حدیبیہ کیس ہے کیا ؟
جوڈیشل ایکٹو ازم کے عہد میں جوان ہونے والی نسل کے لیے پانامہ کیس تو شاید نیا ہے مگر حدیبیہ کیس کچھ پرانا ہے۔ اب اِس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ شریف خاندان کے لیے پانامہ کے نو دن، حدیبیہ کے سو دن ثابت ہوں گے۔ مراد صرف یہ ہے کہ پرانے زخم تازہ ہوں تو درد نیا لگنے لگ جاتا ہے۔
حدیبیہ کیس کتنا پرانا ہے؟ بس کچھ یوں سمجھ لیں کہ اِس ریفرنس کے آس پاس دنیا میں آنکھ کھولنے والے بچے آئندہ برس اگست 2018ء کے عام انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کرسکیں گے۔ یعنی قومی احتساب بیورو کی راہداریوں میں اِس ریفرنس کی گونج لگ بھگ 17 برس بعد سنائی دے رہی ہے۔
معاملہ کچھ یہ ہے کہ 1990ء کی دہائی میں شریف خاندان پر بے نامی بینک اکاؤنٹس سے بھاری رقوم منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنے کا الزام لگا، جبکہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں اُن کے مشیرِ خاص رحمٰن ملک کے ہاتھوں اِس معاملے کی تحقیقات کا آغاز تو ہوا مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
حدیبیہ پیپر مل کا باقاعدہ مقدمہ اور وعدہ معاف گواہ اسحٰق ڈار
حدیبیہ پیپرز مل کے نام سے باضابطہ ریفرنس سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سال 2000ء میں دائر ہوا۔ گرفتار اسحٰق ڈار ریفرنس میں پہلے ملزم اور بعد میں وعدہ گواہ بن گئے۔
وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد نواز شریف کے سمدھی اور موجودہ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے سال 2000ء میں دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے 45 صفحات پر مشتمل ایک اعترافی بیان دیا جس میں اُنہوں نے بہت بڑے پیمانے پر شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا۔
اِس 45 صفحے کے اعترافی بیان میں اُس ساری منی لانڈرنگ کی تفصیل ہے جو اسحٰق ڈار نے شریف خاندان کے لیے کی تھی۔ اسحٰق ڈار کے مطابق دفعہ 164 کا یہ بیان اُن سے زبردستی لیا گیا تھا، لیکن قانون دانوں کا کہنا ہے کہ 164 کے بیان سے قانونی انحراف مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
اسحٰق ڈار کا یہ اعترافی بیان ہی اکلوتی دستاویز نہیں ہے، بلکہ سرکاری تحقیقاتی اداروں نے 1993ء میں شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیقات شروع کی تھیں اور حیران کن طور پر اُنہوں نے جو شواہد اور اعداد و شمار جمع کیے تھے وہ تمام کے تمام اسحٰق ڈار کے بیان حلفی میں بھی موجود ہیں۔
دفعہ 164 کیا ہے؟
قانونِ شہادت آرڈر 1984ء کے آرٹیکل 38 اور 39 کے مطابق پولیس کسٹڈی (زیرِ حراست) میں کیے گئے اعترافِ جرم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں جب تک کہ یہ اعتراف مجسٹریٹ کے سامنے نہ کیا جائے۔ ملزم جو کچھ مجسٹریٹ کے سامنے کہے گا قانون اُسی بیان کو مانے گا۔ مجموعہِ ضابطہ فوجداری میں اعترافِ جرم ریکارڈ کرنے کا ایک مخصوص طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ کسی اور طریقے سے حاصل کیا گیا اعترافی بیان عدالت میں قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ اِس قانون کی دفعہ 164 کے مطابق فرسٹ کلاس یا سیکنڈ کلاس مجسٹریٹ اعترافِ جرم ریکارڈ کرے گا۔ ملزم کا بیان ریکارڈ کرنے سے پہلے مجسٹریٹ اُسے بتائے گا کہ وہ اعترافِ جرم کرنے کا پابند نہیں اگر وہ ایسا کرے گا تو یہ بیان اُس کی سزا کا موجب بن سکتا ہے۔ مجسٹریٹ ملزم کو بتاتا ہے کہ اُس پر (ملزم پر) کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے، وہ چاہے تو اعترافِ جرم سے انکار کرسکتا ہے۔ پوری تسلی کے بعد ہی مجسٹریٹ ملزم کا بیان ریکارڈ کرے گا۔ بیان لکھنے کے بعد ملزم کو پڑھ کر سنانا ضروری ہے، ملزم چاہے تو وہ اُس میں رد و بدل کرسکتا ہے۔ ملزم کی جانب سے بیان صحیح ہونے کی تصدیق کے بعد بیان کے آخر میں مجسٹریٹ اپنے دستخط کرکے سند دے دیتا ہے۔
