(Last Updated On: )
کیلنڈرپر جیسے ہی مارچ کا مہینہ نظر آیا ‘ محمد علی کی آنکھیں ٹکٹکی باندھ کر ۲۳ تاریخ کو دیکھنے لگیں۔ ۲۳ مارچ کی تاریخ لال رنگ میں تھی جبکہ باقی تمام تاریخیں کالے رنگ سے لکھی ہوئیں تھیں۔ ۲۳ تاریخ کے ساتھ یومِ پاکستان بھی لکھا ہوا تھا۔ محمد علی نے سوچا کہ ہر سال اس روز ہمیں چھٹی ہوتی ہے اور لال رنگ میں اس تاریخ کو لکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی کوئی خاص اہمیت ہے۔کیوں نہ اپنے بابا جان سے اس کی تفصیل پوچھی جائے۔ اُس نے اُس روز بابا جان کو کہا کہ آپ مجھے ۲۳ مارچ کی تاریخی حیثیت سے آگاہ کریں۔ بابا جان نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ یومِ پاکستان کے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔ بابا جان نے کہا کہ آپ اپنے چھوٹے بھائی احمد علی کو بھی بتائو اور دونوں بھائی میری مطالعے کے کمرہ (سٹڈی روم) میں آجائو۔ محمد علی نے اپنے چھوٹے بھائی احمد علی کو ساتھ لیا اور دونوں اپنے بابا جان کے مطالعہ والے کمرے میں چلے گئے جہاں اُن کے بابا جان پہلے سے موجود تھے اور اُن کے سامنے میز پر چند کتب پڑی ہوئی تھیں۔ دونوں
بچے اپنے بابا جان کے سامنے بیٹھ گئے۔
بابا جان نے بتایا کہ آپ دونوں کو یہ تو معلوم ہو گا کہ پاکستان کا خواب علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا اُنہوں نے ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے دوران اپنے صدارتی خطبہ میں ایک آزاد اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔ اُن کا یہ خطبہ ’خطبہ الٰہ آباد‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اِس خطبہ میں اُنھوں نے مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ اسلامی ریاست بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔ علامہ محمد اقبال کی اس تجویز کو ہندوستان کے مسلمانوں نے قبول کیا تھا اورآزاد اسلامی ریاست کے حصول کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی تھیں۔ اس کے بعد لندن میں ہونے والی تینوں گول میز کانفرنسوں میں بھی مسلم عمائدین نے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک الگ اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا۔ علامہ محمد اقبال دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے وہیں آپ کی ملاقات قائداعظم محمد علی جناح سے ہوئی اور آپ نے اُن کو قائل کیا کہ وہ ہندوستان آئیں اور مسلمانانِ ہند کی قیادت سنبھالیں۔ قائداعظم محمد علی جناح جب برطانیہ سے واپس ہندوستان تشریف لائے تو علامہ محمد اقبال نے اُنھیں خطوط لکھے جن میں ہندوستان کے سیاسی حالات و واقعات پر نہ صرف اُنھیں آگاہ کیا بلکہ اُن کو بے حد مفید مشورے بھی دئیے۔آپ ہی کی خواہش اور تجویز پر آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ
اجلاس لاہور میں منعقد ہوا ۔ آپ نے اپنے ایک خط مورخہ ۲۱ جون ۱۹۳۷ء میں قائداعظم محمد علی جناح کو لکھا :
’’پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ سے دلچسپی بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور لاہور میں مسلم
لیگ کے آئندہ اجلاس کا انعقاد پنجاب کے مسلمانوں میں ایک نئی سیاسی بیداری کا باعث ہو گا‘‘۔
اسی طرح آپ اپنے ایک اور خط میں مورخہ ۱۱ اگست ۱۹۳۷ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کو تحریر کرتے ہیں کہ :
’’پنجاب میں مسلم لیگ کے لیے جوش و خروش برابر بڑھ رہا ہے اور مجھے قوی اُمید ہے کہ لاہور میں اس کا اجلاس مسلم لیگ کی تاریخ میں ایک انقلاب آفریں باب اورعوام سے رابطہ استوار کرنے کے لیے
ایک اہم ذریعہ ثابت ہوگا‘‘۔
