(Last Updated On: )
تحریر: محمد یوسف وحید
مدیر: شعوروادراک (خان پور)
موجودہ وقت اور حالات میں اس قومی نعرہ کو عملی طور پر اپنانے کی ضرورت ہے ۔ ملک بھر کے باشعور اور
ذمہ دارشہریوں کا فرض ہے کہ محبت ، امن ، برداشت اور یک جہتی کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کریں
خونِ دل دے کے نکھاریں گے رُخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
دنیا کے ہر انسان کے لیے وطن سے محبت ایک فطری عمل ہے ۔ وطن کے لیے مرنا ، اپنی دھرتی اور مٹی سے پیار و محبت کے جذبے سے لبریز ہونا اور جاں نثار ہونا کوئی اَنہونی بات نہیں بلکہ عشق و محبت کی نہایت عمدہ اور لازوال مثال ہے ۔ وطن کی محبت ماں کی محبت کی طرح ہے جو ہمیشہ ساتھ رہتی ہے۔وطن سے مجھے بھی محبت اور پیار ہے ۔ وطن سے محبت کرنے والے کسی بھی مذہب ، مسلک ، فکر ، جماعت ، زبان و بیان ، رنگ و نسل ، تہذیب و ثقافت ، ذات پات اور برادری سے تعلق رکھتے ہوں ‘وطن پر فداکاری اور جاں نثاری کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ نظر آتے ہیں ۔دنیا کا ہر انسان اپنی دھرتی ، زبان وثقافت کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی ، تہذیبی و ثقافتی، انفرادی و اجتماعی تعلقات اور معاملات کو ہر چیز پر فوقیت دیتا ہے ۔
حُب الوطنی کے معنی وطن سے محبت کے ہیں۔ انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ جس جگہ رہتا ہے اُس جگہ سے اُنسیت ہو جاتی ہے۔ اس جگہ، آب وہوا، لوگ‘ حتی کہ وہاں کی چیزوں سے محبت کرنا اُس کے فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ وطن وہ جگہ ہے جہاں انسان اپنے آباؤاجدادکے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ تو بھلا پھر کیوں نہ وہ اس جگہ سے محبت کرے؟
انسان دنیا میں جہاں بھی قدم رکھتا ہے‘ اپنے وطن کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ جب انسان اپنے وطن سے دور ہوتا ہے توتب اس کو وطن سے محبت کا اَحساس شدت سے ہوتا ہے۔وطن سے محبت کرنے والے کسی انعام کی خواہش نہیں رکھتے وہ اپنے وطن کی بہبود کے لیے ذاتی اَغراض ومقاصد کو بے دریغ قربان کر دیتے ہیں۔
انسان خواہ کسی نظریۂ حیات سے تعلق رکھتا ہو وہ اپنے زمینی رشتوں کو کبھی بُھلا نہیں سکتا ۔ ہر عہد میں انسان ایک خاص زمینی حالات ، معاشرہ اور تہذیبی معاملات کا نمائندہ ہوتا ہے ۔ انسان کو ان تمام معاملات سے پیار و محبت فطرت سے ملتا ہے ۔ یقینا یہ پیار’’ وطن دوستی ‘‘کے زُمرے میں آتا ہے ۔ شاعری انسانی جذبوں کی ترجمانی کا نام ہے اوروطن پرستی ایسا جذبہ ہے جو علمی اورمادی ترقی کے باوجود بھی انسانی دلوں سے نکالا نہیں جاسکتا۔ پیار کے اس اظہار میں مخصوص سیاسی تصورات بھی شامل ہو جائیں تو یہ شاعری وطنیت اور قومیت کی بھی ترجمان ہوجاتی ہے۔اس میں مذکورہ عناصر کے علاوہ احساسِ آزادی، مذہبی اور تاریخی رُجحانات کا تذکرہ بھی ملے گا۔
