پاکستان میں عظیم ثقافتی انقلاب کا آغاز ہو چکا ہے۔ اگر ابھی تک آپ اس سے لاعلم ہیں تو افسوس ہی کیا جا سکتا ہے!
تاریخ میں اب تک جس عظیم ثقافتی انقلاب کا ذکر کیا جاتا ہے وہ چین میں مائوزے تنگ کی قیادت میں 1966ء میں برپا ہوا تھا۔ پارٹی کے کروڑوں کارکن ’’ریڈ گارڈز‘‘ کے نام سے جتھوں کی شکل میں پورے ملک میں پھیل گئے تھے۔ ملک میں ریلوے ا ور ٹرکوں بسوں کا پورا نظام تہس نہس ہو کر رہ گیا تھا کیونکہ ذرائع آمدورفت سب ریڈ گارڈز کو اطراف و اکناف میں پہنچانے کے لیے وقف کر دیے گئے تھے۔ فیکٹریوں کی پیداوار کم ہو گئی کیونکہ جن انقلابی کمیٹیوں کے سربراہوں اور سیاسی ورکروں نے صنعت کا انتظام سنبھال لیا تھا‘ انہیں صنعت کاری کی الف بے سے بھی واقفیت نہیں تھی۔ دو سال بعد جب ثقافتی انقلاب کا نشہ اترا تو معلوم ہوا کہ صنعتی پیداوار چودہ سے بیس فی صد تک کم ہو چکی ہے۔
چین کے ثقافتی انقلاب کی تفصیل آج کا موضوع نہیں۔ اس کے صرف ایک خاص پہلو کا تذکرہ مقصود ہے۔ ثقافتی انقلاب کے دوران بڑے بڑے سائنس دانوں‘ انجینئروں اور ٹیکنالوجی کے پروفیسروں کو جبراً دورافتادہ دیہاتی علاقوں میں بھیج دیا گیا تاکہ وہ کھیتوں‘ جنگلوں‘ صحرائوں اور کوہستانوں میں کسانوں اور محنت کشوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ لیبارٹریاں بند ہو گئیں۔ تحقیقاتی ادارے مقفل کر دیے گئے۔ بہت سے علمی اور سائنسی مراکز پر ’’انقلابیوں‘‘ نے قبضہ کر لیا۔
وطن عزیز میں بھی عظیم ثقافتی انقلاب کی ابتدا ہو چکی ہے۔ اس کی بسم اللہ ملک میں زرعی تحقیق کے سب سے بڑے اور مؤقر ادارے ’’پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل‘‘ سے کی جا رہی ہے۔ زرعی تحقیق کے اس ادارے نے‘ شہرت اور تشہیر سے بے نیاز ہو کر قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اس نے نہری علاقوں کے لیے الگ اور بارانی علاقوں کے لیے الگ‘ گندم کے بہترین بیج دریافت کیے۔ سورج مکھی‘ کنولا‘ مکی‘ باجرہ اور مختلف دالوں کی پیداوار بڑھانے کے کامیاب تجربے کیے۔ حیاتیاتی انجینئرنگ میں
اور پودوں کی حفاظت کے شعبے میں بہت کام ہوا۔ مویشیوں کی افزائش اور علاج کے شعبے میں اس ادارے نے خدمات سرانجام دیں۔ جو منصوبے اس وقت زیر تکمیل اور زیر غور ہیں‘ ان کا سرسری ذکر بھی پسماندگی کے چاروں طرف چھائے گہرے اندھیرے میں امید کی کرنیں دکھائی دیتا ہے۔ زیتون کی کاشت کاری اور زیتون کا تیل نکالنے والی مشینوں پر کام ہو رہا ہے۔ شمسی توانائی کے ذریعے کھارے پانی کو نوشیدنی پانی میں تبدیل کیے جانے پر تحقیق جاری ہے۔ مویشیوں کے لیے زیادہ چارہ کس طرح اگایا جائے‘ ٹِشو کلچر کے ذریعے کیلے کو زیادہ بہتر کیسے کیا جائے‘ فاٹا کے علاقوں میں انڈوں اور مرغیوں کی پیداوار میں اضافہ کیسے کیا جائے‘ مچھلیوں‘ مویشیوں‘ بالخصوص بھینسوں کی کوالٹی بہتر سے بہترین کیسے ہوگی‘ کھاد کے میدان میں ملکی زراعت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کن صورتوں میں ہو سکتی ہے۔ یہ ان بہت سے منصوبوں میں سے صرف چند ہیں جن پر کام ہو رہا ہے!
