پوری قوم پانامہ کیس کے فیصلے کے انتظار میں تھی۔ خصوصاً وہ لوگ جنہوں نے 2013ء میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر قومی اسمبلی میں اتنی بڑی تعداد میں منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کیا، یعنی پاکستان تحریک انصاف، اس کے ووٹرز، اس جماعت کی قیادت اور اس جماعت سے وابستہ عام لوگ۔ اس جماعت سے وابستہ ہونے والے لوگوں نے اس جماعت کو ’’تبدیلی آگئی ہے‘‘ کے لیے ووٹ دیا۔ یعنی اُن کی جماعت شان دار فتح لینے پر یقین رکھتی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں خوش نصیب کہلائی جانے والی یہ جماعت جب ووٹوں کے ذریعے اسمبلیوں میں پہنچ گئی تو اس کا تضاد اس وقت کھل کر سامنے آگیا جب انہوں نے ووٹوں سے تبدیلی کی بجائے احتجاج کے ذریعے نظام کو پلٹنا چاہا۔ دھرنے اسی حکمت عملی کا سرفہرست منصوبہ تھا اور دھرنوں کے نتیجے میں ’’ایمپائر کی انگلی کے اشارے‘‘سے امیدیں۔ جب اس منصوبہ بندی میں کامیابی نہ ہوئی تو مزید احتجاجی حکمت عملی کا آغاز ہوا اور آخرکار گیند سپریم کورٹ میں داخل کرکے کہاگیا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے پر اعتماد کریں گے۔ سپریم کورٹ سے پاکستان کی تبدیلی کی خواہش رکھنے والے عوام، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے پانامہ کیس کو انقلاب سے تعبیر کرنا شروع کردیا۔ کہ اگر میاں نوازشریف اور اُن کے بچوں کے خلاف فیصلہ آگیا تو قانونی انصاف اور سماجی انصاف کی ندیاں بہ جائیں گی۔ سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ پاکستان کے تضاداتی مزاج کے عین مطابق دیا جس میں عدالت سے امیدیں لگانے والے دونوں طبقات کی تسلی کے سامان پیدا ہوئے، کہ جائو! اپنے اپنے حق کا فیصلہ قبول کرلو۔ عمران خان کے لوگوں نے بھی مٹھائی تقسیم کی اور کھائی اور نوازشریف کے لوگوں نے بھی۔
یہاں قارئین سے عرض ہے ۔ اسے کہتے ہیں حکمران طبقات کی لڑائی، جس کے کچھ اصول اور حدود ہوتے ہیں۔ وہ اس سطح تک ہی جاتے ہیں، جہاں عوام کے مفادات حاصل ہونے کے امکانات پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ حکمران طبقات کی باہم لڑائیوں سے ، اسی لیے اس کی حدود ہوتی ہیں، وہ ان کو کبھی پار نہیں کرتے۔ اگر اُن کا تصادم حتمی یا فیصلہ کن ہوجائے تو عوامی طبقات کا مفاد شروع ہو جاتا ہے۔ اسی لیے مجھ جیسے ہوا کے مخالف چلنے والے لوگ کبھی حکمران طبقات کی باہم لڑائی سے عوامی طبقات کے ثمرات کے منتظر نہیں ہوتے۔ سپریم کورٹ جیسے ادارے انہی طبقات کا مجموعی طور پر تحفظ کرتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سپریم کورٹ اور دیگر عدالتی نظام پاکستان کے 67فیصد کسانوں کے آئین میں طے کردہ حقوق پر خوداختیار کردہ حق استعمال کرکے ان کے حق میں فیصلہ دے دے؟ اگر ایسا ہوجائے تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دریائے کابل کا گدلا پانی اور دریائے سندھ کا نیلا پانی اٹک کے مقام پر کس طرح گھل مل جاتا ہے۔ دو مختلف رنگوں کا پانی اس مقام پر واضح طور پر علیحدہ علیحدہ نظر آتا ہے اور پھر باہم مل جاتا ہے۔ایسے ہی ہمارے حکمران طبقات اور حکمرانی کے ریاستی ادارے فیصلہ کن مقام پر گھل مل جاتے ہیں۔ کبھی عمران خان، آصف علی زرداری یا نوازشریف کو آپ نے پاکستان کے محنت کشوں، کسانوں کے لیے ایک دوسرے کے خلاف گندی زبان استعمال کرتے دیکھا؟ نہیں۔ لڑائی حکمرانی کی ہے، عوام کی نہیں۔ اسے ایک طبقہ گڈ گورننس کہتا ہے تو دوسرا بری گورننس۔ سپریم کورٹ نے کیا دلچسپ فیصلہ سنایا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کی سیاست، حکمرانی اور ریاست کی Dynamics کو سمجھنے میں صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ وزیراعظم مجرم بھی ہے اور ملزم بھی۔ وزیراعظم بری بھی ہوگیا اور مجرم بھی ٹھہرا۔ یہ بات اگر عمران خان کے حامیوں کی سمجھ میں آجائے تو انقلاب ہے، مگر وہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان کی وہ اکثریت جو اس انتخابی عمل میں شامل ہوتی ہے، وہ ان انتخابات سے یورپ بلکہ سکینڈے نیوین جمہوریت جیسے ثمرات کی امیدیں رکھتی ہے۔ اس جمہوریت کی بُنت ہی مختلف ہے، یورپی اور سکینڈے نیوین جمہوریت کی بنیاد اور اساس ہی مختلف ہے۔ اگر ان لوگوں کو مثال دیکھنی ہے تو بھارتی جمہوریت سے لیں۔ اور یہ دونوں ریاستیں، پاکستان اور بھارت، ایک ہی جمہوری بطن سے نکلی ہیں۔ لارڈ کرزن کی ایک کلونیل ریاست ، جو عوام کو ایک طے کردہ جمہوری ڈھانچے میں Concession دیتی ہیں۔ دونوں ریاستیں آج بھی اسی 1935ء کے ایکٹ کے تحت چل رہی ہیں۔ آقا بھی نہیں بدلے، یہ بھی ایک تصور ہی ہے کہ آقا بدل گئے۔ وہی آقا ہیں جو 1947ء سے پہلے تھے۔ درحقیقت آقائوں کے بڑے آقا چلے گئے۔ بھارتی جمہوریت جسے مغرب کے حکمران Largest Democracy قرار دیتے ہیں، وہ حقیقت میں Largest Poverty of the World ہے، جہاں اسمبلیوں سے حکمرانی کے ایوانوں تک قاتل، ڈاکو اور مافیا کا راج ہے۔ وہ جمہوریت جو ’’تسلسل‘‘ کے باوجود بھارت کی عوام کی قسمت نہیں بدل سکی۔ آج بھی بھارتی جمہوریت یا ریاست، دنیا کی سب سے بڑی غربت، جہالت اور بیماری کا گڑھ ہے۔
ہمارے ہاں جو آج کل ’’جمہوریت کے تسلسل‘‘ کی دانش عام کررہے ہیں، دو دہائیاں قبل وہ فوجی آمروں کو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ قرار دیتے تھے۔ اس لیے کہ آج ان کو یہ ’’جمہوری تسلسل‘‘ سوٹ کرتا ہے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے موازنہ کریں پاکستان کا بھارت سے جہاں جمہوریت کا تسلسل ہے، جو دنیا کی بڑی معیشت تو بن گیا، G20 میں اہم رکن، BRICKS جیسی معیشت رکھنے والی ریاست، ٹیکنالوجی میں بھی آگے۔سوال یہ ہے کہ پھر عوام کیوں نہیں بدلے۔ حالاںکہ وہاں جمہوریت کا مسلسل تسلسل ہے۔ ہم برطانوی کلونیل جمہوریت اور کلونیل ریاستی ڈھانچے میں جی رہے ہیں جوکہ بنا ہی حکمران طبقات کے لیے ہے، اوراس میں یورپ جیسی جمہوریتوں کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کا یہ سماج اور ریاست کبھی بھی عوام کی زندگیاں نہیں بدل سکتے۔ حکمرانی کے تصادم میں انہی حکمران طبقات میں سے لوگ برآمد ہوں گے۔ ممکن ہے کہ آپ مجھے آئیڈیلسٹ قرار دیں، لیکن زمینی حقائق یہی ہیں۔ ایک شخص ذوالفقار علی بھٹو نے بدلنا چاہا، اسے سولی پر لٹکا دیا گیا، اس کا جرم یہ تھا کہ وہ پیدا حکمران طبقے میں ہوا اور سیاسی اتحاد عوامی طبقات سے کرلیا۔ پھر اس پر تضاد یہ کہ اپنی ہی جماعت، جس کے بَل پر وہ سماج اور ریاست کو عوامی بنانا چاہتا تھا، اسی میں اُس نے اُن طبقات کو فیصلہ کن قائدانہ کردار دے دیا جن کے خلاف اس نے جدوجہد کا اعلان کر رکھا تھا۔ اور پھر اس تجربے میں اسے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا کہ اس نے اپنے طبقے سے بغاوت کی تھی۔ خود انہوں نے اپنی کتاب میں اس تجربے کی ناکامی کا اعتراف کیا۔
تو ذرا غور کریں، نوازشریف، شہبازشریف، عمران خان اور اس کے رفیق کار، آصف علی زرداری، اسفند یار ولی اور ایسے دیگر لوگ بھلا اپنے طبقے کے خلاف حتمی بغاوت کے لیے کبھی لڑیں گے؟ نہیں! لڑائی کی حدود طے ہیں۔ اگر لڑائی بڑھی تو بھلا عوام کا ہوگا۔ اسی لیے ’’جمہوریت کا تسلسل‘‘ رہنا چاہیے، یہ اس جمہوریت اور حکمران طبقات کا عنوانِ سیاست ہے۔