حکومت میں دراڑیں
پاکستان کا سیاسی منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ اگر ہم پچھلے چار ماہ میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں (Developments) کو سامنے رکھیں تو حالات بالکل مختلف ہیں۔ اور اگر ہم اس ساری صورتِ حال کو 2008ء کے بعد کے حالات سامنے رکھ کر دیکھیں تو حالات بہت ہی مختلف ہیں۔ 2008ء کے بعد جنرل پرویز مشرف کی صدارت میں آصف علی زرداری کی پاکستان پیپلزپارٹی نے حکومت کا قلم دان سنبھالا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی نے بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے مابین چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت ایک دوسرے کی حکومتیں ختم نہ کرنے اور سیاسی پولرائزیشن نہ کرنے کے عہد پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے سے سیاسی تعاون کا پرچم بلند کیے رکھا۔ تمام منتخب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے سیاسی تعاون کرتی نظر آرہی تھیں۔ عمران خان انتخابات میں بائیکاٹ کے سبب نہ صرف اسمبلی سے باہر تھے بلکہ اُن کا سیاسی وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ فوج، دہشت گردوں کے خلاف بڑی عسکری کارروائیوں کے لیے پر تول رہی تھی اور دہشت گرد، سوات اور دیگر علاقوں میں اپنی متوازن حکمرانی قائم کرچکے تھے۔ اور ملک جگہ جگہ دہشت گردی کے زخموں سے گھائل ہو رہا تھا۔ اُن دنوں یہ کہا جارہا تھا کہ ہماری سیاست اور سیاسی جماعتیں میچور ہوگئی ہیں۔ میڈیا بھی ایسی ہی تصویر پیش کررہا تھا۔ مگر آج کا سیاسی منظرنامہ مختلف ہے۔ ذرا اس کے چند پہلوئوں پر غور کریں۔ منتخب وزیراعظم وزارتِ عظمیٰ سے بے دخل اور پھر نااہل قرار دے دئیے گئے ہیں۔ عمران خان بازاری زبان کے ساتھ ، بغیر کسی مثبت سیاسی منشور کے پاکستان کی سیاست کا اہم ترین کردار ہیں۔ حکمران جماعت کی قیادت ہچکولے کھاتی نظر آرہی ہے۔ شریف خاندان کے افراد بشمول وزیر خزانہ باہر جا چکے ہیں۔ شریف خاندان کے اثاثے منجمد اور متعدد کے خلاف مقدمات سر کھول کر کھڑے ہیں۔ حکمران جماعت کے ’’پُراسرار طاقت رکھنے والے‘‘ چودھری نثار دھیرے دھیرے اپنے بیانات اور خیالات میں شدت لا رہے ہیں۔ اور میڈیا اُن کی عظمت کے گن گانے کی طرف چلنے کی تیاری کررہا ہے۔ ٹھنڈے مزاج کے جناب آصف علی زرداری کی سیاسی زبان میں بھی شدت برپا ہے اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے کھل کر خصوصی ویڈیو کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا براہِ راست الزام آصف علی زرداری پر عائد کردیا ہے۔ اس میں سب سے اہم نکتہ جو انہوں نے اٹھایا ہے، وہ آصف علی زرداری کا افغان حکومت اور اُن کے خفیہ ادارے تک آصف علی زرداری کے اثرورسوخ کا ہے جس کو بروئے کار لا کر اُن کے الزام کے مطابق آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے اس الزام کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کا ردِعمل ترش، گرم اور سنگین سیاسی صورتِ حال کو مزید شدت انگیز کررہا ہے۔ مسلح افواج سوات سے قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کا جشن منا رہی ہے اور اپنی صفائیوں کے لیے خصوصی بریفنگ کا بھی اہتمام کررہی ہے کہ وہ کسی سیاست دان کے خلاف سازش میں مصروف نہیں۔
