبو! شہادت کے رتبے پر سرفرازی تو بارگاہِ ایزدی کی دین ہے۔ جب چاہے جسے چاہے دے جسے چاہے محروم رکھے۔ ان بے نامی تابوتوں کی طرح یہ زندگیاں بھی تو ایک بے نامی موت کی امانت ہیں۔ جب چاہے جہاں چاہے آن دبوچے۔
ایک بے پرواہ کی عنایت اس ناپائیدار زندگی کے کینوس پر یادیں ہی تو ہیں جو سدابہارہیں ۔ وہ پل جو کارگل کے پہاڑوں میں گزرے ، وہ مہربان اور بے مہر ساعتیں جو چاہنے والوں اور مرنے مارنے پر آمادہ لوگوں کے درمیان بیت گئیں ان کی یاد اب دل کو توانا کرتی اور حال کے منظرمیں ماضی کے رنگ بھرتی ہے۔ اس رنگین سفرمیں آپ ہمارے ساتھ رہے۔ آپکا بہت شکریہ۔ اللہ حافظ وناصر۔