واضح رہے کہ وطن سے محبت کی راہ میں کچھ مشکل مقامات بھی آتے ہیں۔یقینا انسان مختلف آزمائشوں اور مشکلوں سے نبرد آزما ہو کر خالص جذبے کی پہچان حاصل کر پاتا ہے ۔ نظام اور معاشرے کے ظلم و جبر کی صورت میں ہی اُس کے اندر کے جوہر سامنے آتے ہیں اور پھر اُس سے نئی نئی راہیں کھلتی ہیں ۔لیکن یاد رہے کہ اس دَوران صبر و ضبط کے ساتھ ساتھ ثابت قدمی کا مظاہرہ وطن دوستی کا تقاضا ہے۔یہی وہ جذبہ ہے جو سیاسی وسماجی دباؤ کو کم کر کے معاشرے میں اعتدال و توازن پیدا کرتا ہے۔
شاعرِ مشرق ڈاکٹرعلامہ محمد اِقبال سے کون واقف نہیں ۔ علامہ محمد اقبال باکمال شاعر اور فلسفی تھے، علامہ اِقبال ۲۰ ویں صدی کے سب سے مئو ثر کُن مسلمان مفکر ہیں۔اُن کی شاعری اُردو اور فارسی میں بہت عمدہ اور متاثر کُن ہے۔ اقبال کے فلسفے کو فلسفۂ خودی کہا گیا ہے۔ اس فلسفے کی رُو سے اُس سچائی کا اعیادہ کرناہے کہ زندگی کا مقصدباطن کی ترقی ہے۔ یقینا یہ مقصد خدا کی حقیقی محبت اورپیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری سے حاصل ہوتا ہے۔علامہ اقبال نے مسلم معاشرے میں سیاسی و سماجی تبدیلیاں لانے کے لیے نبی ٔ آخر الزماں ؐ کو عملی نمونہ بنایا۔علامہ محمد اِقبال کا اس بات پر کامل یقین ہے کہ اگر ہم سرورِدو جہاں محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار ہیں تو ہمیں کوئی فکر نہیں ، دنیا کوئی حیثیت نہیں رکھتی ،لوح و قلم تمہارے ہوں گے ۔
پاکستان وہ ملک ہے جو کرئہ زمین کے نقشے پر پہلی نظریاتی ریاست کے طور پر اُبھرا۔پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے۷۴ برس سے زائد کا عرصہ بیت گیاہے لیکن جذبہ ٔ حُب الوطنی میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ اس عظیم وطن کی بنیاد لاکھوں لوگوں کی قربانی دے کر رکھی گئی ۔ قربانیوں کا یہ سلسلہ برس ہا برس سے جاری ہے ۔آج ہم پاکستان میں پیدا ہوگئے تو ہمیں بھول گیا کہ ہمارے اَسلاف نے اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے کتنی قربانیاں دی تھیں۔ لاکھوں مہاجرین آگ اور خون کا دریا پار کر کے یہاں پہنچے۔ اور مقصد تھا صرف ایک …’’پاکستان کا مطلب کیا … لا الہٰ الا اللہ ‘‘
پاکستان سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ کیونکہ اسے ہم مہاجرین و انصار کے اس مدینہ کی مثال کے طور پر سمجھیں جو آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانِ کامل، رسول ِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا۔ اور اس مدینہ کے تحفظ کے لیے آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں نے کتنی جنگیں لڑیں اور کس قدر جاں فشانی کا مظاہرہ کیا۔
ملک و ملت سے محبت ہر دَرد مندشخص کے دل پر غلبہ حاصل کر لیتی ہے۔وہ وطن کے دُکھ دَرد کو محسوس کرتا ہے۔کسی بھی قوم کا جذبہ حبُ الوطنی اُ س و قت سامنے آتا ہے جب وہ مشکل حالات سے دو چار ہوتی ہے۔لیکن خوشی کی بات ہے کہ پوری قوم یکجا ہو کر افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔وطن کے لیے جان کی قربانی نہ صرف افواجِ پاکستان نے دی بلکہ ا س پاک سرزمین کا بچہ بچہ وطن کے دفاع کے لیے ہر وقت تیار ہے۔پاکستانی قوم کا اپنے وطن سے محبت کاثبوت دُنیا نے دیکھا کہ ہماری بہادر قوم نے وطن کی محبت میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیاہے۔
