"ہاوس وائف"
الفاظ کا ایک معاشرتی/ثقافتی پسمنظر ہوتا ہے۔ اسی پسمنظر کے حوالے سے ان کی تخلیق ہوتی ہے یا پھر یہ گل سٹر کر بدبو چھوڑنے لگتے ہیں۔ کمین کا لفظ جب تخلیق ہوا تو کام کرنے کے حوالے سے ہوا۔ لیکن طبقاتی سماج میں کام کے سماجی مقام نے اس لفظ میں وہ ساری اہانت اور پستی بھی شامل کر دی جو اس مقام سے جڑی تھی۔ "ہاوس وائف" بھی ایک ایسا ہی لفظ ہے۔
یہ نوّے کی دہائی کی بات ہے۔ میں نیشنل انسٹیٹیوٹ اف ماڈرن لینگوئیجز اسلام آباد میں چینی زبان کی سینئیر لیکچرر تھی۔ [اب یہ ادارہ یونیورسٹی بن چکا ہے]۔ اسی دہائی میں بوجوہ مجھے آسٹریلیا میں مستقل رہائش اختیار کرنا پڑِی۔ ایک بار جب واپس وطن گئی تو ایک پرانی کولیگ سے ملاقات ہوئی۔ حال احوال کے بعد محترمہ نے پوچھا: "وہاں کوئی کام بھی کرتی ہیں یا ہاوس وائف ہیں؟" ۔۔۔۔ یہ سوال مجھے آج بھی یاد ہے اپنی تمام تر پُر ازاری کے ساتھ، حالانکہ پوچھنے والی نے ایک عام سوال پوچھا تھا ۔۔۔ افسوس اس بات کا ہے کہ لفظ ہاوس وائف آج بھی اچھے خاصے پڑھے لکھے، پاکستانی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ، انگریزی کے اعتماد سے کھنکھناتے ہوئے سول سرونٹس، پروفیشنلز، فوجی افسران، سبھی، بلا تمیز زن و مرد، بغیر کسی شعور یا حساسیت کے استعمال کرتے ہیں۔
میں نے زندگی میں کبھی گھرداری کو کام نہیں سمجھا۔ حالانکہ یہ بھی کام ہے۔ اس کام کی اہمیت کا اندازہ مجھے آسٹریلیا میں قیام اور یہاں کی ضرورت کے تحت انگریزی کو ذرا گہرائی سے سمجھنے کی کوشش سے ہوا۔ جب یہاں ترجمہ اور ترجمانی کی فیلڈ میں داخل ہوئی تو الفاظ کے معنوی شیڈز کو سمجھنے میں زیادہ مدد ملی۔ ایک بار میں یہاں کے سوشل سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ میں کسی پاکستانی خاتون کی مترجم کی حیثیت سے کام کر رہی تھی۔ ڈیپارٹمنٹ کی آفیسر نے میری ترجمانی کے ذریعے ان محترمہ کی سرکاری وظیفہ لینے کی درخواست بھرنی تھی۔ ایک سوال کام کے حوالے سے تھا۔ درخواست گزار خاتون نے کہا " جی میں کوئی کام نہیں کرتی، ہاوس وائف ہوں"۔ خاتون افیسر کے چہرے پر یہ سن کر ہلکی سی معنی خیز مسکراہٹ آئی۔ اس نے فارم میں کام کے خانے میں لکھا۔ "ڈومیسٹک ورک" یعنی گھرداری کا کام۔ مغربی معاشرے میں تانیثیت کی تحریک اور جنسی امتیاز کے شعور نے جن الفاظ کو عملی طور پر اب "اہانت امیز الفاظ" کے خانے میں ڈال دیا ہے ان میں ہاوس وائف کا لفظ بھی شامل ہے۔ اگر کوئی عورت اپنے بچوں کی نگہداشت کے لیے نوکری نہیں کرتی تو اسے "فل ٹائم ماں" کا وظیفہ ملتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ نوکری کرے گی تو اپنے بچوں کو ڈے کئیر بھیجے گی۔ اب اگر وہ گھر میں رہ کر اپنے بچوں کی خود نگہداشت کر رہی ہے تو یہ ایک کام ہے اور اس کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
واپس آتی ہوں لفظ "ہاوس وائف" کی طرف۔ میں نے زندگی بھر یا تو تعلیم حاصل کی یا پھر کام کیا یعنی نوکری، یا فری لانس، یا کنٹریکٹ ورک بحثیت ماہرِ لسّان کیا، لکھنا میرا شوق اور گھریلو کام مجبوری رہی۔ ۔۔۔۔ ادھر چند برس ہوئے اپنی بیٹی نور کی پیدائش کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اب " فل ٹائم ماں'' کے ساتھ ساتھ فل ٹائم لکھنے پڑھنے کا کام کروں گی، ڈومیسٹک کام اس کے علاوہ۔ اس بات کو اب چھ برس ہو چکے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بہت تعلیم یافتہ، انگریزی زبان میں قابل، ادیب اور شاعر جو میری شخصیت کی پہلو داری کو جانتے بھی ہیں، نے ایک ملاقات میں میرے "ماہرِ لسان" کام کی بابت پوچھا تو میں نے اپنی موجودہ روٹین پر روشنی ڈالی۔ سن کر کہنے لگے: تو گویا اب آپ "ہاوس وائف" ہیں۔ میں ہکا بکا رہ گئی۔ یہی سوال اس کے چند ہی روز بعد میرے میاں کی بنگلہ دیشی کولیگ نے پوچھا اور پھر "ہاوس وائف" کا جوتا مارا تو میرے پاس جواب موجود تھا۔ " ہاوس وائف نہیں، فل ٹائم ماں" ۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اے دانشوران قوم، اہلِ علم، اہلِ قلم، ماہرینِ لسانیات، کلف زدہ اعلیٰ افسران، خیال رکھیے، علم کی تجدید کرتے رہیے، ورنہ پھپھوندی لگتے دیر نہیں لگتی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“