ہوشمند دیوانے
کسی شاعر نے وطن کے لیے گیت (ترانہ) لکھا تھا جس کا ایک مصرع یوں تھا:
زندگی جوش میں ہے ہوش ہے دیوانوں میں
شاعر موصوف نے سوچا تک نہ ہوگا کہ یہ مصرع ان لوگوں کے بارے میں بھی درست ہوگا جو اکیسویں صدی کے آغاز میں عالمی دہشت گردوں کے نام سے جانے جائیں گے۔ کل لندن میں ہوئے واقعے پر ہی غور کر لیجیے کہ مانچسٹر میں دہشت گردی کے ہولناک واقعے کے بعد برطانیہ کے بڑے شہروں میں پولیس کے علاوہ فوجی بھی گشت پر مامور کیے گئے تھے لیکن برطانیہ میں لوگوں کو دہشت زدہ کرنے والے افراد اس اقدام کو خاطر میں نہ لائے۔ تین افراد جنہوں نے خود کش دھماکہ کرنے والوں کی سی جیکٹیں پہنی ہوئی تھیں، جن کے بارے میں بعد میں پولیس نے بتایا کہ نقلی تھیں، ایک وین میں سوار ہوئے، پہلے پیدل چلنے والوں پر تیز رفتار ڈگمگانے کے انداز میں چلائی گئی وین چڑھائی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ زد میں آئیں۔ پھر وہ تینوں گاڑی سے اترے کیونکہ گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھ کر رک گئی تھی اور انہوں نے لوگوں پر خنجروں سے وار کرنے شروع کر دیے۔ جعلی خود کش جیکٹوں کی وجہ سے جری سے جری شخص بھی ان کے ہاتھوں سے خنجر چھیننے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ بھگدڑ مچ گئی۔ پولیس کے مسلح دستے پہنچے۔ جب تک ان تین افراد کو گولیاں مار کر ہلاک نہیں کر دیا گیا تب تک ان کی گاڑی کی لپیٹ میں آ کر اور ان کے خنجروں کے وار سہہ کر چھ افراد لقمہ اجل بن چکے تھے اور پچاس کے قریب زخمی، جن میں شدید زخمیوں کی تعداد کچھ کم نہیں۔
کیا ان تین افراد اور ایسے دوسرے بہت سوں کے لیے " زندگی جوش میں ہے، ہوش ہے دیوانوں میں" سچ نہیں ہے؟ یہ لوگ مرنے کی خاطر آتے ہیں اور عام لوگوں کو مارتے ہیں۔ یورپی ملکوں میں اس نوع کے باہوش دیوانے مار کر اور مر کر دو کام کر جاتے ہیں۔ ایک ان ملکوں کی سفید فام آبادی ڈرا جاتے ہیں، ان ملکوں میں آئے اور آئندہ آنے کا ارادہ کرنے والے سیاحوں کو متنبہ کر جاتے ہیں لیکن اہم کام دوسرا ہے یعنی کہ وہ یورپ میں بسے اپنے ہم مذہبوں کے لیے زندگی مشکل کرنے کی سعی کر جاتے ہیں۔ ان ملکوں کی حکومتیں جتنی سیکیولر کیوں نہ ہوں، لوگ کتنے ہی صابر کیوں نہ ہوں لیکن مقامی سفید فام آبادی میں ایک بڑی تعداد میں لوگ خاص طور پر نوجوان ایسے ہوتے ہیں جو عقل کی بجائے جذبات کے تحت ہوتے ہیں، جنہیں بس بھڑکانا کافی ہوتا ہے۔ اور تو اور حکومتی ادارے بھی ایک خاص مذہب سے وابستہ ناموں والوں کو مشکوک خیال کرنے لگ جاتے ہیں۔ میرے ساتھ ہو چکا ہے کہ دہشت گردی کے عروج کے زمانے میں دو تین بار مجھے میرے ہی شہر ماسکو کے ہوائی اڈوں پر امیگریشن والوں نے دس پندرہ منٹ تک روکے رکھا تاوقتیکہ اوپر کہیں سے میرے پاسپورٹ کی کلیرنس نہیں آ گئی کیونکہ پاسپورٹ پر میرا نام "مخامید" ہے۔ میں ایک بار تو چیخا بھی کہ اگر میرا نام سرگئی یا آندرے ہوتا تو مجھے آپ لوگ کبھی نہ روکتے مگر وہ خاموش رہے کیونکہ وہ اپنا قانونی کام کر رہے تھے۔ یہ ایک چھوٹی سی پریشانی ہے جو دہشت گردی کرنے والے پیدا کر جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہوتا کہ جس مذہب کے نام پر دہشت گرد دہشت گردی کرتے ہوں، اس مذہب سے وابستہ لوگوں اور اس مذہب کی عبادت گاہوں پر مقامی شدت پسند حملے کرنے لگیں۔ یہی دہشت گردوں کا مقصد ہے کہ مغربی ملکوں میں بسنے والے مشرق سے گئے اپنے ہم مذہب لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مسائل کھڑے کر دیں تاکہ وہاں بسنے والے ان کے ہم مذہب لوگ خود مغرب کے خلاف بولنے لگ جائیں، یا لوٹ جائیں اور اپنے ملکوں میں جا کر ان ملکوں کے خلاف زہر اگلیں یا دہشت گردوں کی حامی تنظیموں کے ساتھی بن جائیں وغیرہ وغیرہ۔ بظاہر تو یہ مشکل دکھائی دیتا ہے لیکن دہشت گرد جو ظاہر ہے خود کو دہشت گرد نہیں کہتے بلکہ حق کی خاطر جنگ کرنے والے یعنی جہادی خیال کرتے ہیں، یقینا" سمجھتے ہیں کہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو نگے۔
دیکھا جائے تو وہ پہلے ہی اپنے کئی مقاصد میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو مجبور کر دیا کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں۔ وہ نہ کسی خاص ملک سے ہیں، نہ ان کا کوئی ایک ٹھکانہ ہے، نہ ان کا ڈھانچہ واضح ہے لیکن دنیا بھر میں اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ایک ایسی مجتمع مگر بکھری ہوئی طاقت جو کسی بھی وقت کسی پر بھی آفت بن کر ٹوٹ سکتی ہے۔ چاہے سوچ کو راجع بہ ہیجان کرنے والی ادویہ لے کر وہ ایسے کام کرتے ہوں یا خالصتا" کسی مذہبی جذبے کے تحت، کر گذرتے ہیں۔ جو لوگ موت کو سہیلی سمجھتے ہوں ان سے لڑنا کوئی آسان نہیں ہوتا۔ طاقتور سے طاقتور فوج کے مدمقابل کھڑا ہو جا سکتا ہے کیونکہ اس فوج کے انداز، اطوار اور لائحہ عمل تا حتٰی کسی حد تک اس فوج کی حکمت عملی سے بھی واقف ہوا جا سکتا ہے لیکن دہشت گردوں کے ان جتھوں یا تنہا دہشت گردوں سے متعلق معلومات لینا اور انہیں بے دست و پا کرنا کوئی آسان نہیں ہے۔
ناممکن تو خیر کچھ بھی نہیں ہوا کرتا۔ البتہ یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک مخصوص سوچ کا پرچار مسلسل جاری ہے۔ اس سوچ کی نفی کیونکر کی جا سکتی ہے، سب جانتے ہیں مگر اس کے لیے وسائل، اس کی نفی کی خاطر مرتب کی گئی حکمت عملی، اس پر عمل درآمد کے لیے لائحہ عمل سب کچھ مشترکہ ہونا چاہیے مگر یہاں تو ملکوں کے آپس کے قضیے تمام نہیں ہوتے۔ ایک دوسرے پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں، جن میں سے کچھ کسی حد تک درست بھی ہوتے ہیں کیونکہ ملکوں ملکوں کے مفادات مشترکہ نہیں جدا جدا ہیں۔ ساری دنیا روس اور چین کو "غیر" سمجھتی ہے، جن ملکوں سے دہشت گردی کو فروغ دینے والی سوچ پھیلتی ہے اور جن ملکوں کے لوگوں کے بارے میں شک ہے کہ وہ دہشت گردی کی معاونت کرتے ہیں اور جہاں سے دہشت گردی کو بنیادی انسانی طاقت کی کمک میسر آتی ہے وہ ان دونوں ملکوں کے نزدیک تر واقع ہیں۔ ان ملکوں کے ساتھ معاونت کیے بغیر دہشت گردی کی بیخ کنی نہیں کی جا سکتی۔ یہ ہو سکتا ہے کہ بظاہر دہشت گردی تمام ہوتی لگے لیکن وہ ایک بار پھر پھوٹ پڑے گی۔
اگر امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ دہشت گردی سے محفوظ ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ دہشت گرد ایک سوچ کے تحت کام کر رہے ہیں۔ ہر جگہ ان کے ہمدرد، ساتھی، معاون اور مددگار موجود ہیں۔ وہ میکسیکو سے امریکہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ کینیڈا میں مشرق کے ملکوں سے آئے بوئے بے تحاشا لوگ موجود ہیں، ان کے بچوں میں ایسی سوچ پروان چڑھ سکتی ہے۔ اگر ہر ملک محض اپنے گھر کو دہشت گردوں سے بچانے کی سعی کرتا رہے گا تو عالمی دہشت گردی نہ صرف یہ کہ کبھی ختم نہیں ہو پائے گی بلکہ بڑھتی چلی جائے گی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“