پاکستان کے عشق و محبت میں سرشار۱۹۶۵ ء کی جنگ کے ہیرو سپاہی مقبول حسین کو ہماری قوم کیسے بھول سکتی ہے جنہوں نے پاکستان زندہ باد کہتے کہتے انڈین آرمی سے اپنی زبان تک کٹوا دی اورجب پاکستان زندہ باد کہنے کو زبان نہ رہی تو اپنے لہو سے جیل کی دیواروں پہ پاکستان زندہ آباد تحریر کیا۔اگربہادری کے حساب سے ہم پاکستانی قوم کا موازنہ دوسری قوموں سے کریں تو ہمیں پاکستانی قوم پہلے نمبر پر دکھائی دے گی۔
یہ عمل بھی وطن پرستی میں آتا ہے کہ وطن میں موجود قدرت کی فیاضیوں کا تذکرہ کیا جائے۔اس کی معطر صبحوں اور منور شاموں کواظہار کے نئے نئے زاویوں سے آشکارا کیا جائے۔قدرتی وسائل کی اہمیت نمایاں کرتے ہوئے عوامی ہمت وحوصلے اور جذبے کو سراہا جائے۔دیہات اور شہر میں رہنے والوں کے اوصاف بیان کیے جائیں اور ان کی خوبیوں کووطن کے ماتھے کا جھومر بنا کر پیش کرنا بھی وطن دوستی ہے۔ انسانی خوش حالی کے اسباب تلاش کرنے کی غرض سے سائنسی ترقی اور اُس کے ارتقاء کی منظر کشی کرنا بھی وطن دوستی ہے۔
وطن دوستی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ یہاں کے عوام کو ایک ثقافت کی لڑی میں پرو دیا جائے۔علاقائی ثقافت سے بڑھ ملکی ثقافت کو فروغ حاصل ہونا چاہیے۔ بقول فیض احمد فیض: ’’وطن دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ خواص کی بجائے عوام کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ان کی مشکلات کو دُور کیا جائے اور ان کا حل نکالا جائے تاکہ ان لوگوں کی زندگی میں اُمید کی کوئی کرن داخل ہو سکے‘‘۔
وطن سے محبت اور دوستی یا ملی شاعری کا دائرہ محدود نہیں ہے۔ یہ محض اپنے دیس کے لیے سُریلے گیت لکھنے کا نام نہیں اور نہ ہی محض اس کے قدرتی مناظر سے دل بہلانے کا نام ہے بلکہ وطن دوستی کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیاسی اور سماجی انتشار کے دَور میں جبر وتشدد کے خلاف صدا بلند کی جائے۔ملک وقوم کے افراد کو سماجی انصاف کے حصول میں رکاوٹ ڈالنے والوں اور منزلِ مقصود کو فراموش کر دینے والوں کے اَصل عزائم سے باخبر رکھا جائے۔
آج کا دَور افراتفری کا دَور ہے۔ جہاں غربت، بے روزگاری، دہشت گردی بڑھتی چلی جارہی ہے ۔ان مسائل کی وجہ سے نفرت اور کینہ پروان چڑھنے لگا ہے۔ وطن کی محبت پسِ منظر میں چلی گئی ہے ۔ضرورت اس اَمر کی ہے کہ آیا ہم سب حب الوطنی کے تقاضے بھول چکے ہیں یا دل کے کسی نہاں گوشے میں کہیں تھوڑی سے محبت، عزت اور قربانی کا جذبہ پوشیدہ ہے۔
میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ وطن کی محبت وہ حلال نشہ ہے جس میں ہر چھوٹا بڑا سرشار ہو کر جان قربان کر دینے کو ہمہ قت تیار رہتا ہے۔ یہ پاکیزہ جذبہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ ہے۔ دین میں بھی حب الوطنی کی تعلیم دی گئی ہے، ایک روایت میں ہے:’’حُبُ الوَطن مِنَ الِایمَان‘‘یعنی وطن کی محبت ایمان کا جزو ہے۔
علامہ اقبالؔ فرماتے ہیں:
غربت میں ہوں اگر میں رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو ہمیں وہیں ہی ،دل ہو جہاں ہمارا
