ہم لوگ بڑے سادہ ہیں، ہم سیاستدانوں ، پیروں اور جنرلز کی تعظیم کریں گے، عُلماء کرام کے پیر چُھو کر اُن کو سلام کریں گے۔ فوجی یا جنگی شُہدا کو خراج عقیدت پیش کریں گے تو کھیل کے میدانوں میں کِھلاڑیوں کو بھی ہیروز کہیں گے حالانکہ وُہ زیادہ سے زیادہ سٹارز ہوسکتے ہیں ؛ خیر یہ الگ بحث ہے ۔ لیکن اُنّیس سو سینتالیس میں پاکستان بننے سے لے کر آج تک صِرف دو نوبل پرائز پاکستان کے حِصے میں آئے ہیں ۔ ایک مُمتاز سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام مرحوم اور ایک کم عُمر بچی ملالہ یُوسفزئی ۔
ہماری بدنصیبی کہیں، بداعتمادی یا عشروں کی بوئی نفرت اور سازشی نظریات کی فصل کا پھل کہ یہ دونوں ہی مُلک کی ایک کثیر تعداد کے نزدیک نہ ہیروز ہیں، نہ اِن کو قابلِ رشک نِگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ اوّل الذکر ڈاکٹر عبدالسلام کو میں پاکستان کا آرگیوبلی واحد جینوئین سائنسدان سمجھتا ہُوں جنہیں نوبل پرائز مِلا۔ اُن سے نفرت کی بڑی وجہ اُن کا عقیدہ تھا اور آج تک نفرت کی یہی وجہ ہے ۔ اِس میں قُصور محض عوام کا نہیں بلکہ ریاست کا بھی ہے جنہوں نے خاطر خواہ طور پر ڈاکٹر صاحب کو پروموٹ نہیں کِیا ، کتابوں میں اُن کا ذِکر بتدریج کم ہوتا گیا، کم کرتے گئے ۔ کُچھ عجب نہیں کہ نئی نسل کے بُہت افراد کو اُن کے بارے میں کُچھ معلوم ہی نہ ہو ۔
ملالہ یُوسفزئی اگر کِسی اور مُلک سے تعلق رکھتی تو اُن ممالک کے افراد نے اُس کی عزت کرنی تھی ، فخر کرنا تھا لیکن اپنے ہاں سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ بچ کیسے گئی ، گولی کا نشان کہاں ہے ، اُس کے ساتھ دُوسری لڑکیوں کو اِتنی پذیرائی کیوں نہ مِلی ؟ ایسے ہی دیگر لایعنی سوالات کا ایک طُوفان ہے ۔
بُہت لوگوں کے نزدیک اُس نے کیا ایسا کارنامہ سرانجام دِیا تھا جو اُس کو مغرب نے اِتنا سراہا ؟ یہ بات یقین کریں اِس ذہنیت کو سمجھانی نامُمکن ہے کہ جِس کے نزدیک بہادری کا معیار وطن کے لیے شہید ہو جانے سے آگے کُچھ بھی نہیں جبکہ مغرب کے پاس بہادری کا معیار وطن کے لیے شہید ہوجانے والوں کے عِلاوہ کِسی بڑی دہشتگرد تنظیم یا مسلح جدوجہد کرنے والوں کے سامنے ایک چھوٹی سی آواز بھی ہے ۔ کوئی آگ بُجھانے والا اہلکار ، کوئی سوشل ورکر ، اُستاد یا ڈاکٹر بھی ہوسکتا ہے ۔
جب یہ مذہبی شِدت پسند ہر جگہ حملے کر رہے تھے ، جب ہمارے نامی گرامی سیاستدان بھی اِن کے آگے پسپا تھے اور کُچھ کرنے کی سکت تو دُور کُچھ بولنے سے بھی قاصِر تھے تب ایک معصوم آواز اِن کے خِلاف بولتی تھی ۔ جب بچیوں کے سکول جلائے جا رہے تھے ، اُن پر تعلیم کے دروازے بند کیے جارہے تھے تب اِس ظالمانہ رویے کے آگے ڈٹ جانا ہی اصل ہیرو ازم تھا بھلے یہ فعل بظاہر آپ کے لیے کِتنا عام ہی کیوں نہ ہو ۔
شُہرت ہر ایک کو نہ مِلتی ہے نہ وُہ اُس کا حقدار ہوتا ہے ۔ ناچیز کا تو یہ ماننا ہے کہ عزت اور شُہرت اللہ پاک کی دَین ہے اور ملالہ یُوسفزئی کو یہ عزت اور شُہرت اللہ پاک نے دِی ہے اِس پر اعتراض اور چیں بہ چیں محض اللہ کے کاموں اور حکمت میں مُداخلت ہے ۔ اپنا دِل بڑا کریں اور حقدار کو عزت دیں ۔ آپ نہیں بھی دیں گے تو بھی دُنیا تو عزت دے رہی ہے ۔
شرمین عُبید چِنائے ، ڈبل آسکر ایوارڈ وِنر خاتون اِس لیے ہماری نفرت کا شِکار ہے کیونکہ اُس نے ہمارا “ خُوبصورت چہرہ “ دُنیا کو دِکھا دِیا اور ہم پریشان ہیں کہ بھئی ہمارے ہاں تو کوئی بندہ عورتوں پر تیزاب نہیں پھینکتا ، یہاں تو ایسا کوئی مسئلہ ہی نہیں ، یہاں تو غیرت کے نام پر عورت قتل نہیں ہوتی ۔ اِس عورت نے دیکھو کیسے خواہ مخواہ پاکستان کو بدنام کردیا ۔ اُف کِتنی عجیب عورت ہے ۔
دیکھیں جناب اُس نے جو تھا وُہی دِکھایا ہے ۔ اب ہمارے ہاں چند معاملات مثبت ہیں ، مثلاً ہم خُوش مزاج لوگ ہیں ، مہمان نواز ہیں ، ہمارے ہاں قُدرتی خُوبصورتی ہے ، مُختلف کلچر ہیں ۔ اِن پر بھی بولنا چاہئیے ، لِکھنا چاہئیے ۔ دُرست بات ہے لیکن جو مسائل ہیں اُن کو بھی تو کِسی نہ کِسی نے اُجاگر کرنا ہی ہے ۔ نہیں ؟ تو اُس نے دُنیا کو وُہی دِکھایا جو ہمارے معاشرے میں موجود ہے ۔
بات بُہت طویل ہوسکتی ہے اِسی لیے یہیں لپیٹ کر بس اِتنا کہوں گا کہ سوچ کا زاویہ تبدیل کریں ۔ اچھا احساس ہوگا ۔