اسحٰق ڈار اور شریف خاندان کی قربت کا آغاز
اسحٰق ڈار شریف خاندان کے قریب اُس وقت ہوئے جب اُنہوں نے 1991ء میں پہلی ہجویری مضاربہ کمپنی بنائی۔ شریف گروپ اور سہگل گروپ اُن کے پہلے گاہک بنے۔ اِس سے پہلے 1990ء میں اسحٰق ڈار کی ملاقات شہباز شریف سے اُس وقت ہوئی تھی جب وہ چیمبر آف کامرس کے صدر تھے۔
سابق وزیرِاعظم نواز شریف پر الزام ہے کہ اُنہوں نے اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے 1992ء میں اکنامک ریفارمز ایکٹ متعارف کروایا۔ اسحٰق ڈار نے بھی اپنے بیان میں اُس ایکٹ کا حوالہ دیا ہے کہ نواز شریف نے مجھے کہا تھا
"فکر نہ کریں ہم یہ ایکٹ لا رہے ہیں۔ آپ کو کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکے گا"
حدیبیہ کیس میں کب اور کیا ہوا؟
نیب کی تحقیقاتی دستاویزات کے مطابق میاں نواز شریف نے اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے 1992ء میں واشنگٹن میں موجود اپنے دوست جاوید کیانی کی خدمات حاصل کی تھیں۔
اگست 1992ء میں جاوید کیانی نے محمد رمضان، سلمان ضیاء اور اصغر علی کے نام سے حبیب بینک اے جی زیورخ میں تین جعلی اکاؤنٹ کھولے۔ تینوں اکاؤنٹ غیر ملکی کرنسی کے تھے اور اُن میں ابتدائی ڈپازٹ 300 ڈالر سے بھی کم تھا۔ دستاویزات بتاتی ہیں کہ یہ جعلی اکاؤنٹ بظاہر باہر سے پیسہ واپس لانے کے لیے بنائے گئے تھے تاکہ بعد میں اِس پیسے کو کولیٹرل یعنی زرِ ضمانت رکھوا کر شریف خاندان کی کمپنیوں کو قرضہ دلوایا جاسکے۔
یوں منی لانڈرنگ کرکے غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر بھیجا گیا پیسہ قانونی طریقے سے شریف خاندان کو واپس مل گیا۔ یہ تینوں اکاؤنٹ جعلی شناختی کارڈ استعمال کرکے بنائے گئے تھے۔ بعد میں اِن اکاؤنٹس میں چیک اور کیش کی صورت میں 37 لاکھ 94 ہزار، 762 ڈالرز جمع کروائے گئے اور اُس کے عوض لاکھوں ڈالرز کے بیررز سرٹیفیکیٹ جاری کروائے گئے۔ نواز شریف کے سابق بزنس پارٹنر اور فرسٹ کزن میاں سراج نے بھی 1994ء کے اپنے ایک خط میں اِس سارے واقع کا ذکر کیا ہے اور یہ سب کچھ اسحٰق ڈار کے اعترافی بیان میں بھی موجود ہے۔
دستاویزات کے مطابق اِس کے بعد، لندن کی قاضی فیملی کے لئے تین مزید اکاؤنٹس کھولے گئے، جس میں کاشف مسعود قاضی اور نزہت گوہر قاضی کے نام پر بینک آف امریکا لاہور اور سکندر مسعود قاضی کے نام پر سٹی بینک لاہور میں کھولا گیا۔ اِن اکاوئنٹس کا ذکر بھی اسحٰق ڈار کے اعترافی بیان میں موجود ہے۔
اسحٰق ڈار کے اعترافی بیان کے مطابق 1992ء میں نواز شریف نے اُن سے رابطہ کیا اور 100 ملین روپے قرضے کی درخواست کی جو میرے مضاربہ سے اُن کو دی جانی تھی۔ جب میں نے کولیٹرل مانگا تو نواز شریف نے کہا کہ وہ فارن کرنسی فنڈ کولیٹرل کی شکل میں دیں گے۔