میری ملک بھر کے دانشور، اُدبا و شعرا، اساتذہ ، سِول سوسائٹی ، سرکاری وغیر سرکاری اداروں، سیاسی و سماجی شخصیات ، مُحبِ وطن شہریوں سے استدعا ہے کہ جس طرح قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ نے اپنی بیداری کے بعد اس بیداری کو عوام میں عام کیا۔ان کو علم کی روشنی کے ساتھ شعور دیا۔ اسی طرح آپ عوام میں بیداری کو عام کیجیے۔ آپ کا اس نظام کو غلط سمجھنا کافی نہیں۔جتنا ممکن ہو سکے لوگوں میں شعور کو پھیلایئے۔ ملک کو ان برائیوں سے پاک کیجیے۔ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کیجیے۔ علم حاصل کرنے کے ساتھ ، نوکری،کاروبار اور ترقی کرنا کافی نہیں۔ انفرادی ترقی سے ملکی ترقی کے سفر کو ترجیح دیجئے۔ حب الوطنی ایسے جذبے کوعام کیجئے۔پیار ے وطن کے جس پرچم کو سینے سے لگا کر ہم شان سے چلتے ہیں۔ اُس پرچم کی قدرکیجیے۔
وطن کی گود میں پرورش پانے والا ہر شخص اُسے اپنی ماں سمجھتا ہے۔ دنیا کی تاریخ محبانِ وطن کے کارناموں اور قربانیوں سے لبریز ہے۔ اَسفندیار اور رُستم اپنے وطن کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے۔مولانامحمد علی جوہر،حکیم محمد اجمل خان،مولانا ابو الکلا م آزاداور سب سے بڑھ کر قائد اعظم نے وطن کے لیے اَ ن تھک محنت کی ۔ان تمام لوگوں کی قربانیوں سے کون واقف نہیں۔اسی کے تحت انہوں نے اپنی زندگی وقف کر دی ۔
وطن کی محبت میں سر شار ہمارے ملک کے میٹھے اور سُریلے گلوکار وں کا بھی اہم کردار ہے ۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ہر دَور میں شاہکار ملی نغمے اوربے مثال و با کمال ،صدا بہار دُھنیں تخلیق ہوئی ہیں جو آج تک کانوں میں رس گھول رہی ہیں اور فضائوں میں اِس وطن کی عظمت کی گواہی بن کر گونج رہی ہیں۔
امانت علی خان کی نے اپنی لازوال آواز میں گائے گئے ملی نغمے ’’اے وطن پیارے وطن‘‘ اور ’’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘‘۔ مہدی حسن کی جادوئی آواز میں ’’یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اِس کے‘‘ اور’’ اپنی جاں نظر کروں گا‘‘، شہناز بیگم کے لازوال نغمے’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد‘‘ اور’’جیوے جیوے پاکستان‘‘، ناہید اَخترکی آواز میں گائے ہوئے ملی نغمے’’ہمارا پرچم،یہ پیارا پرچم‘‘ اور ’’جگ جگ جیوے میرا پیارا وطن‘‘، حبیب ولی محمد نے دل کی گہرائیوں سے گایا گیا نغمہ’’اے نگار ِوطن تو سلامت رہے‘‘، محمد علی شہکی کی آواز میں’’میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے‘‘، عالمگیر کا گیت ’’خیال رکھنا‘‘ اور جنید جمشید کے گائے ہوئے ہر دل عزیز نغمے’’دل دل پاکستان‘ ‘اپنی مٹی سے اپنے لگائوکا اظہار ہیں۔
اس کے علاوہ سینکڑوں خوبصورت اور دل کو چھو لینے والی شاعری اور آواز وں سے سجے ملی نغمے جیسے ’’چاند روشن چمکتا ستارہ رہے‘‘، ’’چاند میری زمیں پھول میرا چمن‘‘،’’ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں‘‘، ’’ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح‘‘، ’’یوں دی ہمیں آزادی، مائوں کی دُعا پوری ہوئی، ’’میں بھی پاکستان ہوں، تیرا پاکستان ہے‘‘، ’’جنون سے اور عشق سے‘‘،’ ’میرا پیغام پاکستان‘‘، ’’یہ دیس ہمارار ہے اِسے ہم نے سنوارا ہے‘‘، ’’اِس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ جیسے بے شمار نغمے آج بھی قوم کی رگوں میں خون بن کر دَوڑتے ہیں۔
۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں ملکہ ترنم نور جہاں کو سب سے زیادہ گیارہ ملی ترانے ریکارڈ کرانے کا اَعزاز حاصل ہوا،جنگ کے پرجوش لمحات میں ملکہ ترنم نور جہاں کے گیت نشر ہوتے تو میدان جنگ میں لڑنے والے پاک افواج کے جوانوں کے حوصلے بلند ہوجاتے۔
۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران صوفی تبسم سمیت کتنے ہی اَہلِ قلم نے لاہور ریڈیو کے کمروں میں بیٹھ کر لمحوں میں تاریخی ملی نغمے لکھے اور گھنٹوں میں ان کو ریکارڈ کر کے نشر کر دیا گیا۔پاکستانی قوم ان جنگی ترانوں کو کبھی نہیں بھولی اور سرحدوں کے باہر یا اندر جب بھی قوم پر کوئی امتحان کا وقت آیا، یہ ترانے ایک بار پھر پاکستان کے گلی کوچوں میں گونجنے لگے۔ دلوں کو گرما دینے والے ایسے ہی کچھ ترانوں میں سے ’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا‘‘،’’اے دشمنِ دیں تو نے کس قوم کو للکارا‘،’اپنی جاں نذر کروں‘،’ایہہ پتر ہٹاں تے‘،’جاگ اُٹھا ہے سارا وطن‘ اور’اے راہ ِحق کے شہیدو‘ شامل ہیں۔ اسی طرح۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران بھی لازوال ملی نغمے تخلیق ہوئے جو آ ج بھی زندہ و جاوید ہیں۔
یہ ملی نغمے جہاں اپنے سُروں میں ہماری ثقافتی پہچان ہیں‘ وہیں اپنے لفظوں میں ہماری وطن سے محبت اور آواز میں دشمن کے لئے پیغام ہیں کہ ہم بہ حیثیت قوم متحد بھی ہیں اور اپنے وطن کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار بھی۔
ادب اور شعراء برادری کا حصہ ہونے کے ناطے مجھ ناچیز کو یہ اعجاز و اعزاز حاصل ہے کہ میرا ایک تعلق اُس وطن سے ہے جس کی تاریخ روشن اور درخشندہ ہے ۔وطن کے لیے ہر طرح کی قربانی اور جاں نثاری کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے والی اس قوم کی عمدہ مثال ملاحظہ فرمائیں جب ستمبر۱۹۶۵ء کی سترہ روزہ پاک بھارت جنگ میں ہمارے شعراء نے صدا بہار گیتوں اور ملی نغموںکے ا یسے گلدستے دیئے جن کی خوشبوئوں اور مہکاروں سے آج بھی اہلِ وطن کے دل معطر ہیں۔شاعری میں وطن پرستی کے جذبات کا اظہار بڑے دھنک رنگ سے ہوا ہے۔ ہم اپنی عام زندگی میں وطن اور اُس کی محبت کے حوالے سے جو جذبات رکھتے ہیں وہ بھی اور کچھ ایسے گوشے بھی جن پر ہماری نظر نہیں ٹھہرتی اس شاعری کا موضوع ہیں۔ وطن پرستی مستحسن جذبہ ہے۔ دنیا بھر میں پاکستانی آج بھی ترانے کے بول سن لیں تو دل و دماغ میں پاکستان دوستی کی ایسی شمع فروزاں ہوجاتی ہے جس کی روشنی کل کی طرح آج بھی ہمارا سرمایہ ہے۔صوفی تبسم کی یاد کب فراموش ہوگی۔یہ اَشعار پڑھئے اور اس جذبے کی رنگارنگ دنیا کی سیر کیجئے۔
اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
توں لبدی پھرے بازار کڑے
اے سودا نقد وِی نہیں ملدا
تولبدی پھرے اُدھار کڑے
