جب کوئی ادیب نقاد اور شاعر کسی نشہ آور شئے خواہ وہ شراب سگریٹ۔۔۔تمباکو۔۔حقہ۔۔۔پان ۔۔۔اور نا جانے کیا کیا۔۔۔؟؟ کسی قسم کا تعلق ہی نہیں رکھتا ہو تو اس کیفیت کے بارے میں کیا لکھ سکتا ہے جبکہ وہ اس کیفیت سے کبھی گزرا ہی نہیں ہے۔۔۔وہ سرور وہ نشہ جس سے اسکی کبھی آگاہی ہوئی ہی نہیں ہو ۔۔۔۔وہ کیا بیان کرے کے میں اس سرور سے نا آشنا ہوں ۔۔۔اور پھر اچانک اسے کچھ لکھنا پڑ جائے تو وہ اپنے ذاتی مشاہدے سے نہیں بلکہ تصورات کو تخیل کو قوت پرواز بخشتا ہے۔۔۔پر مجھ جیسا ادب کا طالب علم ایک نشے کا عادی ہوتا ہے جسمانی محنت کا جو ذہن میں بھی ایک سرور دیر تک قائم رکھنے کی سعی کرتا ہے۔
ضروری نہیں ہے کہ ادیب ایڈکٹ بنیں اور منٹو کے نقش قدم پر ہی چلیں آپ جوش کے نقش قدم پر بھی چل سکتے ہیں پر اس کے لیے یہ لازمی ہے کہ آپ کے پٹھے اور ہڈیاں مظبوت ہو ۔۔۔جو آپ کے جسم اور ذہن دونوں کو ہی سنبھال سکیں اور آپ اپنے وجود کے ساتھ کھلتے رہیں ہر موسم میں ۔۔۔۔ میں جانتا ہوں بہت سارے لوگ مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں پر انتخاب کرنا آپ کے ہاتھ میں ہے ۔۔کیا سلیکٹ کرنا ہے اسکا فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے ان چیزوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کبھی یہ مت سوچیں کے چلو۔۔۔۔ایک بار پی کر چکھ کر دیکھتا ہوں ۔۔۔کیا ہو گا ایک بار کر لینے سے۔۔۔بس وہ یہاں سے ہی آپ اسکے عادی بن جاتے ہیں ۔۔اور آپکی غلامی کا آغاز اور دور شروع ہو جاتا ہے۔۔۔ اگر کبھی یہ کیفیت آپ پر حاوی ہونے لگ جائے تو آپ یوں کریں کے دو کلومیٹر تیز تیز چل لیں تھوڑا دوڑ لگا لیں اور جو مضبوط ہیں طاقتور ہیں وہ ایک گھنٹہ ورزش کر لیں ۔۔۔۔جسم کے تمام اعضاء کھل اٹھیں گے جناب۔۔۔؟؟
پر اس میں بھی آپ کے قوت ارادی کا ہی کمال ہوگا ۔۔۔کچھ لوگ کہتے عمر ہوگئی ہے اب یہ نہیں ہو سکتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ عمر فقط ایک نمبر ہے اس سے زائد کچھ بھی نہیں ۔۔۔زندگی لفظوں میں گر جی لی جاتی تو ہم سب آج لفظوں میں سانس لے رہے ہوتے ۔۔اب سانس آہستہ لینے کی ضرورت نہیں ہے آج سے ابھی سے آپ اپنے Respiratory Rate کو بڑھائیں ۔۔۔پھیپھڑے کے Alveoli کو خالص آکسیجن سے بھریں اور ۔۔۔Haemoglobin کو Oxygenated کریں جب آپ یہ سب کرتے ہیں تو یقین جانیں آپ اپنے فیملی کو آگے کے لیے خوشیاں ہی دے رہیں ہیں۔۔۔بس ایک ذرا سی قوت ارادی کی ضرورت ہے ۔۔۔اب ٹی وی ۔۔کمپیوٹر۔۔ اور لیپ ٹوپ سے چپکے ہی نا رہیں باہر بھاگیں ہر کام Bipedal Locomotive کے ذریعے ہی انجام دیں ۔۔۔اور آپ جانتے ہی ہیں ۔۔۔۔کہ ہمارا مستقبل پھیل کر تیزی سےہمارے ماضی کی جانب بڑھ رہا ہے۔۔۔؟؟
میں آپ سے بتاتا ہوں کہ امید اور خواہش وہ واحد خواب ہے جس کے لیے زندگی گزاری جا سکتی ہے یہ ہے کہ آپ جب آپ زندہ ہوں تو پوری طرح زندہ ہوں اور جب مریں تو صرف اس وقت جب موت آجائے جناب۔۔۔۔یہ یقینن ایک پیش آگہی ہی ہے جسے کچھ تسلیم کریں گے اور کچھ نکار دیں گے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...