سیاسی افواہوں کا بازار گرم ہے اور الیکٹرانک میڈیا پر نمودار ہونے والے سیاسی تجزیہ نگار اپنے تجزیوں میں جو بیان کررہے ہیں، اس کا لب لباب یہی ہے کہ اس ملک کی تباہی وبربادی کی ذمہ داری صرف سیاست دانوں پر ہے۔ سیاسی افواہ بازی کے بازار میں ٹیکنوکریٹ کی طویل مدتی (2/3سال) حکومت کی افواہ سرفہرست ہے جبکہ آئندہ انتخابات میں اب صرف چند ماہ ہی باقی ہیں۔ نوازشریف کی نااہلی کے بعد عمران خان کی بازاری زبان مزید بازاری بھی ہوئی اور شدت بھی آئی ہے۔ کئی سالوں بعد متعدد سیاسی چوزوں نے ملک کے لیڈروں کو سولی پر لٹکانے کے مطالبات وخواہشات کا بھرپور اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ کیا اس ساری صورتِ حال کو تسلی بخش، اطمینان بخش اور Settled صورتِ حال قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! کہ جب مریم نواز شریف ریاست کے اندر ریاست بلکہ Deep State کا الزام لگا رہی ہوں۔ این اے 120 کے انتخابی نتائج کے بعد ان کی تقریر تلخ صورتِ حال کا واضح اظہار ہے۔ اور پھر انہی کی تقریر پر مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنمائوں کی مریم نواز کو تلقین اور تنقید کرتے بھی سنا گیا ہے۔ معجزوں کے منتظر جناب چودھری برادران بھی کافی ’’متحرک‘‘ نظر آرہے ہیں۔ اُن کے بیان کے زیرلب لہجے کو سمجھنے والے اگر چودھری نثار کے حالیہ بیانات کو ملا کر پڑھیں تو معاملہ کافی بگڑا ہوا نظر آرہا ہے۔
ہماری سیاست اور جمہوریت کی دیواریں کس قدر پختہ ہیں، اس کا اندازہ تو اب عام آدمی کو بھی ہوگیا ہے۔ ستر سال کا سیاسی تجربہ اور واقعات بتاتے ہیں کہ بس اس سیاست، سیاسی نظام یا جمہوریت کی دیوار سے ایک اینٹ نکالیں، لاتعداد اینٹیں ازخود آپ کے ہاتھوں میں آگریں گی۔ وہ جو آج مسلم لیگ (ن) کے بڑے تندوتیز الفاظ میں حمایت کرتے ہوئے موجودہ حکومت کے سب سے بڑے وفادار اور Vanguard نظر آتے ہیں، وہ دیوار کی ایک اینٹ نکلنے کے بعد اسی دیوار کی بربادی میں سب سے آگے اور فیصلہ کن ہوں گے۔ یہ صورتِ حال ایک Fluid Political صورتِ حال ہے۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ لیکن ایک بات غورطلب ہے کہ جس شدت کے ساتھ حکمران خاندان، جماعت کے خلاف مقدمات اور گرفتاریوں کے چھاپے پڑنا شروع ہوئے ہیں اور اسی کے ساتھ سانحہ ماڈل ٹائون کی عدالتی تحقیقاتی رپورٹ کو لاہور ہائی کورٹ نے عام کرنے کا حکم دیا ہے، بات بہت آگے نکلتی نظر آرہی ہے۔ ممکن ہے حکمرانی کے حقیقی مراکز پاکستان کے بڑے سیاسی لوگوں کے خلاف ایک طرف مقدمات، گرفتاریاں اور اثاثے منجمد کرنے میں مزید تیزی دکھائیں اور دوسری طرف اُن کو بیرون ملک فرار کے مواقع دے رہے ہیں تاکہ مقدمات اور وارنٹ کے پھندے لٹکتے رہیں اور کسی کو پابند سلاسل کرکے سیاسی شہید ہونے کا موقع دینے کی بجائے خودساختہ جلاوطنوں میں رہنے پر مجبور کیا جائے۔ اور سیاسی کھیل کو اپنی مرضی اور گرفت میں رکھا جائے۔ اگلے چند دنوں میں حکمران جماعت کے معروف ایمان دار راہبر جناب چودھری نثار کے بیانات مستقبل قریب کی سیاسی صورتِ حال کو واضح کردیں گے۔ انتخابات سے چند ماہ پہلے جو بھی تبدیلیاں ہوں گی، یقینا اس کا حتمی اثر انتخابات پر ہوگا اور افواہوں کے مطابق اگر ٹیکنوکریٹ حکومت کی تین دہائیوں پرانی منصوبہ بندی اگر عمل پذیر ہوتی ہے تو پھر معاملہ کچھ اور ہوگا۔ ایک بات طے ہے۔ ہمارے ہاں ستر کی دہائی سے سیاست میں فوج کا کردار تعین کرنے کی خواہش رکھنے والے ترکی کی مثال دیا کرتے تھے۔ وہ خواہش اب متروک ہوگئی۔ کئی ’’مدبروں‘‘ نے بنگلہ دیش ماڈل متعارف کروانے کی بھی آواز اٹھائی اور چند ایک نے انڈونیشین ماڈل بھی۔ ان تینوں ماڈلز میں وہاں کی افواج کسی نہ کسی طرح اقتدار میں آئینی حصہ دار تھیں۔ لیکن اگر ہم پاکستان میں رائج اقتدار کے اندرونی ڈھانچے کو جاننے کی نظر رکھتے ہوں تو یہاں نہ ترکی ماڈل، نہ بنگلہ دیش ماڈل اور نہ ہی انڈونیشین ماڈل کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے اقتدار کا ڈھانچا اپنی آپ مثال ہے۔ کمزور سیاسی جماعتیں، خاندانوں کی مرہون منت جمہوریتیں اور سطحی سیاسی نظریات کی موجودگی اس اقتدار کے ڈھانچے کی اصل طاقت ہیں۔ جہاں باپ کے بیٹی اور ماں کے بعد بیٹا لیڈر کے طور ابھر کر سامنے آتا ہے۔ سیاسی ڈھانچے کے اس کمزور دھاگے پر مجھے اپنے بچپن میں پتنگ بازی کی ایک چیز یاد آگئی۔ میرا جیسا اناڑی پتنگ باز جس دھاگے کو استعمال کرتا تھا، وہ والدہ کی سلائی مشین سے چرائی نلکی ’’ماں بیٹا‘‘ دھاگا ہوتا تھا۔ اس لیے میرے جیسے اناڑی پتنگ باز کے بس میں ہی نہیں ہوتا تھا کہ کسی طاقت ور پتنگ باز کی ڈور رکھنے والے کے ساتھ پیچا لگایا جائے۔ حقیقی پتنگ باز کی ڈور اگر نلکی ’’ماں بیٹے‘‘ دھاگے کو چھوتے تو پتنگ کٹتی پھٹتی تھی۔ پاکستان کی جمہوریت ’’ماں بیٹا‘‘ کی طرح کچے نلکی دھاگوں پر اڑائیں گے تو جو حشر ہوگا، وہ جاننا مشکل نہیں۔ جس ملک میں باپ کی بیٹی اور ماں کا بیٹا لیڈر بن جائے، وہاں طاقت کے حقیقی مراکز سے ٹکرانا ایک یوٹوپیائی خواب ہے۔ ہاں اگر یہ سیاسی قوتیں اگر خلق خدا کی طاقت کو مضبوط کریں تو طاقت کے بڑے بڑے ایوان پاش پاش کیے جا سکتے ہیں۔ مگر وہ اُن کے ایجنڈے پرہی نہیں۔ اُن کے ایجنڈے پر ’’بیٹا‘‘ اور ’’بیٹی‘‘ ’’بیٹے‘‘ اور ’’بیٹیاں‘‘ ہیں۔ دولت اکٹھی کرنے کے لیے ملک اور رکھنے کے لیے بیرون ملک۔ کیا ایسی قیادتیں انقلاب برپا کرتی ہیں؟ ایک خواب ہے یہ۔ بس ایسی صورتِ حال میں طاقت کا توازن از خود انہی کے ہاں رہے گا، جہاں طاقت ہمیشہ گھر رکھتی چلی آئی ہے۔
“