میرا دوسرا حوالہ شہداء پاکستان سے محبت،عقیدت اور عشق رکھنا ہے۔میں اس قبیلے کا حصہ ہوںجس کی زندگی پاکستان سے شروع اور پاکستان پر ختم ہوتی ہے ۔ اپنے وطن کے خلاف کبھی بات سنی نہ اُس کی تاب رکھتا ہوں۔ہماراجینا مرنا پاکستان،ہماراعشق اور جنون پاکستان ہے۔’’ہم آہنگ پاکستان ‘‘ کا مثالی وجود ہی ہم سب کی سلامتی و بقا کا ضامن ہے ۔ ہمیں ایک پرچم تلے اکٹھا ہوکرملک کی ترقی و خوشحالی اور سلامتی کے لیے اپنے اپنے حِصے کی کوششیں بروئے کار لانی پڑیں گی ۔ تب کہیںملک ترقی کی شاہراہ پر حقیقتاً گامزن ہوگا ۔
وطن اور وطنیت سے بھر پور اَشعارکی صورت میں شعراء کا عمدہ خراجِ عقیدت ملاحظہ فرمائیں :
اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں
زندگی ہوش میں ہے جوش ہے ایمانوں میں
(جوش ملیح آبادی )
ایسی زمیں اور آسماں، اس کے سوا جا نا کہا
بڑھتی رہے یہ روشنی، چلتا رہے یہ کاررواں
(نثار ناسک )
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ ٔ زوال نہ ہو
(احمد ندیم قاسمی)
مری زمین میرا آ خری حوالہ ہے
سو میں رہوں نہ رہوں، اس کو بار وَر کر دے
(افتخار عارف)
نواحِ نصرت و فیروزی و ظفر میں رہوں
مرے وطن میں ترے قریۂ خبر میں رہوں
اے ارضِ لوح و قلم، اے ادب گہِ شبنم
ترے لئے میں سدا فکرِ شعرِ تر میں رہوں
(شبنم شکیل)
ہم وطن یہ گلستاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
اس کا ہر سود و زیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
ہیں محبت کے نقیب اقبال و خوشحال و لطیف
ان کا فیضِ بیکراں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
(راغب مراد آبادی)
یہ دل یہ جان وار دو، مرا وطن سنوار دو
حیات جس کا نام ہے بہادروں کا جام ہے
(صبیحہ صبا)
دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفُت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
(لال چند فلک)
انتخابِ آرزو ہیں فتح و نصرت کے چراغ
ہیں فروزاں خونِ دل سے ملک و ملت کے چراغ
(ساغر صدیقی)
بہتر سال پہلے کا وہ اک احسان مت بھولو
خدا کی خاص رحمت ہے یہ’’پاکستان‘‘ مت بھولو
(امجد اسلام امجد)
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
(بسمل عظیم آبادی)
لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے
اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی
(فراق گورکھپوری)
وطن کے جاں نثار ہیں وطن کے کام آئیں گے
ہم اس زمیں کو ایک روز آسماں بنائیں گے
(جعفر ملیح آبادی)
وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو اُنس باقی ہے
مزا دامان مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں
(چکبست برج نرائن)
ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی
اے خاکِ وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے
(خورشید اکبر)
نہ ہوگا رائیگاں خون شہیدانِ وطن ہرگز
یہی سرخی بنے گی ایک دن عنوان آزادی
(نازش پرتاپ گڑھی )
کہاں ہیں آج وہ شمع وطن کے پروانے
بنے ہیں آج حقیقت اُنہیں کے افسانے
(سراج لکھنوی)
میں نے آنکھوں میں جلا رکھا ہے آزادی کا تیل
مت اندھیروں سے ڈرا رکھ کہ میں جو ہوں سو ہوں
(انیس انصاری)
کیا کرشمہ ہے مرے جذبۂ آزادی کا
تھی جو دیوار کبھی اب ہے وہ در کی صورت
(اختر انصاری اکبرآبادی)
انتخابِ آرزو ہیں فتح و نصرت کے چراغ
ہیں فروزاں خونِ دل سے ملک و ملت کے چراغ
(ساغر صدیقی)
لگاؤ نعرۂ تکبیر ہر چہ بادا باد
