ہبل دوربین سائنس کی تاریخ کی سب سے زیادہ مقبول اور سب سے زیادہ کامیاب دوربین ثابت ہوئی ہے- زمینی دوربینوں کی نظر بہت اچھی نہیں ہو سکتی کیونکہ کرہ ہوائی کی distortion کی وجہ سے بہت دور کے اجسام کی واضح شبیہہ بنانا مشکل ہے- اس وجہ سے سپیس ٹیلیسکوپس کا پروگرام شروع کیا گیا جس کی پہلی دوربین ہبل کو اپریل 1990 میں سپیس شٹل ڈسکوری سے لانچ کیا گیا تھا- لیکن خلا میں جانے کے بعد جب اس سے مشاہدات کا آغاز کیا گیا تو سائنس دانوں کو یہ جان کر انتہائی مایوسی ہوئی کہ ہبل کی نظر کمزور ہے اور یہ صاف امیجز نہیں بنا سکتی- اگرچہ اس کی نظر زمینی دوربینوں کی نظر سے پھر بھی بہتر تھی لیکن اس سے بنائی گئی تصویروں میں جس ریزولوشن کی امید کی جا رہی تھی اس تصاویر کی ریزولوشن اس سے کہیں کم تھی- تفتیش کے بعد یہ عقدہ کھلا کی ہبل کا مرکزی شیشہ اپنی specifications کے مطابق نہیں ہے یعنی اس میں کچھ مائیکرومیٹرز کی کجی ہے جسے spherical aberration کہا جاتا ہے اور جس کی وجہ سے اس کی شبیہہ عین اس جگہ فوکس نہیں ہو پاتی جہاں ہبل کا امیج سینسر ہے- اس deformity کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہبل کی کھینچی گئی تمام تصاویر دھندلی تھیں جن میں کسی سٹرکچر کی تفصیل نہیں دیکھی جا سکتی تھی- یہ شیشہ کئی سالوں کی محنت سے تیار کیا گیا تھا اور دنیا میں اپنی قسم کا واحد شیشہ تھا- یہ خامی اتنی بڑی تھی کہ اس ایک خامی کی وجہ سے ہبل کا تمام مشن ضائع ہو سکتا تھا- اس وقت ہبل دور بین زمین سے 600 کلومیٹر کی بلندی پر زمین کے گرد گردش میں مصروف تھی-
ہبل اگر زمین پر ہوتی تو بھی اس کا شیشہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ اس قسم کا کوئی اور شیشہ دنیا میں کہیں بھی میسر نہیں تھا- زمین سے چھ سو کلومیٹر بلندی پر 8 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتی ٹیلیسکوپ کا شیشہ تبدیل کرنا اصولاً بھی ممکن نہیں ہے- لیکن ناسا کے سائنس دانوں نے ہمت نہیں ہاری اور اس مسئلے کا ایک نادر حل تلاش کر لیا- اگر ہبل کے شیشے اور امیج سینسر کے درمیان ایک ایسا عدسہ نصب کر دیا جائے جس کی کجی یا deformity ہبل کے اوریجنل شیشے کی deformity کا عین الٹ ہو تو یہ دو deformities ایک دوسرے کو کینسل کر دیں گی اور امیج سینسر پر امیج درست بننے لگے گا- یہ ایک ایسی تجویز تھی جسے ناسا کی انتظامیہ نے اغاز میں تو دیوانے کی بڑ قرار دے کر رد کر دیا لیکن انجینیئرز نے ہمت نہیں ہاری اور ایک پروٹوٹائپ بنا کر انتطامیہ کو دکھایا جس میں یہ ثابت کیا گیا کہ دوربین کے ایک شیشے کی کجی کو دوسرے عدسے سے درست کیا جا سکتا ہے- چنانچہ کچھ لیت و لعل کے بعد انتظامیہ نے اس منصوبے کی منظوری دے دی-