لیکن نئے اور عظیم ثقافتی انقلاب میں ان سارے کاموں کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس عظیم قومی تحقیقی ادارے سے اس کا کل اثاثہ‘ یعنی ساڑھے بارہ سو ایکڑ زمین لے لی جائے اور دارالحکومت کا ایک مجاز ادارہ یہاں ایک رہائشی سوسائٹی تعمیر کرے!
دارالحکومت کے اس مجاز ادارے کا ذکر آئے تو بدن میں جھرجھری سی اٹھتی ہیع
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا!
پرسوں ہی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے روبرو‘ اس ادارے نے خود بتایا ہے کہ نیلام شدہ پلاٹوں پر مالکان بدستور قابض ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے رونا رویا کہ ادارے میں کرپشن عام ہے۔ اس کا اپنا عملہ لکڑی چوری اور پٹرول کی غیر قانونی فروخت میں ملوث ہے۔ ادارے کے افسر خود ہی زمینوں کی ’’تجارت‘‘ کر رہے ہیں! ٹینکر مافیا راج کر رہا ہے۔ جس ادارے میں ہزاروں گھوسٹ ملازمین گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں‘ جس کے زیر انتظام کسی نئے سیکٹر کی آبادکاری میں پندرہ بیس سال اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ عرصہ لگتا ہے‘ جس کی ناک کے نیچے دارالحکومت تعفن اور گندگی کا گڑھ بن چکا ہے‘ وہ ادارہ ایگریکلچرل ریسرچ کونسل سے ساڑھے بارہ سو ایکڑ لے کر اس پر ہائوسنگ سکیم بنائے گا! یہ ’’منصوبہ‘‘ کافی حد تک آگے بڑھ چکا ہے۔ ثبوت یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی نے دو دن پہلے جس اجلاس میں اس بکھیڑے کو نمٹانا تھا‘ وہ اجلاس ’’نامعلوم‘‘ وجوہ کی بنا پر ’’ملتوی‘‘ کر دیا گیا۔ کائنات کی ساخت پر تدبر کرنے والے مبصرین کا اندازہ یہ ہے کہ لینڈ مافیا نے اپنے لمبے ہاتھ استعمال کر کے یہ اجلاس ملتوی کرایا ہوگا۔
ثقافتی انقلاب کے اس زبردست آغاز کے بعد‘ آنے والے مراحل میں کیا کچھ ہوگا؟ اس کا تصور کرنا مشکل نہیں! چونکہ تحقیق کی نسبت ’’تعمیر‘‘ کی اہمیت کہیں زیادہ ہے اس لیے گمان غالب یہ ہے کہ زرعی تحقیقاتی ادارے کے نامور سائنس دان میٹرو بسوں‘ شاہراہوں‘ انڈر پاسوں اور اوور ہیڈ پلوں کی تعمیر میں مزدوروں کا ہاتھ بٹائیں گے۔
اگلا قرعۂ فال قائداعظم یونیورسٹی اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نام نکلے گا۔ ان یونیورسٹیوں کے ’’قبضے‘‘ سے سینکڑوں ایکڑ اراضی ’’واگزار‘‘ کرا کر رہائشی سوسائٹیوں کے لیے وقف کردی جائے گی۔ پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسر اور سائنس دان اور پی ایچ ڈی کرنے والے سکالر ان تعمیراتی منصوبوں میں کھپا دیے جائیں گے۔ چونکہ وہ راج اور مستری کا ٹیکنیکل کام نہیں کر سکتے اس لیے مستریوں کے ماتحت عام لیبر کے فرائض سرانجام دیں گے۔
ہائوسنگ سوسائٹیاں بنانے کے لیے کئی اور مناسب گوشے دارالحکومت میں خفیہ پڑے ہیں۔ انہیں بے نقاب کر کے ترقیاتی ادارے کا رُخ ان کی طرف کرنا ہوگا۔ آب پارہ کے سامنے کھیلوں کے سٹیڈیم نے بہت سی جگہ گھیر رکھی ہے۔ کھیل کود اور سیر کرنے میں وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ بغل میں یاسمین گارڈن کی سیرگاہ ہے۔ ساتھ گَن کلب ہے۔ اس کے پاس بھی اچھا خاصا رقبہ ہے۔ ذرا آگے چلیے‘ اسلام آباد کلب نے گالف کے نام پر لمبی چوڑی ’’جائداد‘‘ ہتھیا رکھی ہے۔ سرپھرے قسم کے لوگ صبح چھ بجے ہی گالف کھیلنے پہنچ جاتے ہیں۔ چشمِ تصور سے دیکھیے‘ یہاں اگر محلات تعمیر ہو جائیں‘ ہر طرف قیمتی گیٹ ہوں‘ پورچوں میں گراں بہا گاڑیاں کھڑی ہوں‘ بیگمات شاپنگ کر کے گھروں کو لوٹ رہی ہوں‘ باورچی خانوں سے پکوانوں کی مہک آ رہی ہو تو سب کچھ کتنا نظرنواز اور دلکش لگے گا! یہ بات کسی کو بُری لگے تو لگتی رہے‘ قوم کی فلاح ریسرچ کے اداروں‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوں میں نہیں ہے بلکہ ہائوسنگ سوسائٹیوں‘ پُلوں اور سڑکوں میں ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر تمام تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے زمینیں ’’آزاد‘‘ کرا لی جائیں۔ سینکڑوں ہزاروں مکان بننے سے عوام کو روزگار ملے گا۔ پروفیسر اور سائنس دان حضرات کو بھی لگ پتہ جائے گا کہ سر پر گارے‘ بجری اور سیمنٹ کی ٹوکری اٹھا کر دیواریں اٹھانا اور چھتیں ڈالنا کتنا مشکل کام ہے!