مجاہدوں کو پہنچتی ہے غیب سے امداد
(احسان دانش)
توڑ ڈالے ہیں میں نے سب رشتے
جب سے رشتہ وطن سے جوڑا ہے
(تنویر نقوی)
نثار تیری بہاروں پہ اے بہارِ وطن
نثار تیرے نظاروں پہ اے نگارِ وطن
(جون ایلیا)
تو وارث پاک اُجالوں کی
تو دھرتی شیر جوانوں کی
تری خوشبو کو چھلکائیں گے
ترے پیار کی جُگنی گائیں گے
(ضمیر جعفری)
شعری سطح پر جذبۂ قومیت کے اشتراک سے قومی شاعری کو ایک الگ صنفِ ادب کے طور پر متعارف کرانے والے اہم قومی شعر اء صبا اکبر آبادی (۱۹۰۸ء تا ۱۹۹۱، ’’زمزمہ ٔ پاکستان‘‘)، طفیل ہوشیار پوری (۱۹۱۴ء تا۱۹۹۳ء)، سید ضمیر جعفری (۱۹۱۴ء تا ۱۹۹۹)، ’’لہو ترنگ،زبورِ وطن،میرے پیار کی زمین)، کرم حیدری (۱۹۱۵ء تا۱۹۹۴ء)، کلیم عثمانی (۱۹۲۸ء تا۲۰۰۰ء)، مشیر کاظمی (۱۹۱۵ء تا۱۹۷۵ء) اُمید فاضلی (۱۹۲۳ ء تا۲۰۰۵ء) ’’پاکستان زندہ باد، تب و تابِ جاودانہ‘‘)، کیف بنارسی (۱۹۲۶ء تا۲۰۰۳ء) ’’دل کی دھڑکن پاکستان‘‘)، ساقی جاوید (۱۹۲۲ء تا ۱۹۹۳ء) ’’چاند میری زمیں‘‘)، جمیل الدین عالی (۱۹۲۵ء تا ۲۰۱۵ء) ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘)، صہبا اختر (۱۹۳۲ء تا۱۹۹۲ء)’’مشعل‘‘) اورسیف زلفی (متوفی۱۹۹۱ء) کے ساتھ ساتھ تنویر نقوی‘ حمایت علی شاعر‘رئیس امروہوی‘ احمدندیم قاسمی‘ منیر نیازی‘ قیوم نظر‘ شبنم رومانی‘ سیف زلفی‘ بشیر فاروق‘ مسرور انور‘ ریاض الرحمن ساغر اور ازاں بعدنثار ناسک ،اسد محمد خاں‘ صابر ظفر‘ حسن اکبر کمال اور محمد ناصروغیرہ نے بلاشبہ قومی شاعری پر مبنی اس موضوعاتی روّیے کو باقاعدہ ایک رُجحان بنانے میں اہم کردار ادا کیاہے۔
ملی نغموں کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں :
میری سرحد پہ پہرا ہے ایمان کا
میرے شہروں پہ سایہ ہے قرآن کا
میرا ایک اک سپاہی ہے خیبر شکن
چاند میری زمیں، پھول میرا وطن
(ساقی جاوید)
سرفروشی ہے ایماں تمہارا
جرأتوں کے پرستار ہو تم
جو حفاظت کرے سرحدوں کی
وہ فلک بوس دیوار ہو تم
(جمیل الدین عالی)
سبز پرچم ترا، چاند تارے ترے
تری بزمِ نگاراں کے عنوان ہیں
(صہبا اختر)
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
(مسرور انور)
ہزار جاں سے وطن پر نثار ہو جاؤں
ظفر یہ ایک تمنائے دل ہے جاں کی طرح
(یوسف ظفر)
اے میری سر زمینِ وطن اے دیارِ پاک
چاند سا تیرا پانی ہے سونا سا تیری خاک
(اُمید فاضلی)
چاند تیرا چراغ زندگی تیرا باغ
نصرتیں تیرا فن اے وطن اے وطن
(مظفر وارثی)
مرا لہو مری مٹی کی آبرو بن جائے
مرے چمن ہی کی مہکار ہو جہاں تک ہو
(محسن احسان)
نذر تیری راہ میں دل کا گوہر، آنکھوں کے پھول
خاک تیری مجھ کو سانسوں کا ثمر، یادوں کے پھول
(عطا شاد)
تو مری روح ہے میں ہوں تیرا بدن
اے مرے ہم وطن، اے مرے ہم وطن
(امداد نظامی)
ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم
یہ پرچموں میں عظیم پرچم
(سیف زلفی)
سلامتی ہی سلامتی کی دُعائیں خلقِ خدا کی خاطر
ہماری مٹی پہ حرف آیا تو عہدِ فتحِ مبیں لکھیں گے
(افتخار عارف)
ایسی زمیں اور آسماں اس کے سوا جانا کہاں
بڑھتی رہے یہ روشنی چلتا رہے یہ کارواں
(نثار ناسک)
یقیں کی سرزمیں ظاہر ہوئی اپنے لہو سے
یہ ارضِ بے وطن اپنا ترانہ ڈھونڈتی ہے