لیکن اس اجلاس سے قبل علامہ محمد اقبال ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو لاہور میں وفات پا گئے۔آپ ہی کی خواہش اور تجویز پر لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ۲۱ تا ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء کو منٹو پارک میں منعقد ہوا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں پورے ہندوستان سے مسلمان لاہور میں اکٹھے ہوئے اور ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ ء کو شیر بنگال مولوی اے ۔ کے فضل الحق نے الگ اسلامی ریاست کے لیے قرارداد پیش کی جسے کثرتِ رائے سے منظور کر لیاگیا۔ یہ قرارداد’’قراردادِ لاہور‘‘ تھی جسے ہندوئوں نے خودہی ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ یہ ایک تاریخ ساز دن تھا جب تمام مسلمان ایک علیحدہ آزاد اسلامی ریاست کے لیے متفق تھے۔ اس تاریخی دن کے بعد آزاد اسلامی ریاست کے حصول کے لیے تحریکِ پاکستان میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا اور آزاد اسلامی ریاست کا مطالبہ گھر گھر پہنچا۔اس لیے اس دن یعنی ۲۳ مارچ کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے کیونکہ یہ ایک تاریخ ساز دن تھا جب ہندوستان کے تمام مسلمان مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے
تھے اور سب یہی مطالبہ اور نعرہ لگا رہے تھے کہ:
’’لے کے رہیں گے پاکستان
بن کر رہے گا پاکستان‘‘
قائداعظم محمد علی جناح کی کرشماتی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے انتھک محنت کے بعد بالآخر ۱۴ اور ۱۵اگست ۱۹۴۷ء کی
درمیانی شب پاکستان حاصل کر لیا۔
محمد علی: جس جگہ پر یہ قرارداد منظور ہوئی تھی وہاں یادگار کے طور پر مینارِ پاکستان بنایا گیا۔
بابا جان: آپ ٹھیک کہہ رہے ہو ۔ یہ ایک وسیع وعریض میدان تھا جس کا نام منٹو پارک تھا۔ جس جگہ پر قائداعظم محمد علی جناح کے لیے سٹیج تیار کیا گیاتھاٹھیک اُسی جگہ پر مینارِ پاکستان کی تعمیر ہوئی۔ اس جگہ کی نشاندہی میاں امیر الدین نے کی تھی ‘ جو اُس جلسہ میں خود بھی موجود تھے۔
اب اس جگہ کو گریٹر اقبال پارک کا نام دیا گیا ہے۔
احمد علی: ہمیں کچھ مینارِ پاکستان کے بارے میں بھی بتائیے؟
بابا جان: جب پاکستان ۱۹۴۷ء میں قائم ہوگیا تو کچھ عرصہ بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ جہاں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تھی وہاں ایک یادگار تعمیر کی جائے ۔ چنانچہ ۲۳ مارچ ۱۹۶۰ء کو اس کی تعمیر شروع ہوئی اور اس کی تکمیل ۲۱ اکتوبر ۱۹۶۸ء کو ہوئی۔ مینارِ پاکستان کو یادگارِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے جس کا نقشہ ترکی کے نصرالدین مرات خان نے تیار کیا تھا اور یہ ۷۵ لاکھ میں تعمیر ہوا تھا۔ مینارِ پاکستان کی بلندی ۱۹۶ فٹ ہے اور بلندی تک پہنچنے کے لیے ۳۲۴ سیڑھیاں ہیں۔ مینار کا نچلا حصہ ایک پھول کی مشابہت رکھتا ہے جبکہ اس کے چبوترے پر پانچ کونوں والا ستارہ اور دو چاند بنے ہوئے ہیں۔ اس کی دیواروں پر قرآن مجید کی آیات‘ قراردادِ دہلی کا اقتباس‘ قائداعظم محمد علی جناح کے اقوال‘ علامہ محمد اقبال کی دو نظمیں’’ صبح‘‘ اور ’’لاالٰہ الااللہ‘‘جو ضربِ کلیم میں ہیں‘ قومی ترانہ اور پاکستان کی آزادی کی مختصر تاریخ کندہ ہے۔ جبکہ قراردادِ پاکستان کا مکمل متن اُردو اور بنگالی زبانوں میں دیواروں پر کندہ کیا گیا ہے۔ اب مینارِ پاکستان کے احاطہ میں خوبصورت فوارے‘ جھیل اور باغیچے تعمیر ہوئے ہیںجن سے اس کے حسن میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا مزار بھی مینارِ پاکستان کے احاطہ
میں ہے۔ مینارِ پاکستان محض سنگ و خشت کا بناہوا چبوترہ ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان کی قومی تاریخ کا روشن سنگِ میل ہے۔
باباجان نے بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دن ہم سے تجدیدوفا کرواتا ہے کہ ہم آپس میں تمام اختلافات بُھلا کر ایک قوم بنیں۔ ۱۹۴۷ء میں قوم ایک تھی جس کو ایک وطن کی ضرورت تھی اب ہمارے پاس وطن ہے لیکن ہماری قوم مختلف لسانی‘ صوبائی‘ مذہبی اور سیاسی گروہ بندیوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ یومِ پاکستان ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم آپس میں اتفاق و اتحاد کے ساتھ رہیں اور پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کریں ۔ ان شاء اللہ وہ وقت دُور نہیں جب ہم پاکستان کو دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں دیکھیں گے اور یہاں کے لوگ ایک مرتبہ پھر ایک پرچم تلے جمع ہو کر اس کو حقیقی معنوں میں ایک آزاد اسلامی ریاست بنائیں گے۔ یہی پیغام ہمیں علامہ محمد اقبال کے
اس شعر سے بھی ملتا ہے:
اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا