حکمرانی کی جنگ میں مڈل کلاس کا تصادم
سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف مقدمے نے پورے ملک کو سیاسی محور بنائے رکھا۔ سپریم کورٹ میں وہ مقدمہ ہار بھی گئے اور نااہل بھی ہوگئے۔ اس فیصلے کے بعد ملک دو مختلف آراء میں تقسیم ہوچکا ہے۔ ایک وہ جو میاں نوازشریف اور اُن کی جماعت کے مخالف ہیں، وہ مقدمے کے آغاز ہی سے کہہ رہے تھے اور عوام کو باور کروا رہے تھے، میاں نوازشریف کو اقتدار سے بے دخل کرکے ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا، کرپشن کے خاتمے کا آغاز، احتساب کے در کھل جائیں گے اور ملک ایک نئے روشن مرحلے میں داخل ہوجائے گا۔ اس خیال، دعوے اور یقین کی قیادت پاکستان تحریک انصاف کررہی ہے۔ اور عدالت میں میاں نوازشریف کے خلاف پانامہ مقدمہ بھی وہی لے کر گئے۔ پاکستان تحریک انصاف اپنے ابھار کے ساتھ اور پھر 2013ء میں حیران کن کامیابی کے بعد، مسلم لیگ (ن) کے خلاف شدت انگیز سیاست پر کاربند ہے۔ پہلے انہوں نے دھرنوں سے میاں نوازشریف کو حکومت سے گرانا چاہا اور جب پانامہ پیپرلیکس سامنے آئے تو انہوں نے اس کو ایک سنہری موقع سمجھا اور اس بنیاد پر مسلم لیگ (ن)، اُن کی حکومت اور وزیراعظم کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد کو مجتمع کردیا جس میں وہ کامیاب ہوئے۔ وہ نوازشریف کو حکومت سے بے دخل کرنے کو ایک نئے پاکستان سے تعبیر دے رہے ہیں۔ دوسرا طبقہ، مسلم لیگ (ن) اور اُن کے حمایتی عوام ہیں جو اس کو ایک سازش اور پاکستان میں مسلم لیگ (ن) حکومت کی ترقیاتی سیاست کو زک پہنچانے اور ملک کو نقصان پہنچانے کا عمل قرار دیتے ہیں۔ میاں نوازشریف اور اُن کے مداحین سیاسی اور اہل فکر، اس کو نہ نظر آنے والی اُن طاقتوں کی سازشوں کا منصوبہ قرار دیتے ہیں جو اس جمہوری حکومت سمیت تمام جمہوری حکومتوں کے گرانے میں سامنے آکر یا پس منظر میں رہ کر متحرک رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اس کو جمہوریت، جمہوری اور منتخب حکومت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی اُن طاقتوں کا کیا دھرا قرار دے رہے ہیں جو کسی سول لیڈرشپ کو مضبوط ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ مسلم لیگ (ن) اور اُن کے حمایتی تجزیہ نگار اسے سول بالادستی، آئینی حکمرانی، جمہوری حکمرانی، عوامی حکمرانی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی سازش قرار دے رہے ہیں، اس طبقے کے اہل فکر اس موقع پر پس منظر کی طاقتوں کو کمزور کرکے ملک میں سول حکمرانی کی بالادستی کا پرچار کر رہے ہیں۔ یہ ظاہری موقف ہیں یا یوں کہیے کہ یہ دو موقف ہیں جو نوازشریف کے حامی اور عمران خان کے حامی بیان کررہے ہیں۔
میرے نزدیک اس تصادم یا لڑائی کا طبقاتی اور جدلیاتی تجزیہ یکسر مختلف ہے۔ اس تصادم کا نہ تو عوامی حقوق، عوامی جمہوریت، آئین کی بالادستی اور اسی طرح نہ ہی کسی نئے پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔ مسلم لیگ (ن) نہ تو عوامی حقوق کی علمبردار ہے اور نہ ہی آئینی بالادستی کی۔ خود میاں نوازشریف سابق دورِحکومت میں پاکستان پیپلزپارٹی کے وزیراعظم کو نااہل کروانے کے لیے عدالت میں گئے۔ جب اُن کو وطن واپس آنے کی ضرورت تھی، انہوں نے بے نظیر بھٹو سے چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کیا اور جب انہوں نے اقتدار کے حصول کے سفر کو منتخب کرنا تھا، انہوں نے پیپلزپارٹی کا وزیراعظم نااہل اور برطرف کروانے میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالا۔اور اسی طرح عمران خان اپنے اقتدار کے لیے سفر کو تیزتر کرنے کی خاطر سب کچھ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کہیں بھی عوام اور عوام کے حقوق وجۂ تصادم نہیں۔ یہ حکمران طبقات کا باہمی تصادم ہے۔ اس تصادم میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف دونوں ہی دائیں بازو کے ایک جیسے نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں ہیں۔ دونوں کے سیاسی، نظریاتی، معاشی اور اقتصادی افکار ایک دوسرے کے بالکل قریب ہیں۔ نہ تو نوازشریف کے وزارتِ عظمیٰ سے نکل جانے سے سیاسی اور حکومتی اقتدار شریف خاندان سے باہر گیا اور نہ ہی عوام کسی سطح پر مضبوط ہوئے، اور نہ ہی پس منظر کی طاقتیں (اسٹیبلشمنٹ) میاں نوازشریف کی نام نہاد آئینی قیادت وسیاست سے کمزور ہوئیں۔ یہ تو صرف حکمران طبقات کا باہمی تصادم ہے۔ اس تصادم میں ایک طرف مسلم لیگ (ن) ہے اور دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف۔ تاریخی اور سیاسی طور پر یہ دو مڈل کلاسز کی لڑائی ہے جو پاکستان خصوصاً پنجاب کے شہروں میں معاشی، اقتصادی اور سماجی طاقت پکڑ چکی ہیں۔ ایک روایتی مڈل کلاس ہے جسے میں پچھلی تین دہائیوں سے پنجاب کی مرکنٹائل کلاس (تاجر طبقہ) لکھتا چلا آ رہا ہوں۔ پنجاب کی اس مرکنٹائل کلاس کا ظہور 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے عروج میں ہوا اور اسی مرکنٹائل کلاس نے پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے بھٹو کے خلاف انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر تحریک چلائی، جو یکایک نظامِ مصطفی تحریک میں بدل گئی۔ یہ پنجاب کے دکان دار ہی تھے جنہوں نے پی این اے کی تحریک میں شہروں میں بازاروں کو بند کرکے بھٹو مخالف تحریک کو حتمی جِلا بخشی۔ پنجاب کی اسی مرکنٹائل کلاس نے اس کے بعد پاکستان کی سیاست میں حیران کن طاقت پکڑی اور یوں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ جاگیرداروں کی بجائے اس پنجابی مرکنٹائل کلاس کے حصے میں نوازشریف کی شکل میں آئی۔ طاقت کے اہم اور فیصلہ کن مراکز سے سیاسی اور حکمرانی کا خزینہ حاصل کرنے والی اس کلاس نے 1977ء میں نظامِ مصطفی کے نعروں میں طاقت پکڑی اور پنجاب کی اس مرکنٹائل کلاس کے نمائندہ نوازشریف بعد میں تین بار پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔ نظامِ مصطفی سے بڑھتے بڑھتے اب یہ قیادت اپنے آپ کو پاکستان میں جمہوریت، عوامی حکمرانی سے تعبیر اور اپنے اقتدار کے خطرات کو اسٹیبلشمنٹ کی سازش قرار دے رہی تھی۔ جیسے اس وقت اُس مرکنٹائل کلاس کا نظامِ مصطفی سے کوئی تعلق نہیں تھا، ایسے ہی آج اس مرکنٹائل کلاس کی قیادت کے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سپر ہونے کے دعووں کی کوئی حقیقت نہیں۔ اور یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ میاں نوازشریف اب صنعتی سرمایہ دار (Industrial Capitalist) نہیں بلکہ انٹرنیشنل سرمایہ کار ہیں۔ وہ اب صنعت کاری کی بجائے سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ دار ہیں، اُن کا خاندان، پاکستان اور پاکستان کے باہر دونوں جگہوں پر اسی حوالے سے سرمایہ کاری کررہے ہیں۔
ایک مضبوط سرمایہ دارنہ جمہوریت کا ایک تقاضا Industrialization بھی ہوتا ہے، دنیا میں جہاں بھی جمہوریت مضبوط ہوئی، وہ اسی لیے انڈسٹریل ڈیموکریسی کہلائی۔ نوازحکومت کے تینوں ادوار میں اکثر منصوبے صنعت کاری کی بجائے سرمایہ کاری پر مبنی تھے۔ یعنی وہ صنعتی جمہوریت سے کوسوں دور ہیں۔ اگر پاکستان میں صنعتی جمہوریت مضبوط ہوتی تو یقینا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت میں دراڑیں پڑتیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کے مقابلے میں برپا پاکستان تحریک انصاف درحقیقت پنجاب کی روایتی مڈل کلاس، جوکہ مرکنٹائل مڈل کلاس ہے، کے مقابلے میں ابھر کر آنے والی نئی مڈل کلاس کی نمائندہ ہے۔ دونوں مڈل کلاسز اپنے تئیں سیاسی قیادت اور حاکمیت کے لیے سرگرم ہیں۔ نئی مڈل کلاس کا بڑا مرکز بھی پنجاب کے اربن سینٹرز ہیں اور یہ مڈل کلاس گلوبلائزیشن اور دیگر کیپٹل ازم کے بطن سے ابھری ہے، اسے میں کارپوریٹ مڈل کلاس قرار دیتا ہوں۔ دونوں کے مابین سیاسی اور سماجی حاکمیت کے تصادم میں پاکستان کے ستر یا اسّی فیصد عوام کہیں نہیں۔ شہروں کی یہ مڈل کلاسز تقسیم ہیں اور اس تقسیم کی لاتعداد سماجی، معاشی اور ثقافتی وجوہات ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں شعوری طور پر اس ستر یا اسّی فیصد محنت کش طبقات سے اتحاد کرنے سے گریزاں ہیں جن کے سر پر سارا ملک چل اور پل رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کے ان اہم پیداواری طبقات کو دونوں جماعتوں نے اپنے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیا، اسی لیے ان دونوں جماعتوں میں آپ کہیں اس ستر یا اسّی فیصد عوام اور پاکستان کو کہیں نہیں دیکھ سکتے۔ شہروں میں Lumpenproletariat(بازاری محنت کش)طبقات بھی ان دونوں جماعتوں سے وابستہ مڈل کلاسز سے جڑے ہوئے ہیں۔ ملک اور خصوصاً پنجاب کے یہ درمیانے طبقات، درحقیقت پاکستان کے اوپری حکمران طبقات سے جڑنے، نتھی ہونے اور اُن میں شامل ہونے کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ اس تقسیم اور تصادم میں سماج کے دیگر طبقات، Intelligentia اور طاقت کے اہم مراکز بھی تقسیم ہیں، حتیٰ کہ انصاف فراہم کرنے والے ادارے بھی۔ میڈیا ہائوسز اور ان میڈیا ہائوسز کے تجزیہ نگار بھی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاسے جڑے یہ تجزیہ نگار بھی اسی تصادم اور تقسیم کا حصہ ہیں۔ ایک مسلم لیگ (ن) اور دوسرے پاکستان تحریک انصاف کا مقدمہ لڑنے میں مصروف ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا یہ کردار پچھلے سترہ سالوں میں حیران کن حد تک بڑھا ہے اور یوں یہ طبقہ بھی طاقت کے اس کھیل، دوڑ اور تصادم میں اپنی حصہ داری چاہتا ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، میڈیا اور اس میں شامل دیگر طبقات دراصل شہری علاقوں کی مڈل کلاسز تک محدود جمہوریت کے خواہاں ہیں۔ پاکستان کی جمہوریت ایک Isolated جمہوریت ہے۔ ستر فیصد عوام کا اس کھیل میں نہ تو کوئی حصہ ہے اور نہ ہی وہ اس تصادم میں شامل ہیں اور نہ ہی وہ اس تصادم کے Beneficiary ہوں گے۔ مرکنٹائل کلاس اور کارپوریٹ مڈل کلاس کے اس تصادم کو پاکستان میں جمہوریت اور عوامی حاکمیت کی کشمکش قرار دینے والے کہیں بھی پاکستان میں اکثریت (محکوم طبقات) کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے اس لیے گریزاں ہیں کہ اگر اُن کے حقوق کی آواز بلند کی گئی تو حقوق اور جمہوریت کو پنجاب کے شہروں کی اربن مڈل کلاسز سے نکال کر ان تک لانا ہوگا اور یوں پاکستان کا سماجی، معاشی اور اقتصادی ڈھانچا ٹوٹ جائے گا جو اس اوپری طبقات اور دونوں مڈل کلاسز کے درمیان اتحاد کے سبب قائم ودائم ہے۔ پاکستان میں رائج اور قائم جمہوریت کی حقیقت اس بیس پچیس فیصد لوگوں کے حقوق اور بالادستی تک ہے، اس لیے پاکستان میں قائم جمہوری ڈھانچے میں جب Invisible Powers کسی ایک طرف اپنا وزن ڈالتی ہیں تو توازن لڑکھڑانے لگتا ہے۔
پاکستان میں عملی طور پر اس وقت مین سٹریم کی ایک بھی سیاسی جماعت، بشمول میڈیا ہائوسز ایسی نہیں جو پاکستان کے موجودہ سیاسی، سماجی اور حاکمیت کے ڈھانچے کو توڑنا چاہتی ہوں۔ حکمران طبقات اور اس کی اتحادی مڈل کلاس کے باہمی تصادم سے تبدیلی کے خواب، نیا پاکستان اور نام نہاد اسٹیبلشمنٹ کو شکست دینے کے دعوے میں حقیقت نہیں۔ اس سماجی، معاشی اور حاکمیت کے ڈھانچے کو اس وقت چیلنجز ہوں گے جب کسی ایک مڈل کلاس قیادت نے پاکستان کے اس سترفیصد عوام کے ساتھ سیاسی اتحاد کرلیا تو پھر طاقت کے خفیہ اور ظاہری مراکز کو خطرات درپیش ہوسکتے ہیں، ابھی نہیں۔ آخری بات، تبدیلی بھی تبھی آتی ہے جب مڈل کلاس، نچلے طبقات سے اتحاد کرلے۔ ہمارے ہاں ہرقسم کی مڈل کلاس اوپری طبقات سے جڑنے کے لیے ہمہ وقت سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اور ایسے ہی مین سٹریم کی تمام سیاسی جماعتیں، ان ستر فیصد عوام کو Isolation میں رکھنے پر متفق ہیں۔ نواز حکومت گرے یا عمران حکومت آئے، موجودہ سیاسی، سماجی حاکمیت کا ڈھانچا ایسا ہی رہے گا۔
“