ہر جاندار اپنی نسل سے بہت محبت کرتا ہے مگر انسان کا خیال ہے کہ وہی واحد جاندار ہے جو اپنی اولاد کے نفع نقصان کا سوچتا ہے، انسانوں کی نسبت باقی تمام جانداروں کا رویہ اپنی اولاد کے ساتھ قدرے مختلف ہوتا ہے اور بہت غور کرنے کے بعد میں بھی یہی نتیجہ اخذ کر سکی کہ انسان بلا وجہ اپنی کے مستقبل کے لیۓ خوار ہوتا ہے انسانی گود میں آنے سے پہلے بھی وہ بچے کسی نہ کسی شکل میں کہیں موجود ہوں گے اور دنیا سے رخصتی کے بعد بھی انسان کا ہیولہ کسی کاٸنات کا حصہ ضرور بنتا ہے مگر آنے اور جانے کے درمیانی وقت میں ہم اپنی زندگی کا قیمتی وقت وراثت جمع کرنے میں صرف کرتے ہیں یا ان دیکھے مستقبل کے خوف میں مبتلا موجودہ لمحوں کی خوشیوں کو بھی ضاٸع کر دیتے ہیں، مگر دوسرے جاندار ایک مخصوص وقت تک بچوں کی پرورش کے ذمہ دار ہوتے ہیں اس کے بعد ایک ہی ٹہنی پر بیٹھے دو پرندے بھی واقف نہیں بنتے۔
میرے ننھیال میں مرغیاں ہوا کرتی تھیں ان کے چوزے جب ذرا بڑے ہو جاتے تو مرغی خود چونچیں مار کر چوزوں کو خود سے جدا کر دیتی، میں اگر مذہبی حوالے سے دیکھوں تب بھی یہی چیز واضح ہوتی ہے کہ والدین ایک خاص وقت تک اولاد کی تربیت کے ذمہدار ہیں بالغ انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار خود ٹھہرایا گیا اسلام میں اور اولاد کو بھی والدین کا پورا احترام کرنے کا حکم دیا ، شادی کے بعد الگ رہنے کی بھی اجازت دی مگر ہم کیا کرتے ہیں اولاد کو بھیڑ بکریوں کی طرح کا مال سمجھ کر ساری زندگی قابو میں رکھتے ہیں اور بچے نہ قوت فیصلہ رکھتے ہیں نہ تربیت مکمل ہوتی ہے جبکہ وراثت کی صورت میں والدین مال جوڑ کر دے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہڈ حرام ہو جاتے ہیں۔