مہنگائی کا شور تو ہم بچپن سے سنتے چلے آئے ہیں، جن زمانوں کو آج ہم سستا یا اچھا زمانہ کہہ کر یاد کرتے ہیں اس زمانے میں بھی مہنگائی کی شکایت کی جاتی تھی لیکن روزمرہ کے استعمال کی اشیاء عام لوگوں کی استطاعت میں تھیں۔ اگر لوگوں کی آمدنی کم تھی تو اخراجات بھی کم تھے، زمانہ بھی سادہ تھا اور لوگ بھی سادگی سے گزر بسر کر لیتے تھے، گھر میں ایک ہی کمانے والا ہوتا تھا لیکن پھر بھی اچھے طریقے سے گزارہ ہو جاتا تھا کیونکہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلا بھی لئے جاتے تھے اور سمیٹ بھی لئے جاتے تھے۔ اب تو مہنگائی کی وجہ سے چادر ہی تار تار ہو چکی ہے اس لئے پاؤں پھیلانے یا سمیٹنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس ہوشربا مہنگائی نے چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے والا محاورہ بھی غلط ثابت کردیا ہے۔
ایک طرف جہاں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے تو دوسری طرف وقت کے ساتھ بہت سی ایسی آسائشیں جو گزرے وقت میں امیر کبیر لوگ ہی افورڈ کر سکتے تھے لیکن اب ان میں سے بہت سی چیزیں عام آدمی بھی استعمال کر رہا ہے۔ بجلی کے استعمال کو ہی لے لیں ابھی دو دہائیاں پہلے تک ائرکنڈیشنر اس طرح عام لوگوں کے گھروں میں موجود نہیں تھا، سخت گرمیوں میں بھی پنکھوں یا زیادہ سے زیادہ ائرکولر کا استعمال کیا جاتا تھا، اسی طرح فریج اور ٹی وی بھی متوسط طبقے کے لوگوں کے گھروں تک ہی پہنچا تھا لیکن اب یہ ساری چیزیں ہر گھر میں موجود ہیں۔ اسی طرح سواری کے لئے پہلے عام آدمی سائکل استعمال کیا کرتا تھا جبکہ بابو لوگ موٹرسائکل اور سکوٹر استعمال کیا کرتے تھے۔ کار صرف امیر کبیر لوگ استعمال کیا کرتے تھے لیکن اب سائکل والے موٹر سائکل پر اور موٹر سائکل والے کار پر منتقل ہو چکے ہیں۔ ان سب چیزوں کی عام آدمی تک پہنچ تو ہو گئی ہے لیکن موجودہ دور کی بلند ترین مہنگائی نے عام آدمی کے لئے ان چیزوں کے استعمال کو برقرار رکھنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا دیا ہے۔
کہنے کو مہنگائی کا یہ طوفان اس وقت ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ اگر پاکستان میں لوگ بجلی کے بلوں اور پٹرول کی قیمتوں کو کوستے نظر آتے ہیں تو باہر کے ممالک میں لوگ قرضے پر لیے گئے گھروں کی قسطوں میں بینکوں کی جانب سے ہر ماہ بڑھائے جانے والی شرح سود کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ پٹرول کی قیمت اس وقت ساری دنیا میں ہی اضافے کی جانب گامزن ہے لیکن ان ملکوں اور پاکستان کا موازنہ کرنا بہرحال زیادتی ہے کیونکہ ان ملکوں میں مہنگائی کے باوجود لوگوں کی قوت خرید بہرحال قائم ہے۔ لوگوں کے پاس روزگار بھی ہے اور حکومت کی جانب سے دی جانے والی سوشل سیکیورٹی بھی موجود ہے جبکہ پاکستان میں لوگوں کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے۔ لوگوں کی ماہانہ آمدنی سے بھی زیادہ جب بجلی کا بل آ جائے گا تو گھر کی چیزیں بیچنے یا خودکشی کے علاوہ عام آدمی کے پاس کیا حل باقی بچتا ہے۔ بہت سارے لوگ تین وقت سے دو وقت کی روٹی پر آچکے ہیں، جو دو وقت روٹی کھا لیتے تھے وہ ایک وقت کی روٹی تک پہنچ چکے ہیں اور جن کو پہلے ہی ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا تھا ان کے گھروں میں فاقوں تک نوبت پہنچ چکی ہے۔
ہر پندرہ دن بعد پٹرول کی قیمت میں اضافہ اس وقت پاکستانی عوام کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے نے ان لوگوں کی بھی چیخیں نکلوا دی ہیں جن پر ابھی تک مہنگائی نے اتنا اثر نہیں کیا تھا۔ اب تو شائد ایلیٹ کلاس یا وہ لوگ جن کے پاس جائز یا ناجائز ذرائع سے کمائی جانے والی بے حساب دولت ہے صرف وہ لوگ ہی پاکستان میں رہ سکتے ہیں باقی عوام کی زندگی تو مہنگائی کے ہاتھوں اجیرن ہو چکی ہے۔ لوگ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اور گھروں کی چیزیں بیچ کر کب تک گزارہ کریں گے، اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے اور اس کا حل بھی فی الحال کسی کے پاس نظر نہیں آرہا۔ مہنگائی کی شرح جس سطح پر پہنچ چکی ہے اسے صرف ایک چنگاری کی ضرورت ہے اور بہت سی فتنہ پسند جماعتیں اسے ہوا دینے کے لئے تیار بیٹھی ہیں۔