سال یہی ہے جو رواں ہے یعنی 2015ء۔ فروری کا ایک ٹھٹھرتا‘ اداس دن تھا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس ہو رہا تھا! مسلم لیگ ن کے ایم این اے صدارت کر رہے تھے۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے سب سے بڑے بیوروکریٹ یعنی وزارت کے وفاقی سیکرٹری نے عوامی نمائندوں کو کیا بتایا؟ سُنیے:
’’مجھے یہ اعتراف کر کے دُکھ ہو رہا ہے کہ مختص کی گئی اور پھر دی گئی رقوم‘ گزشتہ سال کی نسبت‘ بہت کم ہو گئی ہیں؛ چنانچہ تحقیقی اور ترقیاتی کام بھی اسی مناسبت سے پیچھے رہ گئے ہیں‘‘۔ پھر سیکرٹری نے طاقتور نمائندوں کو جو کچھ بتایا‘ کسی اور ملک میں بتایا جاتا تو حشر برپا ہو جاتا۔ ’’تحقیق اور ترقی
(R&D)
موجودہ حکومت کی ترجیح ہی نہیں ہے۔ تبھی تو قومی آمدنی کا ایک فیصد سے بھی کم‘ ان کاموں کے لیے مختص کیا جاتا ہے‘‘۔
سیکرٹری نے آگے چل کر کہا:
’’صرف اعشاریہ پانچ فیصد۔ یعنی سو روپوں میں سے آٹھ آنے یا پچاس پیسے… ریسرچ کے لیے ملتے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل‘ کوریا اور جاپان جیسے ممالک سب سے زیادہ سرمایہ کاری ہی اس میدان میں کر رہے ہیں‘‘۔
وزارت کے سیکرٹری نے جو اعدادو شمار دیے‘ وہ عبرتناک تھے۔ رواں مالی سال میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت نے ایک ارب سے زیادہ رقم مانگی جب کہ صرف پانچ سو ملین کے لگ بھگ دی گئی۔
اسی اجلاس میں سائنسدانوں نے کمیٹی کو بتایا کہ اگر انہیں کام کرنے دیا جائے تو وہ شمسی توانائی سے ایک سو پچاس گنا زیادہ اور آبی وسائل سے پانچ گنا زیادہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ بجٹ کم ہونے سے جن تحقیقی اور ترقیاتی منصوبوں کو نقصان پہنچ رہا ہے ان میں سے چند یہ تھے۔ دوسرے ملکوں کے تعاون سے ذیابیطس کا کنٹرول‘ ٹیکنالوجی پارک کا قیام‘ پینے کے صاف پانی کی مقدار میں اضافہ‘ ویکسی نیشن کے شعبے میں نئی دریافتوں کے لیے نئی تجربہ گاہوں کا قیام۔
وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے ان انکشافات کو سنہری حروف میں لکھوا کر‘ فریم کروا کر‘ شمال میں مینارِ پاکستان پر اور جنوب میں مزار قائداعظم پر آویزاں ہونا چاہیے اور ثقافتی انقلاب کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے تحقیقی اور تعلیمی اداروں سے مزید اراضی حاصل کرنی چاہیے کہ ع
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