(ڈاکٹر اجمل نیازی)
پاکستان جس کو دنیا کے نقشے پر اُبھرے ابھی صرف۷۴برس ہوئے ہیں اس کا مقابلہ ایسے ملک سے کرنا جو۲۳۷سال پہلے دریافت ہوا بھلاکیونکر درست ہو سکتا ہے۔ خدارا اپنی خودی کو پہچانیے۔ موجودہ دَور کی افراتفری کو خود پہ حاوی مت کیجیے۔ ملک کے لیے کچھ کیجیے۔ اپنا فرض ادا کیجیے۔ تا کہ آنے والی نسلیں ایک محفوظ مملکت میں سانس لیں جیسے آپ نے لینا شروع کیا۔
٭٭٭
صادق آباد ‘ صوبہ پنجاب کے آخری ضلع رحیم یار خان کی اہم مذہبی ، سیاسی ،سماجی ،تاریخی ، تہذیبی ، علمی ،ادبی، اقتصادی اور سندھ پنجاب بارڈر کے سنگم پرموجود تحصیل کے طور پر ملک بھر میں معروف اہم شہر ہے ۔ صادق آباد کو جہاں تاریخی ،سیاسی ، سماجی ، ادبی اور دیگر تشخص حاصل ہے وہیں صادق آباد پاکستان کا وہ تاریخی شہر ہے جس کی سالگرہ منائی جاتی ہے ۔گذشتہ کچھ سالوں سے ڈویژن بہاول پور میں اور بالخصوص ضلع رحیم یار خان میں متواتر اس اہم سیاسی ،سماجی ، صحافتی، علمی و ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے چند نام نہایت متحرک اور فعال نظر آتے ہیں ۔ جن میں سرِ فہرست محترم اکمل شاہد کنگ ہیں ۔ جن کا مختصر تعارف و تذکرہ نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔
اکمل شاہد کنگ کا تعلق ضلع رحیم یار خان کی اہم تحصیل صادق آباد سے ہے۔ کوکا کولا بیوریجز کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ضلع میں ادبی، ثقافتی ، سیاسی ، سماجی ، تہذیبی سرگرمیوں کا بہترین عکاس، گزشتہ سات سال سے مستقل اشاعت،ضلع رحیم یارخان کی اہم کاروباری، سیاسی، ثقافتی اور سندھ ، پنجاب بارڈر پر واقع تحصیل صادق آباد سے جاری ہونے والے قومی اخبار ہفت روزہ اخبارِاکبر کے ایڈیٹر انچیف ہیں۔معروف ادیب اور کالم نگارہیں۔ سفیرِ امن۔ مثبت فکر و نظر کے حامل۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ جن کا نظریہ مٹی، دھرتی اور وطن کی محبت سے لبریز ہے۔جو ایک شخص نہیں بلکہ ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔اکمل شاہد کنگ کی ہمہ پہلو اور سحر انگیز شخصیت ہی اُن کے جداگانہ اُسلوب اور فکر و نظر کی عکاس ہے۔
محترم اکمل شاہد کنگ کے نیک و پاکیزہ جذبے اور کاوشوں کو ہم خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ اللہ کریم اُ ن کے علم ، عمل ، صحت اور تن درستی میں اضافہ فرمائے ۔ آمین
٭٭٭
حوالہ جات:
۱۔قائد نے فرمایا ، محمد یوسف وحید ، الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ، ۲۰۱۹ء ص:۴،۳
۲۔فیض احمد فیض، شامِ شہرِ یاراں، نسخہ ہائے وفا،لاہور، مکتبہ ٔکارواں،ص:۷۲۵
۳۔ادریس آزاد،اُٹھو کہ وقت قیام آیا، راوی پبلشرز ، لاہور ، ص: ۱۵۵
۴۔سید عبد الواحد معینی، مقالاتِ اقبال، القمر انٹر پرائزز ، لاہور ،ص: ۴۲۱
۵۔ ماہنامہ ہلال اُردو ، مجلہ ، راول پنڈی، ص: ۴۵
۶۔ تنویر ظہور ، یادیں ، نوائے وقت گروپ ، لاہور ،ص:۲۰
۷۔روزنامہ 92نیوز لاہور ، ۱۴ اگست ۲۰۲۰ء ،ص:۱۲
متفرقات :
۱۔وائس آف امریکہ ( اُردو) ۔پوسٹ کارڈ (ویب)
۲۔انٹرنیشنل اِقبال سوسائٹی ، یوکے
۳۔ ڈان نیوز ، لاہور
۴۔ریختہ ڈاٹ او آر جی
۵۔ مضامین ڈاٹ کام (مدیر: محمد خمیل الدین )
****