مہنگائی سے ستائے عوام کے لئے اس وقت بچوں کا پیٹ پالنا تو مشکل ہو ہی چکا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور معیشت بحال کرنے کے نام پر غریب عوام کے تو خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا گیا ہے لیکن اشرافیہ اپنی عیاشیوں میں ذرا سی بھی کمی کرنے کو تیار نہیں۔ غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے اشرافیہ کو ملنے والے پروٹوکول، ہزاروں لیٹر مفت پٹرول، بجلی کے مفت ہزاروں یونٹ، لاکھوں میں تنخواہیں، مفت پلاٹ اور بڑی بڑی گاڑیاں اب عوام کے لئے ان کا خرچہ برداشت کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کا تو پتہ نہیں کیونکہ تحریک انصاف نے بھی سٹیٹس کو توڑنے کا وعدہ کیا تھا لیکن حکومت ملنے پر دوسروں سے بھی زیادہ سٹیٹس کو کا حصہ بن گئے لیکن پیپلزپارٹی جو خود کو بجا طور پر غریب عوام کی پارٹی کہتی ہے اور روٹی کپڑا اور مکان اس کے منشور کا حصہ بھی ہے اسے اپنے منشور میں یہ وعدہ شامل کر دینا چاہئیے کہ اگر پیپلزپارٹی کو حکومت ملتی ہے تو پیپلزپارٹی سٹیٹس کو توڑ دے گی۔ وزرا اور بیوروکریسی کے بڑے بڑے پروٹوکول ختم کر دئیے جائیں گے۔ سادگی اپنائی جائے گی۔ اگر حکومت عوام سے پیٹ پر دو پتھر باندھنے کی توقع کرتی ہے تو حکومت کو کم از کم ایک پتھر اپنے پیٹ پر بھی باندھنا چاہئیے۔ اور اس پر عمل بھی ہونا چاہئیے۔ جو جماعت بھی یہ کام کرے گی عوام اس جماعت کو سر آنکھوں پر بٹھائے گی کیونکہ مہنگائی اور اشرافیہ کی عیاشیوں کا خرچہ اٹھا اٹھا کر عوام کی اب بس ہو چکی ہے۔
مہنگائی کا ذکر تو ہر سیاسی جماعت کرتی ہے لیکن ہر بندہ مہنگائی کا الزام دوسرے پر لگا دیتا ہے، ہر حکومت پہلے والی حکومت پرالزام لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتی ہے لیکن کچھ تو غلط ہوا ہے اس ملک میں جس کی وجہ سے معیشت کا خانہ خراب ہوا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں مہنگائی کا الزام تو ایک دوسرے کی حکومتوں پر لگاتی ہیں لیکن اس ہوشربا مہنگائی کا حل کوئی نہیں بتا رہا کہ اگر ان سیاسی جماعتوں کو دوبارہ حکومت مل جائے تو وہ ایسا کیا کریں گے کہ عام آدمی کو مہنگائی کے عفریت سے کچھ نجات مل سکے۔
ایسے ملک میں جہاں لوگ ٹیکس دینے کو تیار نہ ہوں، نہ کاروباری لوگ ٹیکس دیں نہ بڑے بڑے زمیندار ٹیکس دینے پر تیار ہوں، عام کسان تو خیر مہنگائی کے ہاتھوں پہلے ہی آدھ موا ہو چکا ہے وہ کچھ کمائے گا قرضے کے بوجھ سے نکلے گا تو ٹیکس دینے کے قابل ہو گا، جہاں معیشت کیش پر چل رہی ہو، سمگلنگ پر کوئی روک ٹوک نہ ہو بلکہ سمگلنگ کو کاروبار سمجھ لیا گیا ہو، جہاں شہری کے پاس اختیار ہو کہ وہ خود کو “نان فائلر” کہہ سکے، جہاں سرکاری ادارے اربوں روپے کے خسارے میں ہوں، جہاں اشرافیہ کی عیاشیوں کا خرچہ غریب عوام اٹھانے پر مجبور ہوں، وہاں سب سے پہلے تو اپنی سمت اور نیت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس کو ان تلخ حقائق کا علم نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی ایسی جماعت ہے جو ان بنیادی خامیوں یا کمزوریوں کا مناسب اور مستقل حل نکالنے پر تیار ہے۔ یہ تمام خامیاں کوئی ایک دن میں پیدا نہیں ہوئیں یہ خامیاں ہمارے سسٹم کی ہمیشہ سے کمزوری رہی ہیں لیکن شائد ہی کسی سیاسی جماعت نے ان خامیوں پر قابو پانے کے لئے پوری ریاستی طاقت اور نیک نیت سے کوشش کی ہو۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ مہنگائی کم کرنے اور بجٹ کا خسارہ کم کرنے کے لئے معیشت کی بنیادی خامیوں اور اشرافیہ کی عیاشیوں کو ختم کرنے اور مافیاز کو کنٹرول کرنے کی بجائے ہر قربانی غریب عوام سے مانگی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غریب عوام قربانیاں دیتے دیتے اتنا تھک چکے ہیں کہ سچ پوچھیں تو اب ان غریب عوام کی مزید قربانی جائز بھی نہیں رہی۔ ہمارے ہاں عوام کے جان و مال کے تخفظ سے تو ریاست پہلے ہی ہاتھ اٹھا چکی ہے اور اب عوام کے منہ سے آخری لقمہ بھی چھینا جا رہا ہے۔ یہ اب عوام کے صبر کی حد ہے کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ عوام کی تو چمڑی بھی اتار لی جائے اور اشرافیہ ہر مہینے اربوں روپے کی مفت بجلی اور پٹرول ڈکار جائے۔ ارباب اختیار و اقتدار کو سوچنا ہو گا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ وقت واقعی آن پہنچے جب مہنگائی سے ستائی ہوئی عوام بپھر جائےاور واقعی تحت اچھال دے اور تاج گرا دے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...