اسحٰق ڈار کے مطابق نواز شریف نے اُن کو قاضی خاندان کے 4 افراد کے پاسپورٹ کی کاپیاں فراہم کیں اور کہا کہ اِن اکاؤنٹس کو آپ آپریٹ کریں گے۔ اسحٰق ڈار کے مطابق چار میں سے دو اکاؤنٹ سکندر مسعود قاضی اور طلعت مسعود قاضی کے نام پر تھے جو اُنہوں نے کھولے۔ باقی دو اکاؤنٹس ہجویری مضاربہ کے ڈائریکٹر نعیم نے کھولے۔ یہ دونوں اکاونٹ نزہت گوہر اور کاشف محمود قاضی کے نام پر تھے۔ اسحٰق ڈار کے مطابق دو اکاؤنٹ میرے اور دو ڈائریکٹر نعیم کے دستخط سے چلا کرتے تھے، جبکہ اُن کے لیے احکامات براہِ راست نواز شریف اور شہباز شریف سے آتے تھے۔
اِس اعترافی بیان میں ایک پانچویں اکاؤنٹ کا بھی ذکر ہے جو سعید احمد کے نام پر تھا۔ سعید احمد کو اسحٰق ڈار نے اپنا قربی دوست اور سابقہ بزنس پارٹنر بتایا تھا۔ یہی سعید احمد اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ڈپٹی گورنر کے عہدے پر فائز رہے اور یہ عہدہ اُنہیں اسحٰق ڈار کے وزیرخزانہ بننے کے بعد دیا گیا۔
چھٹا اکاونٹ اُن کی بیوی کے بھانجے موسٰی غنی کے نام پر تھا۔ اسحٰق ڈار کے مطاق سعید احمد اپنا اکاؤنٹ خود چلاتے تھے جبکہ موسٰی غنی کا اکاونٹ وہ چلاتے تھے اور اُس کے بدلے جتنا قرضہ لیا گیا وہ سارا شریف خاندان کو دے دیا گیا۔ اُن کے علاوہ بھی ایسے اکاونٹ چلائے جاتے رہے جن کے بدلے قرضہ لیا گیا۔
شریف خاندان کے خلاف برطانیہ میں التوفیق انویسٹمنٹ بینک کا کیس چلا۔ برطانوی عدالت نے برطانیہ میں موجود نواز شریف کی پراپرٹی کو اِس کیس سے نتھی کرلیا جس کو چھڑانے کے لیے شریف خاندان نے اُس دور میں 32.5 ملین ڈالر ادا کیے اور پانامہ لیکس کے حوالے سے نواز شریف اور اُن کے بیٹے حسین نواز اُس پراپرٹی کو 2006 میں خریدنے کا دعوی کرتے رہے ہیں۔
1998ء میں اسحٰق ڈار نے اپنے اعترافی بیان میں شہباز شریف کے ساتھ ماڈل ٹاؤن میں ہونے والی ایک میٹنگ کا بھی ذکر کیا ہے۔ اُس میٹنگ میں شہباز شریف نے کہا کہ چونکہ اخبارات میں بار بار اکاؤنٹس کا ذکر آچکا ہے لہذا تمام اکاونٹس سے فوری رقم نکال لی جائے اور مڈل ایسٹ کی ایک خاتون صدیقہ سید کے ذریعے اُن کو حدیبیہ پیپر ملز کے اکاؤنٹ میں شیئر کیپیٹل کے طور پر جمع کروا دیا جائے۔ شہباز شریف نے صدیقہ سید کے پاسپورٹ کی کاپی بھی دی کہ اُن کے نام سے جمع کروائیں۔ اُس کے بعد 37 اور 29 لاکھ ڈالر اُن کے نام سے بھیجے گئے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایٹمی دھماکوں کے بعد سارے ملک کے فارن کرنسی اکاؤنٹس منجمد کروا دئیے لیکن مبینہ طور پر انہوں نے اپنے فارن کرنسی اکاؤنٹ بچانے کے لیے فوری طور اُن میں موجود ڈالرز کو 46 روپے کی قیمت سے تبدیل کرکے (جو ڈالر کی اصل قیمت سے زیادہ تھی) اُسی اکاؤنٹ میں جمع کروائے۔ اسحٰق ڈار کے مطابق اُن رقوم سے اُنہوں نے بعد میں اپنے کئی قرضے واپس کئے جس سے ثابت ہوا کہ یہ قاضی خاندان کی نہیں بلکہ اُن کی اپنی رقوم تھیں۔
شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے پشاور کے دو ہنڈی اور حوالہ ڈیلرز کے نام تک سامنے آئے۔ شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے اعترافی بیانات، بینک ریکارڈز اور دستاویزات مختلف ادوار میں سامنے آتے رہے ہیں۔
جلاوطنی سے کیس ختم ہونے تک کا سفر
دسمبر 2000ء میں شریف خاندان کی جلاوطنی کے باعث حدیبیہ ریفرنس اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکا۔ سات برس بعد 2007ء میں نواز شریف کی وطن واپسی پر اُن کے سمدھی اسحٰق ڈار اپنے اعترافی بیان سے منحرف ہوگئے۔
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں ستمبر 2011ء میں نیب کی جانب سے احتساب عدالت راولپنڈی میں مقدمہ کھولنے کی درخواست دائر کی گئی۔ درخواست دائر ہوئی تو شریف خاندان نے ریفرنس کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں چیلنج کردیا۔