لیکن ہبل دوربین کی مرمت کا یہ کام بھی اتنا آسان نہیں تھا- سپیس میں موجود دوربین کے شیشے اور امیج سینسر کے درمیان نئے عدسے کو نصب کرنا بہت جان جوکھوں کا کام ہے- تاہم انجینیرز نے ایک ایسا سسٹم کامیابی سے ڈیزائن کر لیا جو self-contained تھا یعنی ایک بڑے ماڈیول کی شکل میں تھا جو ہبل دوربین میں پہلے سے موجود ایک انسٹرومنٹ ماڈیول کو نکال کر اس کی جگہ فٹ کیا جا سکتا تھا- ایک طرف ناسا کے انجینیئرز اس نادر ماڈیول کو بنانے اور اسے ٹیسٹ کرنے میں مصروف تھے تو دوسری طرف ناسا کے خلاباز کئی ماہ سے ہبل کی مرمت کے مشن کی ٹریننگ لے رہے تھے- اس ٹریننگ کے دوران ہبل کے full-scale ماڈل میں بار بار اس مشن کی پریکٹس کی گئی، ہر ممکنہ غلطی اور ہر قسم کے نامساعد اور unpredictable حالات پر قابو پانے کی مشقیں کی گئیں اور بالاخر سپیس شٹل کے ایک مشن کی منظوری دے دی گئی جو ہبل دور بین تک پہنچ کر اسے قابو کرے گا، سپیس شٹل کے bay میں لائے گا اور اس کی مرمت کر کے اسے واپس خلا میں چھوڑے گا
یہ مشن آج سے عین 25 سال قبل دسمبر 1993 میں بھیجا گیا- سپیس شٹل لانچ کے بعد کامیابی سے ہبل تک پہنچی اور سپیس شٹل کے روبوٹک بازو نے ہبل کو اپنی گرفت میں لے کر اسے سپیس شٹل کے کارگو bay میں لا کھڑا کیا- اس کے بعد پانچ دن تک خلا باز سپیس شٹل کے پرانے انسٹرومںٹ پینلز کو نکالنے اور نئے پینلز کو نصب کرنے کا کام کرتے رہے- ان نئے پینلز میں Wide Field and Planetary Camera 2 (WFPC2) اور Corrective Optics Space Telescope Axial Replacement (COSTAR) شامل ہیں جو ہبل کی نظر کی کمزوری کو دور کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے- ان دو انسٹرومنٹس کو انجینیئرز ہبل کی نئی عینک کہتے ہیں- اس کے علاوہ خلا بازوں نے سپیس شٹل کے پرانے سولر پینل نکال کر ان کی جگہ نئے اور بہتر کارکردگی والے سولر پینل نصب کیے اور نئے جائروسکوپ لگائے جن سے ہبل کی stability بہت بہتر ہو گئی اور وہ انتہائی دور دراز کی کہکشاؤں کی تصویریں لینے کے قابل بھی ہو گئی جن کی شبیہہ بنانے کے لیے ہبل ٹیلی سکوپ کو گھنٹوں ایک ہی نقطے پر نظر مرکوز رکھنا ضروری ہوتا ہے-
ہبل کی مرمت کا یہ مشن 9 دسمبر 1993 کو اختتام کو پہنچا جس کے بعد ہبل کو دوبارہ خلا میں چھوڑ دیا گیا- اس وقت تک انجینیئرز کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس 'عینک' سے ہبل کی نظر کس قدر بہتر ہو پائے گی- ہبل کے آپریشن کو دوبارہ شروع کیا گیا اور اس کے تمام انسٹرومنٹس کو کڑے ٹیسٹس سے گذارا گیا جو تمام کے تمام بہترین رزلٹس کے ساتھ کامیاب رہے- اس کے بعد جنوری 1994 میں ہبل کو دور دراز کی کہکشاؤں کی تصویریں بنانے کا حکم جاری کیا گیا- جنوری کے آخر میں ہبل نے کہکشاؤں کی تصاویر واپس بھیجنا شروع کیں اور سائنس دانوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے یہ دیکھا کہ ان کی توقع کے عین مطابق ہبل کی اس 'عینک' سے ہبل کی نظر سو فیصد بحال ہو گئی اور ان تصاویر میں کہکشاؤں کے سٹکرکچرز کی تفصیل انتہائی حد تک موجود تھی-
ہبل کی اس eye surgery کو ناسا کے اب تک کے بہترین اور کامیاب ترین مشنز میں سے ایک مانا جاتا ہے- اس ہفتے اس مشن کی پچیسویں سالگرہ ہے- آئیے ہم سب اس پر مسرت موقع پر ہبل کی بھیجی ہوئی تصاویر کو دیکھ کر اپنی خوشی کو دوبالا کریں- ہبل کی بھیجی ہوئی تصاویر اس لنک سے دیکھی جا سکتی ہیں-
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...