2012ء میں لاہور ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے شریف خاندان کی درخواست پر اختلافی فیصلہ دیا۔ دونوں ججوں کے اختلاف پر معاملہ ریفری جج کو بھجوایا گیا۔ مئی 2014ء میں ریفری جج نے حدیبیہ ریفرنس خارج کرنے کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔
نیب بورڈ نے اپنے پراسیکیوٹر کی رائے پر فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد ستمبر 2014ء میں احتساب عدالت نے بھی حدیبیہ ریفرنس بحال نہ کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔
پانامہ کیس کے بعد نیا موڑ
پانامہ بینچ اور جے آئی ٹی کی تحقیقات میں رحمٰن ملک کی رپورٹ میں لگائے الزامات کی روشنی میں غور کیا گیا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے براہِ راست اسحٰق ڈار کو شریف خاندان کے مالی معاملات کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے قاضی فیملی، سٹی بینک، بینک آف امریکا، حدیبیہ انجینئرنگ اور حدیبیہ پیپر مل کے حوالے سے متعدد سوالات کیے جن کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
پانامہ کیس کی سماعت کے دوران ججز نے ریفرنس پر اپیل دائر نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی سفارش کی گئی۔ 22 جولائی 2017ء کو ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب نے سپریم کورٹ کو اپیل دائر کرنے کی یقین دہانی کرائی، مگر اپیل میں نیب کی جانب سے تاخیر پر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی نئی درخواست سامنے آئی۔ شیخ رشید نے چئیرمین نیب اور پراسیکیوٹر نیب کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کی۔
15 ستمبر 2017ء کو پراسیکیوٹر نیب نے سپریم کورٹ میں جلد اپیل دائر کرنے کا یقین دلایا اور 20 ستمبر 2017ء کو نیب نے حدیپیہ پیپرز ملز ریفرنس دوبارہ کھولنے کے لیے اپیل سپریم کورٹ میں دائر کردی۔
ڈیڑھ ماہ بعد یعنی 10 نومبر 2017ء کو اپیل کی سماعت کے لیے 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔ 13 نومبر 2017 کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل بینچ نے سماعت کی تو جسٹس کھوسہ نے بینچ کی سربراہی سے معذرت کرلی۔ بینچ ٹوٹنے کے بعد کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی ہوگئی ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ اپنے اعترافی بیان میں اسحٰق ڈار نے شریف فیملی کے لیے فارن کرنسی اکاونٹ کھولنے اور لندن میں ایک ارب 20 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا ہے۔ اسحٰق ڈار کے اِس اعترافی بیان میں پانامہ لیکس کے حوالے سے اُٹھائے گئے کئی اہم سوالات کے جوابات بھی ہیں جیسے رقم کہاں سے آئی؟ باہر کیسے گئی؟ اور لندن پراپرٹی کب خریدی گئی!
سیاست کے طالب علموں کے لئے یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس میں میاں شریف، نواز شریف، عباس شریف اور اُن کی اہلیہ صبیحہ عباس، حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز تو ملزمان نامزد ہوئے ہی، لیکن اِن کے علاوہ پانامہ کے ہنگامے سے بچ جانے والے شریف خاندان کے دیگر افراد، جیسے وزیراعلی پنجاب شہباز شریف، اُن کے صاحبزادے حمزہ شہباز اور شریف برادران کی والدہ، شمیم اختر بھی ملزمان میں شامل ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